تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     08-06-2020

آج تو لطف اندوز ہو لیں!

کل کے کالم سے متعلق ایک وضاحت۔ میں نے لکھا کہ مرنا تو ہے ہی ‘ آج مریں یا پچاس سال بعد ۔ اس لیے کورونا کے ہنگام میں توموت کے لیے تیار ہوں ۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ ماسک اتار کے کسی ہسپتال کے اندر گھس جائیں کہ جلد از جلد وائرس میرے اندر داخل ہو اور قصہ تمام ۔ ماسک سمیت تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنا فرض ہے‘ ورنہ آپ خودکشی کے مرتکب ہوں گے ۔ احتیاط کے باوجود‘ اگر موت کا وقت آ ہی گیا ہے تو پھر اس سے خوفزدہ ہونے کا فائدہ؟ بہت سے لوگ 100سال سے بھی طویل زندگی پاتے ہیں ‘ نہ ان سے چلا جا رہا ہوتاہے ۔ نہ وہ کوئی کام کر سکتے ہیں۔بڑھاپے کی شدت میں انسان اس حالت کو پہنچ جاتاہے کہ اسے بچوں کی طرح ڈائپر لگانا پڑتا ہے ۔ بستر پر لیٹے لیٹے اس کی کمر تختہ ہو جاتی ہے ۔ اس کی باتوں سے دانائی رخصت ہو جاتی ہے اور لوگ اس کے پاس بیٹھنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ چند قدم کا فاصلہ وہ بیس منٹ میں طے کرتے ہیں ۔ 
انسان کی سوئی ہمیشہ اسی بات پہ اٹکی رہتی ہے کہ وہ آنے والے کل کو روشن کرتا چلا جائے ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا‘ اس مقصد کو پورا کرنے کا ایک ہی طریقہ اس کی سمجھ میں آتاہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت کمائی جائے ۔ دولت کمانا کوئی بری بات نہیں ۔ بڑے بڑے کاروباری حضرات جو اپنی بزنس امپائر بناتے ہیں ‘ ان میں ہزاروں لاکھوں لوگ کام کرتے ہیں ‘ اگر دنیا میں بل گیٹس جیسے لوگ نہ ہوتے تو کروڑوں لوگوں کو نوکریاں کیسے ملتیں؟ مسئلہ تب پیدا ہوتاہے کہ جب آپ آنے والے کل پہ اپنا آج مکمل طور پر قربان کر ڈالتے ہیں ۔ آپ پیسے جمع کرنے کے لیے بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں اور چند ماہ بعد آپ کے گھر اولاد پیدا ہوتی ہے ۔ آپ بیرونِ ملک سے اسے سکائپ پر دیکھتے ہیں ۔ اس کے ساتھ بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ غوں غاں کر کے چپ ہو جاتاہے ۔ اسے آپ سے کہیں زیادہ ان کارٹونز میں دلچسپی محسوس ہوتی ہے ‘جن میں اس کی پسند کے رنگ برنگے کردار اچھل کود کرتے نظر آتے ہیں ۔ 
یہ وہ وقت ہوتاہے کہ جب بچّے کے دماغ میں خلیات (نیورونز) کے درمیان کنکشنز بن رہے ہوتے ہیں ۔ ان کنکشنز میں باپ کی محبت سٹور ہو رہی ہوتی ہے ‘ جو کہ باقی ساری زندگی کے لیے اس کی متاع ہے ۔ نئی نئی شادی کرنے والا میرا ایک دوست کہنے لگا کہ میری اولاد ہوئی تو پی ایچ ڈی کرنے میں چین چلا جائوں گا ۔ بیوی بچّے میں مگن ہو جائے گی اور مجھے سکون سے تعلیم مکمل کرنے کا موقعہ مل جائے گا۔ میں نے کہا کہ اس سے برا منصوبہ اور ہو ہی نہیں سکتا۔ انسان دنیا میں کام کرتا ہے ‘شادی کرتا ہے ‘پیسے کماتا ہے۔ یہ سب وہ کیوں کرتاہے ؟ خوشی حاصل کرنے کے لیے ۔ خوشی کی انتہا یہ ہے کہ آپ کا بچّہ آپ کے ساتھ کھیل رہا ہے ۔ شیر خوار بچوں کے منہ سے ایک خاص قسم کی خوشبو آتی ہے ۔ 
ایک دن میں مصیبت میں گھرا ہوا تھا۔ میں واش روم جانا چاہتا تھا ‘لیکن میری بیٹی مشیہ میری انگلی پکڑ کر مجھے باہر کی طرف گھسیٹ رہی تھی ۔ جب میں نے بہت زور لگایا تو ایک دم وہ انتہائی پراسرار لہجے میں بولی ''ببّو کاٹی ‘‘ ۔ وہ مجھے ڈرا رہی تھی ۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ واش روم کے ایک ایک ببّو (کیڑا ) ہے ‘ جو مجھے کاٹ لے گا ۔ ہنس ہنس کے میں لوٹ پوٹ ہو گیا ۔یقینا کسی نے اسے ببو سے ڈرایا تھا اور اب وہ مجھے ڈرا رہی تھی ۔جب میں اس کی کسی بات پر ہنستا ہوں تو وہ بھی ہنس پڑتی ہے ‘ پھر وہ وہی بات بار بار دہراتی ہے اور میری طرف دیکھتی ہے کہ میں ہنس رہا ہوں یا نہیں ۔ اکثر اوقات کافی دیر تک مجھے زبردستی ہنسنا پڑتا ہے ۔یہ ہیں زندگی کی خوشیاں ۔ نری دولت ان کا مداوا نہیں کر سکتی۔
بات یہ ہو رہی تھی کہ انسان ایک ایسی مخلوق ہے ‘ جس کے دماغ میں آنے والا کل پھنسا ہوا ہے ۔کل کیا ہوگا ؟اس کے دماغ میں حادثات ‘ غربت‘ بھوک اور بیماری کے خطرات چکراتے رہتے ہیں ۔یہ کوئی بری بات نہیں کہ انسان آنے والے کل کی تیاری کرے۔ مصیبت کے لیے پیسہ جمع کرے‘ لیکن ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے ۔ جیسا کہ کل عرض کیا‘ زندہ چیز کا کوئی محفوظ مستقبل نہیں ۔ اس کا مستقبل صرف اور صرف موت ہی ہے ‘ اگر اس کے اہلِ خانہ کے دل میں اس کی محبت ہی نہیں ‘ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر آنے والی لامتناہی زندگی کی تیاری ہی نہیں تو پھر یہ دولت اس کے کس کام کی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ویسے بھی بڑھاپازندگی کو انجوائے کرنے کی انسانی صلاحیت کم کرتا چلاجاتا ہے ۔ 
میرا ایک دوست ہے ۔متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اس شخص نے اپنی ذاتی محنت سے پندرہ بیس کروڑ روپے کی جائیداد بنا لی ہے‘ لیکن آپ کو وہ ہمیشہ تکلیف میں نظر آئے گا۔ وہ اچھا خاصا موٹا ہو چکا ہے ۔ بلڈپریشر اور ذیابیطس کی بیماریاں‘ اسے ہیں ۔کمر میں تکلیف رہتی ہے ۔ کسی کے پاس اس کے پندرہ لاکھ روپے پھنسے ہوں تو وہ مرنے والا ہو جاتا ہے ۔ بندہ پوچھے کہ جو پندرہ کروڑ بینک میں پڑے ہیں ‘ پہلے اس کا مزہ تو لے لو۔ ہر چیز کی ایک قیمت ہے ‘ اگر آپ وزن کم نہیں کرتے تو کمر میں تکلیف‘ بلڈ پریشر‘ ذیابیطس اور دل کی بیماریاں آپ کی منتظر ہیں ۔ پچاس سال ہی کی عمر میں ہی اللہ کو پیارے ہو جانے کے امکانات روشن ہیں ‘ اگر آپ علمی اور روحانی طور پر مضبوط نہیں تو آپ کے ذہن کو وسوسے گھیر سکتے ہیں اور آپ ذہنی مریض بن سکتے ہیں ۔
جو لوگ ذہنی تکلیف سے گزرتے ہیں ‘ وہ بتاتے ہیں کہ موت اس تکلیف سے کہیں بہتر ہے ۔ میں یہ کہتا ہوں کہ جو نعمتیں اللہ نے آپ کو آج دے رکھی ہیں ‘ آپ پہلے ان سے تو لطف اندوز ہو لیں ۔ مستقبل کی منصوبہ بندی تو بعد میں بھی ہو سکتی ہے اور مستقبل کس نے دیکھا ہے ۔
شاعر نے کہا تھا: ایک نس ٹس سے مس اور بس !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved