تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     09-06-2020

امریکی آزادی اور ہماری غلامی کا دور

میں مسلسل کئی روز سے اس پیچ و تاب میں تھا کہ اس شے کا کھوج لگائوں جس نے پولیس آفیسر کے ہاتھوں صرف ایک شخص کے قتل کے خلاف سارے امریکہ کو آتش فشاں بنا دیا ہے۔ کیا کالے‘ کیا گورے‘ کیا یورپی‘ کیا ایشیائی‘ کیا مسلمان‘ کیا عیسائی‘ کیا یہودی غرضیکہ ہر طرح کے امریکی 12 روز سے نہایت پرجوش انداز میں اپنے غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بلیک افریقی امریکیوں نے اپنے لیے جینے کا حق چار سو سالہ قربانیوں سے حاصل کیا تھا‘ لہٰذا جونہی کوئی ایسا دلخراش واقعہ سامنے آتا ہے جس سے امریکہ کے دورِ جاہلیت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے تو اس پر ہر صاحب ِاحساس امریکی کا تڑپ جانا ایک فطری امر محسوس ہوتا ہے۔
1619ء میں جب انسانیت فروش یورپی سوداگر افریقی باشندوں کے پہلے قافلے کو زنجیروں میں جکڑ کر ا مریکہ لائے تو تب ان بدقسمت انسانوں کی حیثیت حیوانوں سے بدتر تھی۔ پھر ایک طرف یہ نوآبادکار یورپی لٹیرے اور قانون شکن امریکہ کی اصل آبادی ریڈ انڈینز کو بندوق اور جدید ٹیکنالوجی کے زور پر ٹھکانے لگاتے رہے اور دوسری طرف وہ افریقی غلاموں کے خلاف شکنجے کو سخت سے سخت کرتے ہوئے اُن کی خریدو فروخت کو جائز قرار دلوانے کے لیے قانون بنواتے رہے۔ 1777ء میں امریکی جمہوری آئین بھی وجود میں آ گیا جس میں تمام انسانوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت بھی دی گئی مگر افریقی غلام ان میں شامل نہ تھے کیونکہ گورے امریکی انہیں انسان نہ سمجھتے تھے۔ اس آئین کے وجود میں آنے کے بعد 1793ء میں ایک ہولناک قانون منظرعام پر آ گیا جس کے مطابق کسی غلام کو بھگانا یا اسے فرار میں مدد دینا ایک بہت بڑا جرم قرار دیا گیا جس کی بڑی شدید سزا تھی۔ 1861ء میں ابراہام لنکن امریکہ کا صدر منتخب ہوا تو اس نے غلامی کو خلافِ قانون قرار دے دیا۔ امریکہ کی شمالی ریاستوں نے تو اس قانون کا خیرمقدم کیا مگر جنوبی ریاستوں نے اسے مسترد کر دیا کیونکہ وہ غلاموں سے کھیتی باڑی‘ باربرداری اور محنت و مشقت کے دیگر کام لیتے تھے۔ وہ غلاموں کی آزادی کے خلاف ڈٹ گئے۔ یوں 1861ء سے لے کر 1865ء تک شمالی اور جنوبی ریاستوں میں جنگ چھڑ گئی جو چار برس تک جاری رہی۔ اس میں تین لاکھ 65 ہزار امریکی ہلاک ہو گئے۔ شمالی ریاست کا ساتھ دینے والے سیاہ فام افریقی 80 ہزار کی تعداد میں موت سے ہمکنار ہو گئے۔ امریکی دستور کی 14ویں ترمیم میں گورے اور کالے امریکیوں کے برابر حقوق کا اعلان کر دیا گیا۔ مگر عملاً ایسا نہ ہو سکا۔ جہاں تک کالے امریکیوں کا تعلق ہے تو انہیں 1831ء کے زاٹ ٹرنر کی مسلح جدوجہد سے لے کر 1955ء کی منٹگمری الباما ریاست کی روزا پارکس کے بس بائیکاٹ کی ایک سالہ پرامن تحریک تک سب کچھ یاد ہے۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھیے اور پھر دیکھیے کہ جب 25فیصد کو ریاست منی سوٹا کے شہر منی پولس میں ایک سیاہ فام باشندے کو گاڑی سے نکال کر دونوں ہاتھوں پر ہتھکڑی لگا کر اسے سڑک پر الٹا لٹا دیا اور پھر محض شوقِ شکار میں 46 سالہ جارج فلائیڈ کی گردن کو اس نے 8 منٹ 46 سیکنڈ تک دبائے رکھا۔ جارج دہائی دیتا رہا کہ میرا دم گھٹ رہا ہے‘ مجھے سانس نہیں آ رہا‘ میری گردن چھوڑو‘ مگر بھیڑیا صفت گورے پولیس آفیسر نے اس وقت تک اس کی گردن کو آزاد نہیں کیا جب تک اس کا دم نہیں نکل گیا۔ یہ منظر دو راہگیر دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اس ساری کارروائی کی ویڈیو بنا لی اور جب چند منٹوں میں یہ اپ لوڈ ہو گئی تو فی الفور منی پولس میں اور تھوڑی دیر بعد سارے امریکہ میں پولیس کی درندگی اور سفیدفام برتری کے خلاف کہرام مچ گیا۔ جارج فلائیڈ کے بہیمانہ و سفاکانہ قتل پر اس لیے شدید احتجاج ہو رہا ہے کیونکہ سرنڈر کرتے ہوئے شخص کو تین دوسرے پولیس افسروں کی موجودگی میں سنگدلانہ قتل کی واضح ویڈیو سامنے آئی۔ دوسرے ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح انتخابی مہم کے دوران سفیدفام برتری کے کارڈ کو استعمال کر کے ایک بار پھر تعصب کے شعلوں کو ہوا دینے کی کوشش کی اس پر بھی لوگ پہلے ہی غصے میں بھرے ہوئے تھے۔ تاہم جس طرح سے امریکی گزشتہ 12 روز سے لاکھوں کی تعداد میں احتجاج کر رہے ہیں اس سے یہ اطمینان بخش حقیقت اجاگر ہو کر سامنے آئی ہے کہ عمومی امریکی ضمیر بیدار ہے اور وہ اس آزادی کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ ان احتجاجوں اور جلوسوں میں کورونا کی وجہ سے جان جانے کے خطرات بھی تھے‘ مگر وہ ہرچہ بادا باد کہتے ہوئے میدان میں اتر آئے۔ امریکہ کی پچاس ریاستوں کے کم و بیش 700 بڑے اور چھوٹے شہروں میں زبردست احتجاج ہو رہا ہے۔ جو سب سے خوش آئند بات ہے وہ یہ کہ پولیس کی اس قانون شکنی اور بربریت کا ہر ریاست کے حکام نے فی الفور شدید ترین نوٹس لیا ہے۔ منی پولس جہاں یہ واقعہ ہوا ہے وہاں کی سٹی کونسل کی ایک ممبر جرمھا ایلسن نے بتایا کہ ہم محکمہ پولیس کو توڑ رہے ہیں‘ پھر اسے لیپا پوتی کر کے جوڑیں گے نہیں بلکہ ازسرنو سوچیں گے کہ ہم نے ایک مہذب معاشرے کے شایانِ شان شہریوں کی حفاظت کا کیا انتظام کرنا ہے۔ نیویارک کہ جہاں اب تک پولیس کی چیرہ دستیاں جاری ہیں وہاں کی سٹی کونسل کے سپیکر کوری جانسن نے اعلان کیا کہ ہم پولیس کے 6 بلین ڈالر کے بجٹ میں سے 700 ملین کم کر رہے ہیں۔ اسی طرح بدھ کے روز لاس اینجلس کے میئر ایرک گارسٹی نے اعلان کیا کہ وہ پولیس کو 150 ملین ڈالر کی اضافی رقم کو فی الفور روک لیں گے۔ اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے غضبناک لمحوں میں فوج کو طلب کرنا چاہا تو وزارتِ دفاع مزاحم ہو گئی اور وزیر دفاع نے رینجرز کو غیرمسلح کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہفتے اور اتوار کو بھی امریکہ کے بڑے شہروں میں زبردست مظاہرے ہوئے اور وائٹ ہائوس واشنگٹن کے باہر تو ڈیڑھ دو لاکھ کا احتجاجی مجمع تھا جو سب پولیس افسران کو کیفر کردار تک پہنچانے اور پولیس اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہ بات میرے لیے اطمینانِ مزید کا باعث ہوئی ہے کہ امریکی ضمیر ہی نہیں ضمیر عالم بھی ابھی زندہ ہے۔ 
اب آئیے وطن عزیز کی طرف‘ جہاں ہمیں قدم قدم پر پولیس کی چیرہ دستیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ‘مگر اس کے خلاف ساری قوم سراپا احتجاج بن کر اور ڈٹ کر نہیں کھڑی ہو جاتی اس لیے کہ ہم پولیس کی غلامی کو قبول کیے ہوئے ہیں۔ میں زیادہ پیچھے نہیں جاتا ماضی قریب کے چند واقعات آپ کو یاد دلاتا ہوں۔ 2014ء میں ماڈل ٹائون میں دن دہاڑے پنجاب پولیس نے 12 معصوم شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور سینکڑوں کو زخمی کر دیا۔ 2015ء میں پولیس نے دو نوجوان بھائیوں کو راولپنڈی کے ایک چیک پوائنٹ پر نہ رکنے کی پاداش میں گولیوں سے بھون ڈالا۔ 2018ء میں جعلی پولیس مقابلوں کے شہرت یافتہ ایس ایس پی رائو انوار نے جوان رعنا نقیب اللہ محسود کو ایک جھوٹے مقابلے میں مار ڈالا۔ اب میں آپ کو 19 جنوری 2019ء کا دل دہلا دینے والا واقعہ بھی یاد دلا رہا ہوں کہ جب کائونٹر ٹیررازم پولیس نے بے قصور خاندان کے چار انسانوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ اس پر بھی پاکستان آتش فشاں بنا اور نہ ہی ''میرے پاکستانیو!‘‘ اور اُن کے والی کا ضمیر جاگا۔ اب پاکستان کے دانشور اور حکمران فیصلہ کر لیں کہ کیا یہ امریکی آزادی اور ہماری غلامی کا دور نہیں؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved