تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     09-06-2020

ٹک ٹاک ایپ اور ہمارے بچے

ٹک ٹاک ایک ایپ ہے ‘جو آج کل پاکستانی نوجوانوں اور بچوں میں بہت مقبول ہورہی ہے۔بچے اس کو مفت میں اپیل اور پلے سٹور سے ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں اور اس کے بعد ان کی مرضی ہے کہ وہ جو چاہیے اس میں کریں‘ گانے پر لب ہلائیں یا رقص کریں یا کسی ڈائیلاگ کو بول کر اپنی ویڈیو زریکارڈ کریں یا کسی کی ویڈیو پر جوابی ویڈیو بنائیں۔دوسری طرف ان بچوں کے والدین کو پتا بھی نہیں ہوتا کہ ان کے بچے کس خرافات میں پڑھ چکے ہیں۔آج کل کے ماں باپ بچوں کی ضد کے آگے ہار جاتے ہیں‘ انہیں موبائل خرید دیتے ہیں‘ ٹیب ‘لیپ ٹاپ و دیگر الیکٹرانک گیجٹس بچوں کے پاس موجود ہیں اور ان کے گھروں میں24 گھنٹے انٹر نیٹ چل رہا ہوتا ہے۔بچے اپنے کمروں میں کیا کررہے ہیں؟ان کے اکثروالدین کو معلوم نہیں ہوتا‘ کیونکہ اکثر بچوں کے ماں باپ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ وغیرہ استعمال ہی نہیں کرتے ہیں۔ اس بات کا فائدہ بچے اٹھاتے ہیں اور وہ اپنی من مانی کرنا شروع کردیتے ہیں اور ان چیزوں کی طرف چلے جاتے ہیں‘ جو آگے چل کر ان کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔
ٹک ٹاک پربچے اور بچیاں تیار ہوکر کسی گانے پر رقص کرتے ہیں‘ اس کو اپنے ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر پوسٹ کرتے ہیں‘ تو اس پر ایسے ایسے کمنٹس آتے ہیں کہ اگر بچوں کے والدین اس کو پڑھ لیں تو ان کو پھر کبھی موبائل استعمال نہ کرنے دیں۔ٹک ٹاک پر کوئی بچوں کے حسن کو سراہا رہا ہوتا ہے‘ تو کوئی ان کو اپنا فون نمبر دے رہا ہوتا ہے‘ تو کوئی ان کو اپنے ساتھ گھومنے پھرنے کی پیشکش کررہا ہوتا ہے۔ یوں اس ایپ پر بچے اجنبیوں کے ساتھ رابطے میں آجاتے ہیں ۔پہلے تو سب اچھا اچھا رہتا ہے‘ کیونکہ یہ اجنبی بچوں کو پیسے اور تحفے دیگراپنے قریب لے آتے ہیں‘ بعد میں یہ جرائم پیشہ افراد‘ بچوں کو پھانس لیتے ہیں اوران کو بلیک میل کرتے ہیں ۔ان کی ویڈیوز اورتصاویر بنا کر ان سے پیسوں کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔یوں بچے اپنے ہی گھر میں چوریاں کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔کچھ کیسز میں بچے جنسی تشدد کاشکار بھی ہوجاتے ہیں اور بات خود کشی تک پہنچ جاتی ہے۔ اس حوالے سے جب تک ماں باپ کی آنکھیں کھلتی ہیں ‘ تب تک ان کے بچے کی زندگی تباہ ہوچکی ہوتی ہے۔
