تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     09-06-2020

معیشت پہ وبائی اثرات

دہشت گردی کے ہاتھوں مملکت کے بنیادی ڈھانچہ کے انہدم‘غیر محدود کرپشن اورسیاسی عدم استحکام کی وجہ سے قومی معیشت پہلے ہی دگرگوں تھی۔اب ‘کورونا وبا کے ہنگام اور لاک ڈاؤن کی سختیوں نے گردش ِ زر کے نظام کو بگاڑ کے ہماری معاشی مشکلات کو دوچند کر دیا۔ان حالات میں دنیا کی بڑی معیشتیں کساد بازاری کا شکار بنیں تو عالمی مالیاتی نظام اپنا تواز قائم نہیں رکھ پایا؛ چنانچہ لامحالہ عالمی اقتصادی سسٹم کی تشکیل ِنو کی خاطر غریب ممالک کو مالی امداد کی فراہمی کا سلسلہ توڑنا پڑے گا۔ایسے میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی معیشتیں زیادہ خراب ہو سکتی ہیں‘مگر افسوس کہ ان حالات سے نمٹنے کی کوئی تیاری دکھائی نہیں دیتی ہے۔
تین ماہ سے جاری لاک ڈاؤن کے باعث پیداواری عمل معطل ہونے کی وجہ سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی خسارے کا سامنا رہا۔موجودہ مالی سال کے تخمینے کے تحت جی ڈی پی میں 3 فیصد اضافہ ہونا تھا‘ لیکن یہ 0.4 فیصد سکٹر گئی‘ جس سے جی ڈی پی کا مجموعی نقصان 3.6 فیصد یا 15 کھرب 80 ارب روپے رہا۔آئندہ سال کے لیے بھی پلاننگ کمیشن نے جی ڈی پی کی شرح نمو 2.3 فیصد رہنے کا اندازہ لگایا ہے‘ لیکن وزارتِ خزانہ‘ سٹیٹ بینک پاکستان‘ ایشیائی ترقیاتی بینک‘ عالمی بینک اور یو این ڈی پی اسے حقیقی تصور نہیں کرتے۔ان اداروں کے مطابق‘ پاکستان کے تجارتی شراکت داروں پر سکڑنے کے جاری اثرات اور ملکی معاشی چیلنجز کے باعث آئندہ مالی سال میں شرح نمو 1.9 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
سبزی اور فروٹ مارکیٹ کھلے رہنے کی وجہ سے توقع تھی کی زرعی معیشت لاک ڈاؤن کے مضمرات سے بچ جائے گی ‘لیکن بدقسمتی سے اسی دوران ٹڈی دل کے حملے اور بے موسمی بارشوں نے ملکی زراعت کو ناقابل یقین حد تک نقصان پہنچایا۔حیران کن طور پہ ٹڈی دل کے جھنڈ کراچی کے راستے کئی ماہ کا سفر کر کے پہلے اندرون سندھ کے زرعی منطقوں میں داخل ہوئے۔اس کے بعد بلوچستان‘پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پھیلتے گئے‘ لیکن ہمارا انتظامی ڈھانچہ ٹڈی دل کی تدارک کی بجائے لاک ڈاؤن کے اطلاق میں مشغول رہا۔اپریل اور مئی میں جس وقت پنجاب‘سندھ اور خیبر پختونخوا میں کپاس و چاول کی کاشت اورگرمیوں کے میوہ جات خاص طور پہ آم کے درخت پھل لے رہے ہوتے ہیں‘ عین اسی موسم میں ٹڈی دل نے یلغار کر کے چاول اور کپاس کی فصلات اورمیوہ جات کے وسیع باغات اجاڑ دیئے۔پنجاب کے میدانی علاقوں میں آم کی فصل کے علاوہ جنوبی وزیرستان میں آلوبخارہ‘آڑو‘الوچہ اور خرمانی کے باغات بھی ٹڈی دل حملوں سے بچ نہ سکے۔پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ٹڈی دل نے تین سو ہزار مربع کلو میٹر علاقہ کو متاثر کیا‘ جو مملکت کے کل رقبہ کا 37 فیصد بنتا ہے‘جس میں بلوچستان کا ساٹھ فیصد‘ سندھ کی 25 فیصد اور پنجاب کی 15 فیصد زرعی اراضی شامل ہے۔بلوچستان میں بہارکے موسم اور سندھ و پنجاب میں گرمی کے موسم میں ٹڈی دل کی افزئش نسل ہوئی‘ٹڈی دل زرعی معیشت کیلئے سنجیدہ خطرہ ہے اور اب یہ فصلوں اور باغات کے ساتھ قدرتی چراگاہوں کو بھی ٹڈی دل تباہ کر دے گی‘ جس سے خوراک کا بحران پیدا ہو سکتا ہے ۔
اس سال ملک بھر میں قدرتی طور پہ گندم کی پیدوار کم ہوئی‘پنجاب اور خیبر پختونخوا کے محکمہ خواراک گندم خریداری کے اہداف حاصل نہیں کر پائے‘اس لئے کٹائی کے موسم ہی میں گندم کے نرخ آسمان سے باتیں کرنے لگے‘خیبرپختونخوا میں سو کلو گرام والی گندم کی بوری کا نرخ پانچ ہزار روپے تک پہنچ گیا۔بہت جلد روٹی کے نرخ بڑھ جائیں گے ‘جس کا سب سے زیادہ اثر غریب طبقہ پہ پڑے گا؛چنانچہ ملکی ضروریات کوپورا کرنے کی خاطر حکومت کو اس سال 20 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنا پڑے گی۔قبل ازیں سعودی حکومت ہمیں تین ارب ڈالر کا تیل قرض پہ دے دیتی تھی‘جسے فروخت کر کے حکومت بھاری رقوم اکھٹا کرتی‘جس سے مملکت کی روزمرہ ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملتی ‘لیکن اب تیل کے عالمی بحران کی بدولت سعودی سلطنت خود مالی مشکلات میں گھر گئی‘اس لئے دوست ممالک سے ملنے والی مالی معاونت بھی محدود ہو جائے گی۔
آئی ایم ایف‘جو جی 20 ممالک کے اشتراک سے کام کرنے والا مالیاتی ادارہ ہے۔اب‘ امریکہ کے معاشی و سیاسی مفادات میں تبدیلیوں اور یورپی ممالک میں کساد بازاری کی بدولت دنیا کے غریب ممالک کو زیادہ مدت تک مالی معاونت دینے کے قابل نہیں رہے گا؛چنانچہ مجموعی صورت ِحال یہ بن رہی ہے کہ ہماری حکومت کے پاس ٹڈی دل کے تدارک کی کوئی منصوبہ بندی تھی ‘نہ ایسی ٹیکنالوجی اور وسائل موجود ہیں‘ جس سے ہنگامی صورت ِحال سے نمٹنے میں مدد ملتی۔ٹڈی دل کے لشکر جب فصلات پہ حملہ آور ہوئے تو ہمارا انتظامی ڈھانچہ ریسپانس نہ کر سکا۔بے موسمی بارشوں اور ٹڈی دل حملہ نے زراعت سے ملنے والی آمدنی کا بڑا حصہ تباہ کر دیا۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار اور صنعتی ادارے کی بندش کے باعث ٹیکس ریکوری بند اور بے روزگاری بڑھ گئی‘جس نے قومی معیشت کی شرح نمو کو منفی سطح تک پہنچا دیا۔ اس صورت ِحال سے نمٹنے کیلئے آئی ایم ایف نے مشورہ دیا ہے کہ حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے مملکت کے ڈھانچہ کو مختصر کرکے انتظامی اخراجات گھٹائے ‘لیکن ہماری حکومت سرکاری ملازمین کی مراعات میں کمی کی جرأت نہیں کرپائے گی۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمار ریاستی ڈھانچہ میسر وسائل سے میل نہیں کھاتا۔قومی معیشت اب سرکاری ملازمین کے ہجوم کا بوجھ اٹھانے کی سکت کھو رہی ہے۔حیران کن طور پہ ان ممالک میں بھی ہمارے سفارت خانے موجود ہیں‘ جن ملکوں سے تجارتی تعلقات ہیں ‘نہ وہاں ہماری مین پاور کی کوئی کھپت ہے‘ایسی ایمبیسیز پہ ماہانہ کروڑوں ڈالرز خرچ اٹھتا ہے ۔
مغرب کی ترقی یافتہ ریاستوں کے حجم مختصر اور ٹیکسیز کا نظام پوری طرح فعال و مضبوط ہے ‘وہاں مقننہ‘ عدلیہ اور انتظامیہ کے سوا مستقل ملازمتوں کا تصور مفقود ہے۔ڈیلی ویجز نظام کے تحت وہاں چھٹی کے دن تنخواہ ملتی ہے‘ نہ پنشن کی روایت قائم کی گئی۔چین میں بھی جہاں نیشنل اکانومی کا نظام رائج ہے‘چھٹی کے دن سرکاری اہلکار کو تنخواہ نہیں ملتی‘ اگر کوئی اہلکار بیمار ہو جائے تو اسے کھانے پینے اور علاج معالجہ کی سہولت تو دی جاتی ہے‘ لیکن ان دنوں کی تنخواہ نہیں ملتی ہے‘ یعنی دنیا میں کہیں بھی ہماری طرح کا لارڈ صاحب والا سسٹم موجود نہیں‘جس میں سرکاری اہلکار بھاری تنخواہیں اور مراعات حاصل کرتے ہیں‘ لیکن ڈلیور کچھ نہیں کرتے۔
میری نظر میں اب وقت آ چکا ہے ‘ نیزموجودہ حالات کا جبر اس امر کا متقاضی ہے کہ ریاست کے انتظامی ڈھانچہ کو میسر قومی وسائل سے ہم آہنگ کرنے کے علاوہ تنخواہوں اور پنشن کے نظام میں اصلاحات کی جائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved