حبشہ کے بادشاہ کا لقب نجاشی ہوتا تھا‘ جو آنحضورﷺ کے دور میں حبشہ پر حکمران تھا‘ اس کانام اصحمہ بن ابجر تھا۔ یہ نام تاریخ میں اصحم بن ابحر بھی بیان ہوا ہے‘ مگر ہمارے نزدیک زیادہ صحیح اصحمہ بن ابجر ہے۔ اس بادشاہ کی شخصیت تاریخ انسانی کی نادر اور یادگار شخصیات میں سے ہے۔ اس کا والد جب حکمران تھا تو ملک کے اندر مکمل امن وامان تھا۔ مورخ ابن ہشام نے حضرت عروہ بن زبیرؓ‘ حضرت عائشہؓ صدیقہ اور حضرت ام سلمہؓ کی بیان کردہ روایات کی روشنی میں ایک دل چسپ واقعہ لکھا ہے۔ دیگر مورخین نے بھی اس کو اپنی تواریخ میں جگہ دی ہے۔ ابن ہشام کے مطابق اصحمہ کا باپ ابجر بادشاہ نہایت دانش مند‘ صاحب حکمت‘ عادل اور بہادر انسان تھا۔ بدطینت سردارانِ قوم اور بدعنوان مذہبی رہنما اس صاحب ِخیر بادشاہ کے خلاف سازش کرنے لگے۔ اس بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا‘ جبکہ اس کے دوسرے بھائی کے بارہ بیٹے تھے۔ سرداروں نے آپس میں مشورہ کرکے سوچا کہ بادشاہ کے خلاف سازش کا مضبوط منصوبہ بنایا جائے۔ وہ نہ خود بدعنوانی کرتا ہے‘ نہ کسی کو اس کا موقع دیتا ہے۔ سوچ بچار ہوئی کہ دیگر لوگوں اور ساری رعایا کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے کیا حربہ اختیار کیا جائے۔ انہوں نے طے کیا کہ عوام کو بتایا جائے‘ اگر اس بادشاہ کو کچھ ہوگیا اور اس کا نوعمر بیٹا حکمران بنا تو وہ اکیلا کیا کرسکے گا؟ بہتر یہ ہے کہ اس بادشاہ کو میدان سے ہٹا دیا جائے اور اس کے بھائی کو تاج پہنا دیا جائے۔ اس کے بارہ بیٹے ہیں جو اس کی قوت کا راز ہیں اور اس کے بعد حکومت کی مضبوطی کی ضمانت بن سکتے ہیں۔ اس سازش کے تحت انہوں نے طے کیا کہ بادشاہ کو قتل کردیا جائے اور اس کے بھائی کو بادشاہ بنا دیا جائے؛ چنانچہ سازشی ٹولے نے اس عادل ومنصف اور نیک سیرت وپاکیزہ اخلاق حکمران کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ سازشی سردارانِ قوم کے برے عزائم کی راہ میں وہ نیک حکمران ایک مضبوط رکاوٹ تھا‘ اس وجہ سے وہ اس سے چھٹکارا پانا چاہتے تھے۔ حبشہ کی تاریخ میں ایک دیانت دار حکمران کے قتل کا یہ اقدام ایک انتہائی دردناک سانحہ تھا‘ مگر اس سے آگے مزید سانحات بھی اس ملک کے نصیب میں تھے؛ البتہ اللہ تعالیٰ جو تنہا کائنات کا خالق ومالک ہے‘ شر میں سے خیر نکالنے پر پوری طرح قادر ہے۔ بعد میں رونما ہونے والے واقعات سے یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہوگئی کہ ربّ کائنات ظالموں کو ڈھیل ضرور دیتا ہے‘ مگر جب چاہے ان کی رسی کھینچ لیتا ہے‘ اسی طرح وہ اہلِ حق پر آزمائشیں ڈالتا ہے‘ مگر جب وہ ان آزمائشوں میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی نصرت ان کے شامل حال ہوتی ہے۔ اس کے فرشتے ان اللہ والوں کے دلوں کو سکینت دیتے ہیں اور نصرت خداوندی ان کے دشمنوں کی تمام چالوں کو انھی پر الٹ دیتی ہے۔ ان صاحب ِ کردار بندوں کے مقدر میں کامیابی اور فتح لکھ دی جاتی ہے اور مخالفین کے حصے میں شکست اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں آتا۔
والد کے قتل کے وقت یتیم اصحمہ کی عمر بہت کم تھی اور وہ اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس معصوم بچے کے دل پر قیامت گزر گئی‘ مگر وہ بے چارہ کیا کرسکتا تھا۔ بہرحال اس کے چچا نے تخت نشین ہونے کے بعد اسے بھی اپنے محل میں اپنے ساتھ رکھ لیا۔ سردارانِ قوم اس نوعمر یتیم لڑکے کو بھی حسد کی نظر سے دیکھتے تھے۔ انہیں ڈر تھا کہ اگر کبھی یہ لڑکا بڑا ہو کر بادشاہ بن گیا تو اپنے باپ کے قاتلوں سے ضرور بدلہ لے گا۔ انہوں نے بادشاہ کے کان بھرنا شروع کیے اور اسے آمادہ کرنا چاہاکہ اس بچے کو راستے سے ہٹا دیا جائے ‘کیونکہ وہ بڑا ہو کر باپ کا بدلہ لینے پر تل گیا تو بادشاہ کو بھی نہیں بخشے گا۔ جب انہوں نے بادشاہ سے یہ بات کی تو اس نے کہا: ویلکم! قتلت اباہ بالامس واقتلہ بالیوم! تمہاری بربادی ہو‘ کل میں نے اس کے باپ کو (ناحق) قتل کیا ‘ آج اسے قتل کردوں۔ ‘‘ درباریوں نے کہا کہ چلیے ٹھیک ہے‘ اسے قتل نہ کریں ‘لیکن جلاوطن کردیں۔ اس بات پر ان بدبختوں نے اتنا اصرار کیا کہ بالآخر بادشاہ نے بادل ناخواستہ اس تجویز سے اتفاق کرلیا؛ چنانچہ شہزادہ چھ سو درہم میں فروخت کردیا گیا۔
اس مظلوم شہزادے کو بازار سے خریدنے والا تاجر اس کو اپنے ساتھ کشتی میں سوار کرکے اپنے وطن لے گیا۔ جب شام ہوئی تو آسمان پر ایسے سیاہ اور خوف ناک بادل چھائے ‘جن کی چمک اور گرج نے زمین اور پہاڑ ہرایک چیز کو ہلاڈالا۔ بادشاہ گھبرا کر محل سے باہر نکلا تو آسمانی بجلی نے اسے مارڈالا۔ ہرجانب گھپ اندھیرا چھا گیا اور ساری قوم لرز اٹھی‘ کہ اب کیا ہوگا؟سازش کرنے والے شریر سرداران وپادریان جن کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ وہ کل بیس تھے‘ سبھی کے سبھی اندھے ہوگئے اور پھر ذلت کی موت مرگئے۔ (سیرۃ ابن ہشام‘ ص۳۳۸-۳۴۰)چند دنوں تک پورے ملک میں مصیبت اور افراتفری کی یہی کیفیت رہی۔ ہر شخص اس صورتِ حال سے پریشان تھا‘ جو بدکردار موت کے گھاٹ اترگئے‘ وہ تو نشان عبرت بن گئے مگر‘ اب حبشہ کے دیگر اربابِ حل وعقد اور سردار جو بچ گئے سب کے سب گھبراہٹ میں سرگرداں تھے۔ بادشاہ مرچکا تھا اور تخت خالی تھا۔ جب اس بادشاہ کے بیٹوں کا جائزہ لیا گیا تو وہ اتنے عیاش تھے کہ ان میں سے کوئی بھی حکومت کی قابلیت اپنے اندر نہیں رکھتا تھا۔ سب نشے میں دھت تھے۔ اب پورے ملک میں سراسیمگی پھیل گئی۔ سمجھ دار لوگوں نے سردارانِ قوم کو لعن طعن کیا اور کہا کہ یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے۔ پوری قوم یک زبان ہوگئی کہ اب اس عذاب الٰہی سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اس شہزادے کو تلاش کرو‘ جسے تم نے ظلم وستم سے دیس نکالا دیا ہے۔ شہزادے کی تلاش میں کتنا عرصہ لگا‘ اس کا صحیح اندازہ تو مشکل ہے؛ البتہ اس کے تلاش کنندہ اسے فوراً تلاش نہ کر سکے۔
امام حلبی لکھتے ہیں: فخرجوا فی طلبِہٖ وطلبِ الرجلِ الذی باعوہ حتی ادرکوہ فاخذوا منہ ثم جاؤابہ‘ فعقدوا علیہ التاج واقعدوہ علی سریرالملک فملّکوہ۔ ''یعنی یہ لوگ اس شہزادے اور جس شخص کے ہاتھ اس کو بیچا گیا تھا‘ کی تلاش میں نکلے‘ یہاں تک کہ اسے پالیا‘ پھر اس سے شہزادے کو زبردستی واپس لے لیا اور اپنے ملک میں لے آئے۔ اس کے سرپر تاج رکھا اور اسے تخت نشین کیا۔‘‘ یوں اس عظیم نوجوان کی حکومت قائم ہوئی۔ (السیرۃ الحلبیۃ‘ ج۱‘ ص۴۷۷-۴۸۲)یہ واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ تاجر نہیں جانتا تھا کہ یہ نوجوان کون ہے؟ جب اس سے زبردستی اس کا غلام چھین لیا گیا تو وہ حبشہ پہنچا اور بادشاہ کے دربار میں آکر شکایت کی۔ اس نے کہا کہ یا تو اس کا غلام اسے دیا جائے یا اس سے وصول کی گئی قیمت لوٹائی جائے۔ وہ یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ جو غلام اس نے خریدا تھا وہ اب اس ملک میں تاج وتخت کا مالک ہے۔ اس پر وہ گھبرا گیا‘ مگر بادشاہ نے فیصلہ دیا کہ مدعی کا دعویٰ ٹھیک ہے‘ اسے وصول کی گئی قیمت واپس دی جائے یا پھر اس کا غلام اس کے سپرد کیا جائے۔ پس اس تاجر کو قیمت ادا کی گئی۔ یہ اصحمہ بن ابجر کا پہلا فیصلہ تھا۔ اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ کس قدر عالی اخلاق کا مالک‘ عادل اور منصف مزاج تھا۔
تاریخ میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جس تاجر نے شہزادہ اصحمہ کو خریدا تھا‘ وہ عرب تھا اور اس کا تعلق قبیلہ بنی ضمرہ سے تھا۔ وہ شہزادے کو لے کر اپنے علاقے میں گیا‘ جو بدر کے قرب و جوار میں واقع تھا اور وہاں شہزادے کو بکریاں چرانے پر لگادیا۔ جب حبشہ میں بجلیاں کڑکنے کا واقعہ رونما ہوئے کچھ عرصہ بیت چکا تھا۔ اس وقت شہزادہ جوانی کی عمر کو پہنچ گیا تھا۔ جب اس کی تلاش میں لوگ نکلے تو اسے جزیرۂ نمائے عرب میں جاپایا‘ اسے وہاں سے لے کر حبشہ آگئے۔ نور الدین الحلبی بیان کرتے ہیں کہ جب بدر میں آنحضورؐ کو فتح ہوئی اور یہ خبر نجاشی تک پہنچی(وہ اس وقت تک مسلمان ہوچکے تھے؛اگرچہ ابھی اس کا اعلان نہیں کیا تھا) تو انہوں نے تخت سے اتر کر زمین پر سجدہ کیا۔ لوگوں نے پوچھا بادشاہ سلامت آپ نے یہ کیا کیا؟ جواب دیا: انجیل میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب اللہ بندے کو کوئی نعمت عطا فرمائے تو اسے اس کی زمین پر سجدہ کرنا چاہیے۔
سجدہ کرنے کے بعد حضرت نجاشی نے فرمایا: آج اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی خوشی اور عظیم نعمت سے ہمیں نوازا ہے اور وہ یہ ہے کہ محمدؐ اور ان کے دشمن آپس میں بدر کے میدان میں ٹکرائے ہیں۔ اس جنگ میں اللہ نے اپنے نبی کو شاندار کامیابی سے نوازا ہے۔ میں میدانِ بدر کو اس کی جھاڑیوں سمیت اچھی طرح جانتا ہوں۔ (السیرۃ الحلبیۃ‘ ج۱‘ ص۴۸۰)