میں قدامت پسند نہیں ہوں‘آرٹ و کلچر کو پسند کرتی ہوں‘ لیکن میراآپ سے سوال ہے کہ کیا آپ پسند کریں گے کہ کوئی بھی معصوم بچہ اور بچی سڑک پر رقص کرے اور لوگ اس پر ذومعنی جملے کس رہے ہوں؟ اس کو مختلف نا زیبا پیشکشیں کررہے ہوں؟ ہرگز نہیں‘ کسی کی بھی خواہش نہیں ہو سکتی کہ اس کا بچہ پڑھنے لکھنے کے بعد اپنے لئے کسی ایسے نامناسب شعبے کا انتخاب کرے‘اگر بچہ آرٹ و کلچر‘ رقص یا شوبز میں بھی آنا چاہتا ہوتو بالغ ہونے کے بعد آئے ۔اس سے پہلے والدین اس کو تعلیم پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے کہتے ہیں۔اب‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کم عمر بچے بچیوں کی بہت بڑی تعداد اس ٹک ٹاک ایپ پر موجود ہے‘ جو اپنی معصومیت یا شوبز کی چکا چوند سے متاثر ہوکر یہاں آتے ہیں اور جب وہ اپنی ویڈیوز اپ لوڈ کرتے ہیں تو وہ پبلک کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔ اب‘ یہ ان کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ ان کی ویڈیوز کا استعمال کس طرح سے کرتے ہیں۔معصوم بچے بچیوں کی ویڈیوز مختلف فورمز پر فحش کیپشنز کے ساتھ پھیلا دی جاتی ہیں‘ ان کو گالیاں دی جاتی ہیں‘ ان کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ یوں بہت سے بچے سوشل میڈیا پر منفی مہم کا نشانہ بنتے ہیں۔
فالورز کی تعداد بڑھانے کی چاہت ‘ خود نمائی کا شوق ‘ ہیرویا ہیروین بننے کی خواہش‘ بچوں کے مستقبل کو تباہ کردیتی ہے۔ وہ سارا دن فون استعمال کرتے رہتے ہیں اور نہ کھاتے پیتے ہیں ‘نہ آرام کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی پڑھائی پر بھرپور توجہ دیتے ہیں۔والدین شروع میں اس ایپ کے نقصانات نہیں سمجھ پاتے‘ لیکن جب ان کے بچوں کی ویڈیوز منفی انداز میں پھیل کر فیس بک‘ انسٹاگرام اور واٹس ایپ پر ہر شخص کے پاس پہنچ جاتی ہیں ‘تو ان کو اندازہ ہوتا کہ ان کابچہ کتنی بڑی مصیبت میں پھنس چکا ہے۔
ٹک ٹاک پر ایک اور طبقہ بھی پایا جاتا ہے ‘جو اپنے نمبرز خود ویڈیوز کے ساتھ پوسٹ کرتا ہے۔ پہلے یہ کام رات کے اندھیروں میں ہوتا تھا۔ اب ‘کھلے عام گاہک ٹک ٹاک کے ذریعے سے ان لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ ان ویڈیوز میں لڑکے لڑکیاں جان بوجھ کر اپنے جسموں کی نمائش کرتے ہیں‘ تاکہ پیسے کماسکیں۔یہ ایک بہت قبیح فعل ہے۔ اس ایپ کے ذریعے فحاشی و عریانی مزید پھیل رہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ ویڈیوز یہاں سے فیس بک ‘ٹویٹر‘ انسٹاگرام پر بھی پہنچ جاتی ہیں اور یہ یوں یہ برائی مزید پھیلتی ہے۔ہمیں اس برائی کو روکنا ہوگا ‘لیکن یہ دیکھا گیاہے کہ بہت سے متنازع ٹک ٹاکرز کی رسائی تو طاقت کے ایوانوں تک ہے۔ اس میں دو ٹک ٹاکرز نے مبینہ طور پر معروف افراد کو بدنام کیا۔
