تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     03-06-2013

یورپ میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتا ہوا اشتعال

لی رگبی کے بہیمانہ قتل کو دو ہفتے گزر جانے کے باوجود برطانوی عوام اور میڈیا کی توجہ اس کیس پر مرکوز ہے۔ ہم پاکستانیوں کے لیے یہ بات تعجب خیز ہے کیونکہ ہم ملک کے مختلف حصوں میں روزانہ درجنوں کی تعداد میں ہونے والی قتل کی وارداتوں کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ قتل کا ایک واقعہ ہمارے ہاں خبر بھی نہیں بنتا۔ ہمارے ہاں دہشت گردوں کی جانب سے اپنے دشمنوں کا سر قلم کرنا کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے لیکن برطانوی عوام کے لیے یہ بات یقیناً دل دہلا دینے والی تھی کہ ان کی گلیوں میں دن دیہاڑے اُن کے فوجیوں کو ذبح کر دیا جائے۔ اس جرم کا ارتکاب کرنے والے نائیجیریا کے دو باشندوں، جو گرفتاری کے وقت ہونے والی فائرنگ سے زخمی ہو گئے تھے، پر صحت یاب ہونے پر کیس چلایا جائے گا۔ اس کیس پر یقیناً دنیا بھر کی نظر ہو گی۔ اس قتل کی سب سے لرزہ خیز بات یہ تھی کہ ملزمان میں سے ایک، جس کے ہاتھ اُس فوجی کے خون سے رنگے ہوئے تھے، نے کھلے عام اس قتل کا جواز پیش کیا۔ کسی نے اُس کی سیل فون کیمرے سے فلم بھی بنائی جسے بہت سے افراد نے دیکھا۔ ملنے والی تفصیلات کے مطابق دونوں ملزمان، مائیکل ادیبووال (Michael Adebowale) اور مائیکل ادیبولاجو (Michael Adebolajo) نے پہلے رگبی کو کار سے گھسیٹ کر نیچے گرایا۔ پھر وہ اُسے سڑک کے بیچ میں لے گئے جہاں اُس کا سر قلم کرنے کی کوشش کی۔ فوجی کا جسم اس قدر مسخ ہو چکا تھا کہ اُس کے دانتوںکے ریکارڈ سے اُس کی شناخت کرنا پڑی۔ اپنے شکار کو قتل کرتے ہوئے وہ مسلسل نعرے لگا رہے تھے۔ رپورٹ کے مطابق ادیبو لاجو بلند آواز میں چلاّ رہا تھا۔۔۔ ’’ہم قسم کھاتے ہیںکہ ہم اس جنگ کو ہمیشہ جاری رکھیں گے‘‘ اس اندوہناک واقعے اور اس دوران نعروں نے برطانیہ کی دائیں بازو کی جماعتوں کو مشتعل کر دیا ہے جبکہ لبرل برطانوی شہری بھی خوف کا شکار ہیں کیونکہ اُن کو احساس ہو چکا ہے کہ انتہا پسند عناصر اُن کے معاشرے میں بھی پل رہے ہیں۔ نائیجیریا نژاد اٹھائیس سالہ ادیبولاجو نے اسلام قبول کیا اور 2003ء میں کالعدم تنظیم المہاجرون میں شمولیت اختیار کی۔ تین سال پہلے اُسے کینیا کے حکام نے اُس وقت گرفتار کر لیا جب وہ غیرقانونی طور پر صومالیہ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ الشباب نامی گروہ، جو حکومت کے ساتھ جنگ کر رہا ہے، میں شامل ہو کر جہاد کر سکے۔ کینیا میں پولیس نے اُسے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ بات تعجب خیز نہیں کہ فوجی کو قتل کرنے کے واقعے کے بعد برطانیہ میں مسلمانوں پر حملے بھی کیے گئے اور ان کے خلاف اشتعال انگیز زبان بھی استعمال کی گئی۔ اگرچہ رگبی کے اہلِ خانہ نے پُرامن رہنے کی اپیل کی اور کہا تھا کہ وہ اس قتل کی بنا پر معاشرے میں تقسیم نہیں چاہتے لیکن ’’انگلش ڈیفنس لیگ‘‘ نے ملک بھر میں مظاہروں کا اعلان کر دیا۔ اگرچہ ای ڈی ایل کا کہنا ہے کہ وہ رگبی کے قتل کے سوگ میں پُرامن مارچ کرے گی لیکن اس کے انتہائی جذبات رکھنے والے دائیں بازو کے عناصر کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس موقع پر مسلمانوں اور رنگ دار جلد والے افراد کے خلاف اپنے تعصبات کا شدید اظہار کریں گے۔ بہت سے مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ اس وحشیانہ حملے کو ایک انفرادی فعل قرار دیا جائے نہ کہ اسے برطانیہ میں مقیم عام مسلمانوں کا اجتماعی فعل سمجھا جائے۔ باوجود اس کے کہ رگبی کی موت کے ایک ہفتے کے اندر اندر مسلمانوں پر دو سو کے قریب حملے ہو چکے ہیں، یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ برطانوی معاشرے نے مجموعی طور پر مسلمانوں سے نفر ت کا اظہار نہیں کیا ہے۔ بہرحال، اس واقعے نے مغرب میں پھیلے ہوئے اس تاثر کو ضرور تقویت دی ہے کہ مسلمانوں کو پُرتشدد کارروائیوں کا درس دیا جاتا ہے۔ ابھی رگبی کا معاملہ سرد نہیں پڑا تھا کہ فرانسیسی فوجی کیڈرک کارڈیز (Cedric Cordiez) کو ایک نومسلم الیگزنڈر ڈھاسی نے قتل کر دیا۔ فرانسیسی پولیس اس کیس کو لندن میں ہونے والے قتل کی روشنی میں دیکھ رہی ہے۔ سی سی ٹی وی کیمروں نے وہ منظر ریکارڈ کیا ہے جس میں قاتل نے فوجی کو ہلاک کرنے سے پہلے دس منٹ تک دعا مانگی۔ پھر سویڈن سے خبر آئی کہ پُرتشدد فسادات میں وہاں آباد تارکینِ وطن نے سینکڑوں گاڑیوں اور عمارتوں کو نذر آتش کر دیا۔ اگرچہ قومی میڈیا نے اس بات کو نہیں اچھالا لیکن فساد کرنے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق مسلمانوں سے تھا۔ سویڈن تارکینِ وطن کے لیے بہت آسانیاں فراہم کرتا ہے۔ گزشتہ سال چوالیس ہزار تارکین وطن نے اس سرزمین کو اپنا مسکن بنایا۔ اس کی نو ملین آبادی میں سے نصف تعداد غیرملکی آباد کاروں پر مشتمل ہے۔ یہاں شہریوں کو بہت زیادہ سہولیات دستیاب ہیں جبکہ معاشرہ رواداری اور تحمل کے اصولوںپر کاربند ہے؛ تاہم یہاں بھی بے چینی کی لہریں ابھر رہی ہیں کیونکہ غیرملکی آباد کار، جن کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، میں یہ خوبیاں نہیں پائی جاتیں۔ اپنے مضمون ’’اسلام اور یورپ‘‘ میں نکولائی سینالز لکھتے ہیں۔۔۔’’ جدید، سیکولر اور لبرل معاشروں کے لیے یہ بات بہت تعجب خیز ہے کہ مسلمان اپنے عقیدے کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں جبکہ دیگر قومیں عقیدے پر علم کو ترجیح دیتی ہیں‘‘ اگرچہ ہم اہل یورپ کو ’’پرامن‘‘ نہیں مانتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت یورپ مذہب سے کنارہ کشی کی راہ پر گامزن ہے۔ مثال کے طور پر سپین میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق ستر فیصد نوجوان آبادی کی رائے ہے کہ سکول کے نصاب میں مذہب کو شامل نہیں ہونا چاہیے۔ وہ تعلیمی عمل میں چرچ کو شامل کیے جانے کی مخالفت کرتے ہیں۔ نکولائی سینالز نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ اگرچہ یورپ کے عام شہریوں کے خیالات نہیں لیکن یہاںپر مقامی لوگ مسلمان آبادکاروں کی جنگجویانہ ذہنیت سے خائف ہیں۔ لبرل مزاج اہل یورپ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ عام مسلمان مجموعی طور پر پرامن شہری ہیں لیکن وہ اس بات پر پریشان ہیں کہ کئی عشروںتک رہنے کے باوجود وہ اپنے میزبان ملک کے کلچر میں ضم نہیں ہو پائے ہیں۔ حال ہی میں آکسفورڈ میں نوجوانوں کا ایک کیس منظرِ عام پر آیا۔ اُن پر الزام ہے کہ اُنھوں نے بے سہارا نوعمر سفید فام لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اس کیس کی تفصیلات سامنے آنے پر مقامی آبادی میں خاصا اشتعال پھیل گیا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگرچہ یہ نوجوان لبرل معاشروں میں رہ رہے ہیں لیکن وہ اب بھی پُرانی ذہنیت کا شکار ہیں۔ یہاں محتاط مبصرین نے رائے دی کہ اس واقعے کو انفرادی طور پر دیکھا جائے؛ تاہم ایسی سیاسی رائے کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ جب اس طرح کے واقعات تسلسل سے جاری ہیں، دائیں بازو کی جماعتوں کو غیرملکی، خاص طور پر مسلمانوں، کے خلاف جذبات ابھارنے کا موقع مل رہا ہے۔ افسوس، فی الحال ایسے شواہد عنقا ہیںکہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہیں ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved