دنیا کا سب سے مشکل کام کیا ہے ؟ فلک شگاف پہاڑوں پہ چڑھنا ؟ جب ساری دنیا سو رہی ہو تو تنہا جاگتے رہنا؟غور و فکر کرنا؟ ان باتوں کی تہہ تک اترنا ‘ لوگ جن سے اپنی جان چھڑاتے ہیں ۔ اقبالؔ کے اشعار پڑھیں تو دانائی کے ایسے ایسے موتی ملتے ہیں کہ آدمی ششدر رہ جاتاہے ۔ایک دانشور جو خیال آپ کے سامنے پیش کرتاہے ‘ وہ مکمل تراش خراش سے گزرا ہوا موتی ہوتاہے ‘ اسے تراشنے والا کس تکلیف سے گزرتاہے ‘ پڑھنے والا کبھی اس کا اندازہ نہیں کر سکتا ہے۔ کبھی آپ نے برفانی علاقوں میں رہنے والے جانوروں کے بارے میں سوچا ہے ؟ قطب شمالی پہ رہنے والے ریچھ سرما میں زیادہ سے زیادہ شکار کر کے چربی چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ انہیں معلوم ہوتاہے کہ موسم ِگرما میں اسی چربی پہ گزارا کرنا پڑے گا۔
برفانی پہاڑوں کو فتح کرنے والے ان مشکلات سے گزرتے ہیں ‘ جن کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان میں سے کئی لوگوں کے ہاتھ پائوں کاٹنا پڑتے ہیں ‘ جو شدید سردی کی وجہ سے مفلوج ہو جاتے ہیں ۔ ان میں سے کئی موسم کی شدت کا مقابلہ کرتے کرتے مر جاتے ہیں ۔ یہ سب مشکل سہی ‘ لیکن یہ دنیا کے مشکل ترین کاموں میں شمارنہیں ہوتے ۔ کبھی آپ نے ایسا شخص دیکھا ہے ‘ جسے ایک برائی کی عادت ہو جائے ۔ نشہ ‘ جوا بازی وغیرہ وغیرہ ۔ ایک بار بندہ ان کا عادی ہو گیا تو بس بات ختم۔جو لوگ ہیروئن وغیرہ کے عادی ہوجاتے ہیں ‘ وہ پھر دنیا کے کسی کام کے نہیں رہتے ۔ آپ انہیں لاکھ سمجھاتے ہیں کہ یہ نشہ تمہاری صحت کو ختم کر ڈالے گا۔ ان کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جب ایک شخص کی صحت خراب ہو تی جا رہی ہو تو کیا اسے اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ میں اپنی صحت خود خراب کرتا چلا جا رہا ہوں ۔
دماغ میں سب سے زیادہ طاقتور جذبہ جو رکھا گیا ہے ‘ وہ اپنی جان کی حفاظت ہے ۔ ایک بلی اور خرگوش بھی اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ اٹھتا ہے ۔ آپ ایک بلی کو چھت سے دو منزلیں نیچے کا منظر دکھائیں اور اسے ہوا میں معلق کر دیں ۔ خوف کی شدت سے اس کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے ۔ آپ میملز کو چھوڑیں‘ ایک سانپ اور حتیٰ کہ ایک کاکروچ کو بھی اپنی زندگی کی حفاظت کرنا جانتاہے ۔ قرآن کہتاہے کہ تمام جانوں کو بخلِ جان پہ جمع کیا گیا ہے ‘پھر ایسا کیا ہوتاہے کہ ایک انسان اپنی جان بچانے کی سب سے بڑی خواہش سے دستبردار ہو کر نشے کرتا کرتا موت کے گھاٹ اتر جاتاہے ۔ اس دوران اسے اپنی عزت کی بھی کوئی پروا نہیں رہتی ۔ لوگ اسے نشئی کہتے ہیں ۔ اس پر طنز کرتے ہیں ۔ اسے برا بھلا کہتے ہیں۔ اس میں عزتِ نفس کا احساس ہی ختم ہو جاتاہے ۔ وہ چیزیں چوری کر کے بیچتا ہے ۔ گٹر کے ڈھکن چوری کرتا ہوا پکڑا جاتا ہے اور لوگوں سے بے عزت ہوتاہے ۔ایک اور بات آپ نے نوٹ کی ہوگی؛ نشے باز جب نشہ پورا کرنے کے لیے لوگوں سے پیسے مانگتا ہے تو وہ آسانی سے ٹلتا نہیں ۔ آپ اسے برا بھلا کہیں ‘ انکا رکریں ‘ جو بھی کریں‘ وہ کھڑا رہتاہے ۔ اس کے مقابلے میں ایک عام فقیر دو تین بار منع کرنے پر چلا جاتاہے ۔ اس کی وجہ کیا ہوتی ہے ؟ یہی کہ نشے باز کے دماغ میں عزتِ نفس کا احساس مکمل طور پر ختم ہو چکا ہوتاہے ۔ ایک شخص جو نشے کا عادی ہے ‘ اسے اگر کوڑے کے ڈھیر میں خوراک پڑی نظر آئے گی تو وہ بغیر کسی کراہت کے اسے اٹھا کر کھا جائے گا ۔ آپ اسے کہیں کہ میں تمہیں صاف پلیٹ میں ڈال کر کھانا دیتا ہوں ‘ وہ آپ کا ہاتھ جھٹک دے گا‘بلکہ اسے غصہ آئے گا کہ آپ اسے ڈسٹرب کیوں کر رہے ہیں ۔
جو لوگ فحش فلمیں دیکھنے کے عادی ہو جاتے ہیں ‘ وہ ساری زندگی اس علّت میں مبتلا رہتے ہیں ۔ جو لوگ بھی مختلف نشوں کے عادی ہیں ‘ وہ ساری زندگی ان سے باہر نہیں نکل سکتے ۔ کیا آپ نے کبھی ہم جنس پرستوں کو دیکھا ہے ۔ ہزاروں سال سے یہ لوگ معاشرے کی طرف سے دھتکار ے جاتے رہے‘ لیکن وہ کبھی ختم نہیں ہو سکے۔ جیسے ہی دنیا میں خدا کے مقابلے میں انسانی آزادی کا ایک بت سامنے آیا‘ یہ لوگ نعرے مارتے ہوئے باہر نکل آئے۔ پورے مغرب میں انہوں نے اپنے ''حقوق‘‘ منوا لیے ۔ اسرائیل جیسے بظاہرکٹر مذہبی ملک میں بھی اگر کوئی ہم جنس پرستوں کو برا کہتاہے تو سب مل کر اس کی وہ درگت بناتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔
خیر میں آپ کو بتا تاہوں کہ دنیا کا سب سے مشکل کام کیا ہے؟ دنیا کا سب سے مشکل کام ہے کہ آپ کے دماغ میں جب دو نیورونز کے درمیان کنکشنز بن جائیں تو ان کنکشنز کو دوبارہ ختم کر دیا جائے ۔سرکارؐ کے ایک قول کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تمہیں خبر ملے کہ ایک پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل گیا ہے تو مان لو‘ لیکن اگر کسی کی عادت /مزاج کے بدلنے کی خبر ملے تو یقین نہ کرو‘ جو انسان ہیروئن‘ کسی نشے یا ہم جنس پرستی کا عادی ہو جاتاہے ‘ اس کے دماغ میں نیورونز کے درمیان کنکشنز بن جاتے ہیں ‘ جو شخص ہیروئن نہیں چھوڑ رہا ہوتا اور رفتہ رفتہ موت کی طرف بڑھ رہا ہوتاہے ‘ وہ مجبور ہوتاہے ۔ اس کے دماغ میں خلیات کے درمیان کنکشنز بن چکے ہوتے ہیں ۔ وہ ایک ایسی لذت سے گزر چکا ہوتاہے ‘ جس سے اسے منع کرنے والے نہیں گزرے ہوتے ‘ اگر انہیں بھی ایک دفعہ اس میں سے گزار دیا جائے تو وہ اس کے ساتھ ہی شروع ہو جائیں ۔
''خود سے خدا تک ‘‘ کا مصنف‘ میرا دوست ناصر افتخار کہتاہے کہ نشہ سارے کا سارا دماغ کے اندر ہوتاہے ۔ ہیروئن صرف اور صرف triggerکا کام کرتی ہے ۔ اصل میں سارے نشے‘ ساری لذتیں ‘دماغ کے اندر built in ہیں اور جو ہم جنس پرست بن چکے ہیں ‘ ان کے دماغ میں بھی ایسے کنکشنز بن چکے ہیں ‘ جو ختم نہیں ہو سکتے ۔
ہاں‘ اگر کوئی ان برین کنکشنز کو ختم کر سکتاہے‘ تو وہ صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی قادر و مطلق ذات ہے !