اب‘ بھی حکومت کی یہ خواہش ہے کہ ٹک ٹاکرز کورونا کے حوالے سے مہم چلائیں تو مجھے یہ پوچھنا کہ یہ مہم تو ڈاکٹرز کو چلانی چاہیے۔ٹاک ٹاک پر رقص و سرور‘ فحش گوئی اور جسم کی نمائش کے دوران کون سنجیدگی سے اس وبا پر بات کرے گا؟ جو عالمی طور پر لاکھوں جانیں نگل گئی ہے۔پاکستان میں بھی اس وقت کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں‘ اس کے حوالے سے احتیاط اور سماجی کنارہ کشی کی ضرورت ہے۔حکومت صرف ایک ہفتہ بھی سخت لاک ڈاؤن کرلے‘ تو بہت کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے‘ لیکن حکومت تذبذب کا شکار ہے اور اس وبا نے اپنے پنجے گاڑھ لئے ہیں۔جب حکومت کورونا کا کچھ نہیں کرپائی تو ٹک ٹاکرز کیا کرلیں گے؟سوشل میڈیا پر لوگ حکومت پر سخت تنقید کرتے نظر آ رہے ہیں اور ان کے مطابق حکوت وبا کے دوران بھی غیر سنجیدہ ہے اور ٹک ٹاکرز کو حکومتی ایوانوں میں بلا کرمنفی تاثر دیا جارہا ہے۔ کیا کبھی ان بچوں کو بھی مدعو کیا جائے گا‘ جو سارا سال پڑھ کر گول میڈلز لیتے ہیں ۔یہ حکومت کے نزدیک صرف ٹک ٹاک پر ویڈیوز بنانے والے اہم ہیں۔سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ ٹک ٹاک ٹریند بن گیا اور ہزاروں ٹویٹس ہوئے۔
فحش گوئی ذومعنی جملے جسم کی نمائش آرٹ اور کلچر میں نہیں آتا۔ ہمیں اس وقت ڈراما سیریلز؛ ایلفا براوو چارلی ‘ سنہرے دن ‘ دھواں ‘ خدا زمین سے گیا نہیں ہے‘ عہد وفا اور فصلِ جاں سے آگے جیسے معلوماتی و تفریحی ڈراموں کی ضرورت ہے۔جو کچھ ٹک ٹاک پر ہورہا ہے ‘وہ فن و ثقافت اور تفریح کے زمرے میں نہیں آتا۔اس آرٹیکل کے لیے جب میں نے ٹک ٹاک پر ریسرچ کی تو سر شرم سے جھک گیا کہ ہماری نوجوان نسل چھوٹے کپڑوں ذومعنی گفتگو اور ہیجان آمیز گانوں پر رقص کررہی ہے۔ یہ نئی نسل اسلامی تعلیمات اور نظریہ ٔپاکستان سے کوسوں دور ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ہمیں نئی نسل کو پاکستان کی ثقافت اور مذہب کے حوالے سے آگہی دینا ہوگی۔
بچوں اور نئی نسل کیلئے ڈرامے اور فلمیں بنائی جائیں۔ان کیلئے یوٹیوب‘ انسٹاگرام ‘ٹویٹر فیس بک پر تہذیب و اصلاح پر مبنی ڈاکیومینٹریز ویڈیوز نشر کی جائیں اور یہ کام وزراتِ اطلاعات و نشریات ‘ پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان بخوبی کرسکتے ہیں۔ہمیں اپنا ثقافتی ورثہ نئی نسل کو منتقل کرنا ہے ۔ ان کومادری زبانیں سکھانی ہیں۔ ان کو اپنی تہذیب و روایت سکھانی ہیں۔بچوں کے ہاتھ سے موبائل لیں‘ ان کے ساتھ بات چیت کریں۔ ان کو اپنی تابندہ تاریخ سے آگاہ کریں ۔ان کو صوم و صلوٰۃ کا پابند کریں۔بچوں کو کھیل کود اورورزش کی طرف مائل کریں ۔ان کو باغبانی ‘تصویر کشی اور منظر کشی کی طرف مائل کریں۔وقت سے پہلے ان کو ہر چیز کرنے کی اجازت مت دیں۔ بچوں سے ان کی معصومیت مت چھینیں۔ ان کو وقت دیں اور اپنے بچوں کو تعمیری سرگرمیوں کی طرف راغب کریں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved