نبی اکرمﷺ نے اپنی امت کی رہنمائی کے لیے قرآن اور اپنی سنت کی صورت میں روشنی کے جو دوبنیادی مآخذ چھوڑے ہیں‘ ان کی موجودگی میں امت کبھی گمراہ نہیں ہوسکتی۔ قرآن پاک کی تشریح وتفسیر‘ دورِصحابہ سے لے کر آج تک اہلِ علم وعرفان اپنے اپنے انداز میں‘ اپنے فہم وذوق کے مطابق کرتے چلے آرہے ہیں۔ یہ سلسلہ قیامت کے دن تک جاری رہے گا۔ جہاں تک حیاتِ طیبہؐ کا تعلق ہے تو وہ چلتے پھرتے قرآن کی صورت میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئی ہے؛ بلا شبہ یہ ہرخاص وعام کی انگلی پکڑکر اسے منزل تک لے جانے کا ذریعہ ہے۔
انسانوں کا ایک خاصا ہے کہ وہ اپنے سے اوپر والوں کویا تو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یا حسرت کی نظر سے۔ اپنے سے نیچے والوں کو حقارت کا مستحق جانتے ہیں یا ان سے رعونت کا سلوک کرتے ہیں۔ اپنے برابر والوں پر شک اور حسد کی نگاہ ڈالتے اور اپنا حریف گردانتے ہیں۔یہ طرزِ عمل مادہ پرست اور خداخوفی سے عاری لوگوں کا ہوتا ہے۔ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے اس سے قطعی مختلف طرز عمل کے حامل ہوتے ہیں۔ بہرکیف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان ‘چونکہ قرآن ہی کے الفاظ کے مطابق کمزور واقع ہوا ہے:وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا(سورۃالنساء ۴:۲۸) اس لیے ہرشخص میں کہیں نہ کہیں کمزوری اور جھول نظر آہی جاتا ہے‘ اگر اس کمزوری کی فکر اور تلافی نہ کی جائے تو وہ مرض کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے۔ کمزوری کاعلاج اور بیماری سے نجات‘ حکمت واحتیاط کا متقاضی ہے۔کمزوری وپست ہمتی کی کیفیات میں جب بھی سیرت نبویؐ کی طرف رجوع کیا جائے تو روشنی کی کرن نظرآجاتی ہے۔ دل زنگ آلود ہوجائیں اور زندگی بے عملی وبدعملی کا شکار بن جائے تو انسان کا سہارا‘ قرآن وسنت اور سیرت کی پناہ گاہ ہی رہ جاتی ہے۔ نبی اکرمﷺ کی سیرت کا پیغام یہ ہے کہ انسان دنیوی معاملات اور مادی وسائل کے لحاظ سے اپنے سے اوپر والوں کو دیکھنے کے بجائے اپنے سے نیچے والوں کودیکھے جب کہ دینی واخلاقی معاملے میں اپنے سے اعلیٰ وارفع مرتبے والوں کی طرف دیکھے۔ نہ کسی سے مرعوب ہو نہ کسی کو کم تر جانے۔ اچھی صفات جہاں دیکھے‘ انہیں اپنانے کی سنجیدہ فکر کرے اور برے خصائل جہاں بھی نظر آئیں‘ ان سے اپنا دامن بچا کر گزرے۔ آج ہر شخص مصائب کا شکار ہے اور اس کے زخموں پر مرہم رکھنے والا کوئی نہیں۔ کاش! ہمیں اسلام کا نظامِ عدل نصیب ہو جائے۔
