امریکہ میں سیاہ فام شہری کی ہلاکت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ بربریت کا بدترین نمونہ قرار دے کر پوری امریکن قوم اس ظالمانہ اقدام کے نتیجے میں 13دنوں سے سراپا احتجاج ہے جبکہ نسل پرستی کے خلاف دنیا بھر میں تاریخی مظاہرے جاری ہیں۔ کینیڈا کے وزیراعظم بھی ان مظاہروں میں شامل ہو چکے ہیں۔ پرتشدد مظاہروں سے لے کر جلاؤ گھیراؤ اور مظاہرین سے خوفزدہ ٹرمپ کی دوڑوں تک جو کچھ سننے اور دیکھنے کو مل رہا ہے ہمارے ہاں اس کا تصور بھی محال ہے۔ دنیا بھر میں نسل پرستی کے خلاف فلک شگاف انسانی آوازیں سراپا احتجاج نظر آتی ہیں۔
اب ایک نظر مملکتِ خداداد کے نظام پر ڈالتے ہیں۔ کرئہ ارض پر شاید ہی کوئی ایسا خطہ ہو جہاں آئین سے لے کر قوانین تک‘سماجیات سے لے کر معاشیات تک‘اخلاقی قدروں سے لے کر مذہب اور عقائد تک‘سبھی کو بگاڑنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ ملک کے طول و عرض میں ڈھونڈے سے بھی کوئی ایسا مائی کا لعل نہیں ملتا جس کی قسم دی جاسکے‘ جس کی گواہی دی جاسکے کہ اس نے حق ِحکمرانی ادا کر دیا۔ ایسے ایسے دلخراش اور اوسان خطا کردینے والے واقعات صبح و شام اس تواتر سے دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں کہ اچھے خاصے اعصاب والا بھی نیم پاگل سا ہو جاتا ہے۔ اس معاشرے کا اصل اور گھناؤنا چہرہ دکھانے کے لیے چند منتخب خبریں شیئر کرتا چلوں‘ راولپنڈی میں طوطا اُڑانے کی سزا دیتے ہوئے آٹھ سال کی بچی کو قتل کرنے کی لرزہ خیز واردات نیند اُڑا دینے کے لیے کافی ہے تولاہور میں خاوند اور بچوں کے سامنے خاتون سے اجتماعی زیادتی دن کا چین برباد کیے ہوئے ہے‘ جبکہ چند روز قبل ہی کراچی کی سڑکوں پر دو بہنوں کے سامنے ان کے اکلوتے بھائی کو گولیاں مار کر قتل کر دیاگیا تھا۔
آوارہ اور خونی کتے جیتے جاگتے انسانوں کو چیرپھاڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔ لاڑکانہ میں چھ سالہ حسنین کو آوارہ کتوں نے ایسا بھنبھوڑا کہ اس معصوم کا چہرہ نہ صرف مسخ ہو گیا بلکہ لہو لہان کمسن بچہ موت اور زندگی کی کشمش میں مبتلا رہنے کے بعد دم توڑ گیا۔ اسی شہر میں آوارہ کتے کا شکار بننے والے ایک بچے نے اپنی ماں کی گود میں تڑپ تڑپ کر جان دے دی‘مگر پورے شہر میں کتے کے کاٹے کی ویکسین ہی دستیاب نہ تھی۔ پنجاب بھر کے اضلاع میں بھی آوارہ کتے چلتے پھرتے‘ جیتے جاگتے انسانوں کو بھنبھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ لاہور جیسے شہر میں آوارہ کتے آج بھی راہگیروں کے لیے خوف کی علامت ہیں۔ ابھی چند روز قبل ہی ایک پبلک پارک میں غبارے بیچنے والے بچے کو پالتو کتوں کے آگے اس طرح ڈال دیا گیا تھا کہ گویا وہ کوئی انسان نہیں‘ گوشت کا لوتھڑا ہو۔ بے حسی کا عالم یہ ہے کہ ان خونخوار کتوں سے بچے کو بچانے کے بجائے موقع پر موجود سبھی افراد تماشائی بنے ویڈیو بنانے میں مصروف رہے۔ اس سانحہ کے ذمہ داران بھی قانون کی گرفت سے اس لیے محفوظ ہیں کہ وہ غریب خاندان ان کی سفاکیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اسی طرح کراچی میں چوری کے شبہ میں ایک بچے کو پکڑ کر آہنی راڈوں سے اس طرح مارا گیا تھا کہ وہ جاں بحق ہو گیا۔
قصور کی زینب کے بعد یہ گمان تھا کہ شاید اب حوا کی کوئی بیٹی زینب جیسے حالات سے نہیں گزرے گی‘ مگر زینب کے بعد بھی معصوم بچوں کے اغوا‘ زیادتی اور قتل کا سلسلہ ایک دن نہ رُکا۔ اسی طرح غذائی قلت کا شکار سینکڑوں مریض ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ روٹی اور دیگر بنیادی سہولتیں نہ ملنے اور وبائی امراض کا شکار ہو کر ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں میں تقریباً 1000 افراد اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف ایک ہسپتال کے ہیں جو رپورٹ ہو چکے ہیں‘ جبکہ سندھ کے دیگر علاقوں میں ہونے والی ہلاکتوں اور غیر رپورٹ شدہ کیسز کی تفصیل ہوش اُڑا دینے کے لیے کافی ہے۔
جب حکمرانوں اور ان کے سر چڑھوں کو ان کی اوقات اور ضرورت سے زیادہ ملنا شروع ہو جائے تو عوام کو بنیادی ضروریات کے لیے بھی ترسنا پڑتا ہے۔ غذائی قلت کا شکار اور بنیادی ضروریات کے لیے ترسنے والے معصوم بچوں کے حصے کی روٹی کون ہڑپ کر رہا ہے؟ وہ صاف پانی جس پر ان کا بنیادی حق ہے وہ کون ڈکار گیا؟ علاج معالجے کی سہولیات کیوں ناپید ہوگئیں؟عوام کو بنیادی سہولتوں کیلئے ترسانے والوں کے کتوں اور گھوڑوں کی خوراک کا بجٹ کتنے ہی بے کس اور لاچار عوام کو غذائی قلت سے بچانے کے کام آسکتا ہے۔ہمارے عوام نے بھی کیا قسمت پائی ہے‘ تھرپارکر میں قحط سالی کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں جانوروں اور انسانوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ پانی اور خوراک کے لیے دونوں ہی تڑپتے ہیں اور تڑپتے پڑپتے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ لرزا دینے والے ان واقعات پر مجال ہے کسی کے کان پر جوں تک رینگتی ہو۔ کسی نے صدائے احتجاج بلند کی ہو‘ یا کوئی یکجہتی کے لیے باہر نکلا ہو‘ نام نہاد سول سوسائٹی سے لے کر موم بتی والوں تک ‘ سبھی نجانے کہاں جا سوئے ہیں اور گاتے پھرتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں۔
اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سرکار اور عوام کے درمیان ایک مقابلہ جاری ہے۔ دونوں ہی ایک دوسرے کی نفی سے لے کر مزاحمت اور محاذ آرائی تک سبھی مراحل میں مدمقابل نظر آتے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ عوام بھی قسم کھائے بیٹھے ہیں کہ ضابطوں اور قوانین سے لے کر اخلاقی و سماجی قدروں تک‘بدنظمی سے لے کر بے حسی اور سفاکی تک‘من مانی اور ہٹ دھرمی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا۔ ذخیرہ اندوزی سے لے کر چور بازاری تک‘ناپ تول میں ڈنڈی مارنے سے لے کر ملاوٹ جیسے مکروہ اور گھناؤنے فعل تک‘اشارہ توڑنے سے لے کر سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ تک‘سبھی کچھ ڈھٹائی اور دیدہ دلیری سے کرتے رہیں گے۔ دوسری طرف حکومت زمینی حقائق سے بے نیاز پالیسی اور قوانین بنا کر نجانے کون سی گورننس کا جھنڈا اٹھائے نازاں اور اترائے پھر رہی ہے۔ تھانوں میں انصاف اور امان نہیں جبکہ ہسپتالوں میں کوئی پرسانِ حال نہیں‘کہیں گورننس پر سوالیہ نشان ہیں تو کہیں میرٹ بے نام و نشان ہے‘کسی کی اہلیت معمہ ہے تو کسی کی قابلیت دھوکہ ہے۔ گویا سرکار اور عوام کے درمیان کانٹے دار مقابلہ جاری ہے کہ کون کس پر سبقت لے جاتا ہے۔
چلتے چلتے کورونا کے حوالے سے اقدامات کا ذکر بھی کرتا چلوں جس کے نتیجے میں نئے کیسز اور اموات کی شرح ہوش اُڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انصاف سرکار عوام اور کورونا کو آمنے سامنے‘ ایک دوسرے کے منہ پہ کروا کر روز ایک نیا سیکٹر لاک ڈاؤن کی پابندیوں سے آزاد کر رہی ہے۔ مزارات کے بعد اب پارکوں میں بھی کورونا بم چلتے پھرتے نظر آئے ہیں۔ بازاروں میں گھمسان کا رَن پہلے ہی پڑ چکا ہے‘ جبکہ بھوک اور لاک ڈاؤن کے تصادم سے خائف سرکار حالات الارمنگ سٹیج تک پہنچا کر صرف بھاشن اور فوٹو سیشن تک محدود ہو چکی ہے۔ گویا اب عوام جانے‘ کورونا جانے اور خدا جانے۔
کورونا ایکسپرٹس ایڈوائزری گروپ کی طرف سے نازک حالت والے مریضوں کے لیے مفید قرار دیا جانے والا انجکشن ایکٹمرا ملک بھر میں منہ مانگی قیمت پر بھی دستیاب نہیں ہے اور چلے ہیں ایس او پیز پر عمل کروانے۔ ایک ایک گھر سے کئی کئی جنازے اٹھنے کی اطلاعات نے خوف اور مایوسی میں اضافہ کر دیا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے بیڈ دستیاب نہیں تو پرائیویٹ ہسپتال فائیو سٹار ہوٹل کے چارجز وصول کر کے مریضوں کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ اس شرمناک صورتحال پر بھی سرکار کا دعویٰ ہے کہ دنیا ہماری حکمتِ عملی کی معترف ہے۔