راولپنڈی کی ہارلے سٹریٹ سے میرا تعارف اُس وقت ہوا جب میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ہمارے گھر سے ہارلے سٹریٹ کا فاصلہ بمشکل پانچ منٹ کا تھا ۔لال کرتی میں اپنے پرائمری سکول تک آنے جانے کے لیے میں ہارلے سٹریٹ سے گزرتا تھا ۔ اُن دنوں میں اکثر سوچتا تھا کہ اس علاقے کو ہارلے سٹریٹ کیوں کہتے ہیں؟بھر ایک روز ہمارے سکول کے استاد نے بتایا کہ اس نام کی سٹریٹ کا آغاز انیسویں صدی میں لندن میں ہوا تھا اور اس کا نام لندن کے لارڈ میئر ٹامس ہارلے کے نام پر رکھا گیا تھا۔اُس سٹریٹ کی خاص بات وہاں پر بڑی تعداد میں میڈیکل سپیشلسٹس‘ڈاکٹرز اور سرجنزکے کلینک ہیں۔آج بھی لندن کی ہارلے سٹریٹ میڈیکل پروفیشن اور ڈاکٹرز کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔کہتے ہیں راولپنڈی میں آباد ہونے والی ہارلے سٹریٹ کے پس منظر میں بھی ڈاکٹرز کا ایک گروپ تھاجنہوں نے اس علاقے کو اپنے قیام کے لیے منتخب کیا اور لندن کی ہارلے سٹریٹ کے نام پر اس کا نام رکھا۔بہت بعد میں جب میں انگریزی ادب کا طالب علم بنا تو مجھے پتہ چلا کہ لندن کی ہارلے سٹریٹ کا ذکر تو انگریزی ادب میں بھی ملتا ہے مثلاً ورجینیا و ولف کے ناول Mrs Dalloway ‘ جین آسٹن کے ناول Sense and Sensibility‘ اگاتھا کرسٹی کے ناولوں Death in the Clouds‘ Crooked House‘ And Then There Were None اور The Secret of Chimneys کے علاوہ John Banville کے ناول The Untouchable میں لندن کی ہارلے سٹریٹ کا ذکر ملتا ہے۔لیکن اُس وقت مجھے ان ساری باتوں کا علم نہیں تھا۔ پھر میں پرائمری سکول سے ہائی سکول میں آگیا ۔میرا ہائی سکول سی بی ٹیکنیکل سکول تھا ‘یہ سکول بھی لال کرتی میں واقع تھا۔ یوں ہارلے سٹریٹ کے ساتھ میرا رابطہ اسی طرح مضبوط رہا ۔سکول آنے جانے کے علاوہ بھی ہم ہارلے سٹریٹ کے میدان میں کرکٹ کھیلتے تھے ۔ہارلے سٹریٹ کا محلِ وقوع بہت اہم تھا اس کے بالکل قریب ملٹری ہاسپٹل تھا‘ ساتھ ہی جی ایچ کیو تھا۔لال کرتی اور صدر بازار بھی قریب تھے اور پریزیڈنٹ ہاؤس بھی زیادہ دور نہ تھا۔ یہ اُن دنوں اس عمارت میں تھا جہاں آج کل فاطمہ جناح یونیورسٹی ہے ۔
اب مجھے راولپنڈی چھوڑے ایک عرصہ ہو گیا ہے ۔ہارلے سٹریٹ کو دیکھے بھی ایک زمانہ بیت گیا ہے‘لیکن اُس زمانے کی کچھ یادیں اب بھی میرے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔کیسے کیسے لوگ تھے جو یہاں رہتے تھے۔ادیبوں میں معروف مزاح نگار شفیق الرحمن کا گھر بھی ہارلے سٹریٹ میں واقع تھا ۔ادب اور ادیبوں کا بیان ہو تو بیگم سرفراز اقبال کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے۔ہارلے سٹریٹ میں ان کا گھر ادیبوں کا ٹھکانہ ہوتا تھا۔فیض صاحب جب بھی راولپنڈی آتے ان کا قیام یہیں پر ہوتا۔منیر نیازی ‘ابن انشا‘فراز غرض اس دور کے سب اہم ادیبوں اور شاعروں کا یہ گھر اہم مرکز تھا ۔ ہارلے سٹریٹ میں ادب کا ایک اور مرکز ڈاکٹر ایوب مرزا کا گھر تھا‘ وہ فیض صاحب کے چاہنے والے تھے۔مجھے یاد ہے ایک بار میں بھی خواجہ مسعود صاحب (پرنسپل گورڈن کالج ) کے ہمراہ ڈاکٹر ایوب مرزا کے گھر گیا تھا۔پی ٹی وی کی انگلش نیوز ریڈر شائستہ زید کا گھر بھی ہارلے سٹریٹ میں تھا ۔ٹیلی ویژن کی نامور اداکارہ سائرہ کاظمی بھی ہارلے سٹریٹ میں رہتی تھیں۔معرف دانشور اور صدر ایوب خان کے زمانے میں سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر بھی ہارلے سٹریٹ میں رہتے تھے‘ان کے گھر کا نمبر A-1تھا۔بھٹو صاحب نے بھی ہارلے سٹریٹ میں ایک گھر تعمیر کرایا تھا جو ان کی بیگم نصرت بھٹو کے نام تھا‘ لیکن اسی دوران وہ وزیرِاعظم بن گئے توہ گھر صفدر علی شاہ صاحب نے ان سے خرید لیا تھا ۔بھٹو صاحب کا دور بیت گیااور طویل ابتلا کے بعد جب بے نظیر بھٹو برسرِاقتدار آئیں تو نصرت بھٹو کو وزارت دی گئی۔انہیں دنوں کی بات ہے صفدر علی شاہ صاحب نے انہیں ڈنر پر بلایا تو نصرت بھٹو نے دلچسپی سے گھر کے سارے حصے دیکھے اور کہنے لگیں :یہ گھر تو بالکل ویسا ہی ہے‘ آپ نے اسے بڑے خیال سے رکھا ہے ۔اب نہ بھٹو رہے ‘نہ نصرت بھٹو اور نہ ہی صفدر علی شاہ صاحب‘ لیکن ہارلے سٹریٹ میں یہ گھر اب بھی موجود ہے۔اس گھر کے ہمسائے میں صاحبزادہ یعقوب علی خاں رہتے تھے ‘جنہیں کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا اور کئی اہم حکومتی منا صب پر فائز رہے۔ یہیں پر یحییٰ خان کا گھر بھی تھا‘ ریٹائرمنٹ کے بعد کبھی کبھار لان میں بیٹھے ہم ان کی جھلک دیکھ لیتے۔قریب ہی اُس وقت کے وزیرِتعلیم اور معروف وکیل جناب حفیظ پیر زادہ کا گھر تھا۔اسی طرح جنرل جمال دار ‘جنرل ایم آر خان‘جنرل برکی اور جنرل ڈاکٹر ایس اے میاں کے گھر بھی یہیں تھے۔کاروباری حلقوں میں جعفر برادر زکا دفتر یہاں تھا ۔فاروقیہ سیمنٹ کے فاروق صاحب اور بمبئے پلائی وڈ کے احمد سعید صاحب بھی ہارلے سٹریٹ میں رہتے تھے۔ہارلے سٹریٹ کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں پر مختلف ممالک کے سفارت خانے بھی تھے۔ان میں ناروے ‘سویڈن ‘اور چین کے سفارت خانے شامل تھے۔اسی طرح فرنٹیئر ہاؤس بھی یہیں واقع تھا۔ ہارلے سٹریٹ کا سب سے اہم حوالہ یہاں پر واقع گورا قبرستان تھا جس کے دو حصے تھے‘ ایک حصے میں قبرستان تھا اور دوسرے میں ان فوجیوں کی یادگاریں تھیں جو پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں مارے گئے تھے۔یہاں کل 358قبروں کے نشانات ہیں اور کتبوں پر نام ‘عمر ‘عہدہ اور یونٹ درج ہے۔ہارلے سٹریٹ کے گورا قبرستان کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملکہ الزبتھ دوئم جب پاکستان کے دورے پر آئیں تو وہ گورا قبرستان بھی آئیں۔ لیڈی ڈیانا نے بھی یہاں کا دورہ کیا تھا۔اس جگہ سے میری وابستگی اپنے سکول کے دنوں سے ہے۔جب میں دوستوں کے ہمراہ یہاں کے گھنے درختوں کی چھاؤں میں پڑھنے کیلئے آتا۔گورا قبرستان کے حوالے سے کچھ پر اسرار کہانیاں بھی گردش کرتی رہتی تھیں‘ان میں ایک سر کٹے گورے کی کہانی تھی۔تب میں ان کہانیوں کو واقعی سچ سمجھتا تھا۔ہارلے سٹریٹ سے جڑی ہوئی سب یادوں کو شمار کرنے بیٹھوں تو اس کیلئے ایک عرصہ چاہیے‘ایک یاد البتہ مجھے کبھی نہیں بھولے گی۔ یہ 1974ء کا سال تھا اور اکتوبر کی دو تاریخ تھی جب پتا چلا کہ پاکستان کے سابق نائب صدر جناب نورالامین انتقال کر گئے ہیں۔وہ ریٹائر منٹ کے بعد ہارلے سٹریٹ میں مقیم تھے۔ان دنوں میں انٹر کا طالب علم تھا ۔وہاں پہنچنے پر دیکھا کہ ایک چارپائی پر سفید چادر اوڑھے نورالامین ہمیشہ کی نیند سو رہے ہیں۔گھر میں اکا دکا لوگ موجود تھے لیکن سڑکوں پر گرمئی بازار کا وہی عالم تھا۔ اس دن مجھے اندازہ ہوا کہ لوگوں کی محبت در اصل اقتدار سے جُڑی ہوتی ہے ‘آنکھ بند ہوتے ہی دنیا بدل جاتی ہے۔ اب مجھے ہارلے سٹریٹ گئے ایک مدت ہو گئی ہے ۔سنا ہے وہاں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ وسیع و عریض پرانی کوٹھیوں کو چھوٹے پلاٹوں میں تبدیل کر کے بیچا جا رہاہے۔ وہ علاقہ جو راولپنڈی کے ماتھے کا جھومر تھا اب اپنے ماضی کی پرچھائیں بن کر رہ گیا ہے۔لیکن میرے ماضی کا ہارلے سٹریٹ میرے تصور میں اپنی اصلی حالت میں باقی ہے۔خوب صورت‘ کشادہ‘ تروتازہ اور شاداب۔اب بھی کبھی کبھار جب بیٹھے بیٹھے دنیا کے ہنگاموں سے جی اکتا جاتا ہے تو میں آنکھیں بند کر کے تصور کے دوش پر ہارلے سٹریٹ پہنچ جاتا ہوں۔یوں لگتا ہے پرانا وقت لوٹ آیا ہے اورمیں گورا قبرستان کے ایک بینچ پر بیٹھا ہوں ۔ گھنے درختوں کا سایہ میرے سر پر ہے اور درختوں کے پتوں سے ٹھنڈی ہوا چھَن چھَن کر میرے گالوں کو چھُو رہی ہے۔