نبی اکرم ﷺ کے پاس بعض اوقات انتہائی کمزور‘ معاشرے کے گرے پڑے لوگ آتے اور اپنا سوال بھی بدویانہ اور درشت اندازمیں پیش کرتے ‘مگرآپؐ نے کبھی برا نہ مانا۔ ایک شخص نے آنحضورؐ سے مالی امداد کا سوال کیا‘جبکہ آپؐ لوگوں کے درمیان مال تقسیم کررہے تھے تو یہ انداز اختیار کیا: ''اے محمدؐ! یہ مال نہ تیرا ہے نہ تیرے باپ کا ہے‘ اس میں سے مجھے دو‘‘۔ آپؐ نے بالکل برا نہیں مانا۔ اس شخص کو اس مال میں سے دے دیا۔ ایک مرتبہ عین اس وقت جب نماز کھڑی ہونے والی تھی‘ ایک بدو صفیں چیرتا ہوا آگے بڑھا‘ آپؐ کا دامن پکڑ کر کھینچا اور اپنے کسی کام کے بارے میں تقاضا کیا۔ آپؐ مسجد سے باہر نکلے اور اس شخص کا مطالبہ پورا کرنے کے بعد نماز ادا کی۔آنحضورؐ ضعیفوں کاملجا اور بے سہاروں کاماویٰ تھے۔ آپؐ کی مسجد میں ایک حبشی النسل خاتون جھاڑو دیا کرتی تھی۔ وہ بے چاری بالکل معمولی حیثیت کی کنیز تھی۔ وہ فوت ہوئی تو آنحضورؐ کو اطلاع دیے بغیر صحابہؓ نے اس کی نمازِجنازہ پڑھ کر دفن کردیا۔ آپؐ کو معلوم ہوا توا س بات پر ناراضی کا اظہارکیا کہ آپؐ کو اطلاع کیوں نہ دی گئی۔ آپؐ اس کی قبر پر گئے اور ایک روایت کے مطابق آپؐ نے اس کی قبرپر جا کر اس کیلئے دعائے مغفرت کی (بحوالہ بخاری‘ کتاب الصلوٰۃ‘ حدیث۴۵۷)۔
ایک مرتبہ ایک دیہاتی شخص آپؐ کے پاس آیا‘ وہ فاقہ زدہ اور مفلوک الحال تھا۔ آنحضور ٔ اس وقت اسلامی ریاست‘ مدینہ‘ کے سربراہ تھے۔ اس اعرابی نے آنحضورؐ سے گستاخی کی اور سختی کے الفاظ میں مالی مدد کی درخواست کی۔ صحابہؓ کو یہ منظر سخت ناگوار گزرا‘ مگر آپؐ نے صحابہؓ کو غصہ کرنے سے منع بھی کیااور خود زبان مبارک سے استغفارکا ورد شروع کردیا‘ پھرآپؐ اس دیہاتی عرب سے مخاطب ہوئے اور اس کی ضرورت معلوم کی۔ اس کے بعد آپؐ نے حکم جاری فرمایا ''اس شخص کے لیے ایک اونٹ پر جو اور دوسرے پر کھجورلادو‘‘ پھر آپؐ نے اسے دعا کے ساتھ رخصت کردیا۔ (بحوالہ ابوداؤد‘حدیث ۴۷۷۵)
اگر آنحضور ؐ ایسا طرز عمل اختیار کرنے والوں پر ناراض ہونے کی روش اختیار کرتے تو ظاہر ہے کہ ان لوگوں کی دنیا وآخرت‘ دونوں برباد ہوجاتیں۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں ایک اور واقعہ بھی ملتا ہے کہ ایک شخص آنحضورؐ کے پاس مدد کے لیے حاضر ہوا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس شخص سے اپنے قبیلے میں کوئی شخص قتل ہوگیا تھا اور وہ خون بہا ادا کرنے کے لیے مدد مانگ رہا تھا۔ جب اس نے آنحضورؐ سے سوال کیا تو آپؐ نے اپنے پاس موجود رقم اسے دے دی‘ پھر اُس سے پوچھا: کیا میں نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے؟‘‘ اس نے اپنے مخصوص بدوی لہجے میں کہا ''خدا کی قسم آپؐ نے میرے ساتھ کوئی نیکی اور احسان نہیں کیا‘‘۔ اس موقع پر صحابہؓ غصے میں آگئے ‘مگر آنحضور ؐ نے ان کو غصے سے منع فرمایا۔اپنی کریمی اور مہمان نوازی کابھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے آپؐ اس شخص کو اپنے ساتھ گھر میں لے گئے‘ اسے شربت پلایا اور اپنی ازواج مطہرات میں سے‘ ہر ایک کو پیغام بھیجا کہ ایک مصیبت زدہ‘ مدد کا مستحق مسافر آیا بیٹھا ہے‘ حسب ِ استطاعت سب اس کی مدد کریں۔ امہات المومنین نے دل کھول کر اس کی مدد کی۔ اب‘ آپؐ نے وہی سوال کیا تو دیہاتی نے جواب میں بہت دعائیں دیں اور شکریہ بھی ادا کیا۔ نبیؐ نے فرمایا کہ جب میں نے مسجد میں تم سے پوچھا کہ کیا میں نے تمہارے ساتھ احسان کیا ہے تو تم نے جو جواب دیا اس سے میرے صحابہؓ کے
دل زخمی ہوئے اور وہ ناراض ہوگئے۔ اب‘ جس خوشی کا اظہار تم نے یہاں کیا ہے اور دعائیں دی ہیں‘ اس کا اظہار تم میرے صحابہؓ کے سامنے بھی کردو‘ تاکہ ان کے دل ٹھنڈے ہوجائیں اور وہ خوش ہوجائیں؛ چنانچہ اس نے مسجد میں آکر بہت خوشی اور تشکر کا اظہار کیا‘ پھر وہ چلا گیا۔اس شخص کے روانہ ہوجانے کے بعد آپؐ نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ لوگوں کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے؟ پھرآپؐ نے اپنے صحابہؓ کو کہا کہ میں تمہیں ایک اونٹنی والے اور اس کی اونٹنی کاواقعہ سناتا ہوں: ''ایک شخص اپنے ساتھیوں کے ساتھ سفر پر روانہ ہوا۔ راستے میں اس کی اونٹنی کسی چیز سے بدک کر بھاگ گئی۔ اس کے ساتھی اس کو پکڑنے کے لیے بھاگے۔ اونٹنی نے لوگوں کا ہجوم دیکھا تو سہم گئی اور تیز بھاگنے لگی۔ یہ کیفیت دیکھ کر اونٹنی کا مالک اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا: دوستو! تمہارا شکریہ‘ تم مجھے اور میری اونٹنی کوہمارے حال پر چھوڑ دو۔ اس کے ساتھی بیٹھ گئے تو وہ اکیلا اونٹنی کی طرف بڑھا۔ اونٹنی نے دیکھاکہ اس کامالک آرہا ہے تو وہ ایک مقام پر رک گئی۔ وہ گیا اوراپنی اونٹنی کو پکڑ کر لے آیا۔ میرا اور تمہارا معاملہ بھی کچھ ویسا ہی ہے۔ (ماخوذ از:الشفاء للقاضی عیاض‘ ج۱‘ ص۲۵۳)
ایک جانب آنحضور ؐ کی یہ نرم دلی اور مفلس وتنگ دست لوگوں کے ساتھ یہ حسن سلوک‘ حسن خلق کا بہترین نمونہ ہے‘ دوسری جانب دنیا کے جھوٹے خداؤں اور خود ساختہ آقاؤں کے مقابلے پر نعرۂ مستانہ ووالہانہ اعلیٰ درجے کی جرأت وشجاعت کا غماز ہے۔ عرب کے اندر موجود باطل قوتوں سے زندگی بھر آپؐ برسرِپیکار رہے اور کبھی ان کے مظالم اور سختیوں کے سامنے سر نہیں جھکایا‘ مشکل ترین حالات میں جب اولوالعزم صحابہؓ کے قدم بھی اکھڑ گئے‘ اللہ کے نبیؐ عزیمت کے پہاڑ بنے‘ دشمن کے سامنے ڈٹے رہے (غزوہ احد اور غزوہ حنین کے واقعات بالخصوص قابل مطالعہ ہیں)۔ عرب کے باہر کی دونوں نام نہاد سُپر طاقتوں سے بھی آپؐ کبھی خوف زدہ نہیں ہوئے۔آپؐ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کوسُپر مانتے ہی نہیں تھے۔