تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     10-06-2020

شوگر ملیں

شعبان اُپل صاحب ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں۔ دس برس پہلے انہوں نے لاہور کی رائے ونڈ روڈ پر کسی کے اشتراک سے مرغی کا گوشت پیک کرنے والا ایک پلانٹ لگانے کا منصوبہ بنا لیا۔ ان صاحب کو افسری خوب آتی تھی اس لیے سوچا کہ اپنے تعلقات کے زور پر اسے چلا بھی لیں گے۔ زمین سرمایہ کاروں کے پاس پہلے سے پڑی تھی‘ اس لیے فیصلہ یہ ہوا کہ جلد پیداوار شروع کرنے کیلئے اینٹ بجری کی عمارت بنانے کی بجائے لوہے کے کنٹینرز میں مشینیں لگا کر کام شروع کردیا جائے۔ کاغذو ں پر اپنا منصوبہ مکمل کر کے مطلوبہ زمین پر کام شروع کیا تو اگلے دن انہیں پتا چلا کہ علاقے کے ایک با اثر آدمی نے اس زمین کو اپنی ملکیت قرار دے کر عدالت میں دعویٰ دائر کر کے سٹے آرڈر لے لیا ہے۔ اب انہیں پلانٹ تو بھول گیا‘ زمین کی پڑ گئی۔ کچھ لے دے کر عدالت سے باہر ہی معاملہ کیا اور زمین کی چار دیواری شروع کر دی۔ ان کی ضرورت کی کچھ مشینیں درآمد ہونا تھیں۔ افسر آدمی تھے‘ اپنے تعلقات کا بھروسا بھی تھا‘ اس لیے بندرگاہ سے مشینیں باہر لانے کے لیے ٹیکس وغیرہ بھر کے دستاویزات داخل کر دیں۔ چھ ماہ گزر گئے‘ پورٹ پر پڑی مشینیں خراب ہونے لگیں‘ گودام کا کرایہ الگ سر پر چڑھنے لگا تو عقل ٹھکانے آ گئی۔ کسی کو بیچ میں ڈال کر رشوت دی اور مشینوں پر ہاتھ رکھنا نصیب ہوا۔ دو سال کی تگ و دو کے بعد پلانٹ چلنے لگا تو سوشل سکیورٹی والے آ گئے‘ ان کا گھر پورا کیا تو ای او بی آئی نے پکڑ لیا‘ ان سے نمٹے تو بلدیہ نے اوسان خطا کر دیے۔ یہاں سے بچے تو انکم ٹیکس والے سر پر سوار ہو گئے۔ ان سے جان بچی تو کام کرنے والے مزدوروں کی جہالت سے مشینیں خراب ہونے لگیں۔ ان کی تربیت کا بندوبست کر کے چند دن سکون کے گزرے تو فوڈ اتھارٹی نے چھاپہ مار دیا۔ کسی 'نامعلوم‘ وجہ سے چھاپہ مارنے والی خاتون افسر کو غصہ آ گیا اور انہوں نے کارخانے کے دروازے بند کر کے سرکاری مہر لگا دی۔ ان بزرگ نے اپنی افسری کا واسطہ ڈالا تو کہا ''جو بکواس کرنی ہے میرے دفتر آکر کرنا‘‘۔ اپنی بیٹی کی عمر جتنی افسر کے منہ سے یہ سنا تو پاؤں تلے سے زمین ہی نکل گئی۔ توہین کا زخم اتنا گہرا لگا کہ اس عورت سے مزید کچھ کہنے کی بجائے چالان کا تاوان بھرا۔ سرکاری مہر ہٹوا کر اپنا تالا ڈالا اور گھر آ گئے۔ قیمتی مشینیں کباڑ میں بیچ کر اب اپنی پنشن پر گزارہ کرتے ہیں۔ ایک دن خود ہی فرمایا ''جب سیکرٹری کی کرسی پر بیٹھا کرتے تھے تو سب ٹھیک لگتا تھا‘ کاروبار کے تلخ تجربے کے بعد اندازہ ہوا کتنا غلط سوچتے تھے‘‘۔ 
شعبان اپل صاحب حکومتی اداروں کے ہاتھوں کاروباری طور پر تباہی کی داستان کے واحد کردا ر نہیں‘ پاکستان کی ہر گلی میں آپ کو کوئی نہ کوئی ایسا مل جائے گا جس نے ذرا سی ایمانداری سے کاروبار کرنے کی کوشش کی اور مارا گیا۔ بیرون ملک سے پیسے لا کر لگانے والے برباد ہوئے‘ اپنی پنشن سے بیوپار کرنے کی کوشش میں لوگ خون تھوکتے مر گئے۔ ہمارے ملک میں نظام ہی ایسا ہے جس میں نالائق اور بدعنوان سرکاری اہلکار ایک بہترین کاروبارکو تباہ کرنے پر تل جائے تو اس کے افسروں کے سوا دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں روک سکتی۔ جب بیوروکریسی کی اعلیٰ ترین سطح پر بھی سرمایہ کار کو چور سمجھنے کا رویہ کارفرما ہو تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں پیداواری صنعتوں کا انجام کیا ہو گا۔ شعبان اپل صاحب تو بے چارے چھوٹا سا کاروبار چلانا چاہتے تھے۔ ان کی تباہی کے لیے تو ایک سترہویں یا اٹھارہویں گریڈ کی افسر نے ہی قیامت برپا کردی۔ اب ذرا تصور کریں کہ ملک کا وزیراعظم اگر کسی صنعت کے خلاف ہو جائے تو کیا ہوگا؟ وہی ہو گا جو اس وقت شوگر ملوں کے ساتھ ہورہا ہے‘ یعنی تباہی‘ ایسی تباہی جس کو دیکھ کر عبرت پکڑی جائے۔ 
ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں لوہے اور فولاد کی صنعت اس لیے مصیبت میں آ گئی تھی کہ نواز شریف کا خاندان اس شعبے سے وابستہ تھا اور بے نظیر بھٹو مرکز میں حکمران تھیں۔ نواز شریف کی مخالفت میں وہ اتنا آگے بڑھ گئیں کہ یہ صنعت ہی تباہ ہو کر رہ گئی۔ نواز شریف نے سندھ میں تھرپارکر کا منصوبہ اس لیے روکے رکھا کہ اس سے بے نظیر بھٹو کو سیاسی فائدہ ہو سکتا تھا۔ آج کہنے کو تبدیلی حکومت ہے اور تبدیلی یہ ہے کہ جہانگیر ترین سے وزیراعظم ناراض ہوچکے ہیں۔ چونکہ جہانگیر ترین کی شوگر ملیں بھی ہیں‘ لہٰذا پوری صنعت پر ہی عذاب آئے گا۔ اس مقصد کے لیے چینی کی قیمتوں کو بہانہ بنا کر باقاعدہ کمیشن تشکیل پایا جس نے اپنی رپورٹ بھی دے دی۔ معیار اس رپورٹ کا یہ ہے کہ اگر یہ کسی امتحانی سوال کا جواب ہو تو ایک نمبر بھی نہ ملے۔ لاکھو ں روپے کی بربادی سے جو ردّی تخلیق پائی ہے اس کے بار ے میں خود تحریک انصاف سے ہمدردی رکھنے والے ڈاکٹر خالد مرزا (سابق چیئرمین سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن) بھی کہتے ہیں کہ 'رپورٹ لکھنے والوں کو صنعت کا علم ہے نہ تجارت کا‘۔ چونکہ وزیراعظم نے اس رپورٹ کو شرف قبولیت بخش دیا ہے تواب اس کے مندرجات پراظہار خیال بھی قابل دست اندازیٔ ایف آئی اے ہوسکتا ہے۔ 
یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ شوگر ملیں حکومتی سرپرستی میں لگیں اور انہیں سبسڈی بھی ملتی رہی‘ لیکن یہ سب کچھ مروجہ قوانین اور ادارہ جاتی فیصلوں کے ذریعے ہوا۔ اگر آج کی حکومت انیس سو پچاسی سے شوگر ملوں کا آڈٹ کرنا چاہتی ہے تو شوق سے کرے مگر اس کے بعد کون احمق ہے جو ریاست پاکستان کی اکنامک کوآرڈی نیشن کونسل (ای سی سی) وفاقی کابینہ اور صوبائی کابینہ کے فیصلوں کا بھروسا کرکے ملک میں کوئی صنعت لگائے گا؟ یہی وہ ادارے تھے جنہوں نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی اور پھر اس پر سبسڈی دی۔ اب ایک بے معنی رپورٹ کی بنیاد پر شہزاد اکبر کی سالاری میں نیب وغیرہ کو ان اداروں پر بھی چھوڑنا ہے تو ضرور چھوڑیے لیکن یہ بھی تو کوئی بتائے کہ متبادل ادارے کون سے ہیں؟ غلط یا صحیح ان لوگوں نے شوگر ملیں حکومت کی اجازت سے لگائیں۔ ان معاملات کے بعد ہماری حکومتوں پر اعتبار کون کرے گا؟جب سٹیٹ بینک سے لے کر اینٹی کرپشن کے اہلکاروں تک سب کارخانوں پر چڑھ دوڑیں گے تو کاروبار کیسے ہو گا‘ روزگار کیسے ملے گا؟ 
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں معاشی پالیسیوں کی تشکیل ادارے نہیں کرتے بلکہ افراد کے رویے یا پسند ناپسند کی بنیاد پر بنتی ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد بسوں کے روٹ پرمٹ سرکار کے وفاداروں کو بطور انعام ملا کرتے تھے۔ جنرل ایوب خان نے ہر اس شخص کو فیکٹری لگوادی جو اقتدار کی غلام گردشوں میں گھومتا پھرتا نظر آیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ڈاکٹر محبوب الحق کی بائیس خاندانوں والی بے بنیاد تھیوری اچھی لگی تو صنعتکاروں سے سب کچھ ہتھیا کر ملک کو معاشی طور پر ایسی پستی میں پھینک دیا جہاں سے آج تک نہیں نکل پایا۔ جنرل ضیا الحق نے ایک نیا سیاسی طبقہ پیدا کرنا چاہا تو شوگر ملوں کے لائسنس بے تکے انداز میں بانٹنے شروع کردیے۔ پاکستان میں گاڑیاں بنانے کے کارخانوں سے لے کر شوگر ملیں تک سب کی پیدائش اسی غیر فطری انداز میں ہوئی ہے۔ یہ صنعتیں سرکار کی سبسڈی کے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتیں۔ ان کو چلانے والوں کی اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں پان سگریٹ کا کھوکھا بھی نہیں چلا سکتے۔ اس سب کے باوجود ہمارے پاس یہی لوگ ہیں جو کچھ کرسکتے ہیں۔ ان کی لگائی صنعتوں سے کروڑوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہو چکا ہے۔ ہمیں ان کی اصلاح کرنی ہے‘ بند نہیں کرنا۔ انفرادی غلطیوں کی سزا ضرور ملنی چاہیے لیکن قبائلی انداز میں اجتماعی سزا دینے کا رویہ سب کچھ تباہ کر ڈالے گا۔ پھر لوگوں کے پاس ایک ہی راستہ بچے گا کہ وہ پلاٹوں کی خریدوفروخت ہی کریں‘ غالباً یہ واحد کاروبار ہے جسے آج کل سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved