رب العالمین کی خلق کی گئی تمام کائنات میں انسانی حقوق اور بلا امتیاز انصاف کے علمبردار کے طور محبوب ِخدا احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفیﷺکی شخصیت کو بنی نوع انسان میں سب سے اولین حیثیت حاصل ہے ‘جس کاا قرار اب اقوام عالم بھی کر رہی ہیں۔ اپنے آخری خطبہ میں رحمت العالمین خاتم النبیین محمد مصطفیﷺ نے فرمایاکہ '' تم میں سے کسی کو رنگ ونسل کی بنیاد پر کسی پر فوقیت نہیں ‘کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر‘ گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کسی قسم کا خصوصی استحقاق حاصل نہیں ‘اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہی بلند درجہ پر فائز ہوں گے‘ جن کے اعمال سب سے اچھے ہو ں گے‘‘۔پیغمبر خدا محمد مصطفیﷺ نے فرمایا '' تمہاری آنے والی زندگیوں میں ہدایات کیلئے قرآن چھوڑ کر جا رہا ہوں‘ جس میں تمہارے لئے زندگی اور ہدایت ہے ‘اس میں رب کریم کی جانب سے تمہیں بتا دیا گیا ہے کہ تمہارا رہن سہن کیسا ہونا چاہیے؟ تمہارا نظام حکومت اور انصاف کا معیار کیا ہونا چاہیے ؟‘‘ نبی کریمﷺ نے اپنی زندگی میں متعدد مرتبہ مسلمانوں کو تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ''دیکھو ‘کہیں ایسا نہ ہو کہ تم میں سے طاقتور لوگ اپنی چوریوں کیلئے کسی کو جواب دہ نہ ہوں۔خدا کی قسم ‘اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ دیتا‘‘کیونکہ :
Accountability is one of the core creeds of Islam.
رسول کریمﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ '' اگر میں بھی خدا کی نافرمانی کروں گا تو مجھ سے بھی جواب طلبی ہو گی ‘‘تو سوچئے کہ جب رحمت العالمینﷺ خود کو احتساب سے بالا تر نہیں سمجھتے تو پھر ہم میں سے اگرکوئی صدر یا وزیر اعظم ہے یا کوئی کھرب پتی یا جاگیردار ہے تو وہ احتساب سے کیسے بچ سکتا ہے؟اگراﷲ تعالیٰ شہید کی بخشش کرتے ہوئے اس کے سوائے قرض کے تمام گناہ معاف کر تا ہے تو ہم انسانوں میں سے کسی نے اس ملک کے عوام کی ضروریات کیلئے مختص کیا ہوا ایک روپیہ بھی جانتے بوجھتے ہوئے صریحاََ بد نیتی سے لوٹاہے تو وہ چاہے کسی منصب کی کرسی پر بیٹھاہو یا کسی شہنشاہ کی مسند پر‘ اسے جواب دینا ہو گا اورا س کی جواب دہی کیلئے شہر کے قاضی کو کوئی خوف لالچ یا تعلق واسطے کو ایک طرف رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہو گا۔انصاف کرنا خد اکی صفت ہے اور انصاف کی کرسی پر بیٹھا ہوا کوئی بھی شخص ‘اگر خدا کی اس صفت کو اپنی رشتہ داری‘ رشوت‘ سفارش یا برادری کے دبائو کی وجہ سے متنازع بناتا ہے تو اسے جان لینا چاہیے کہ خدا اپنی صفت کو مجروح کرنے والے کو کبھی بھی معاف نہیں کرے گا‘ نہ اس دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں‘ ا س لئے عدالت کی کرسی ہو یا وزیر سفیر اور مشیر کی مسند ‘چیف سیکرٹری اور آئی جی کا دربارہو یا تھانیدار کا‘ کسی کمشنر اور سیکرٹری کا دفتر ہو یا کسی تحصیلدار اور پٹواری کا پٹوار خانہ ہو یا بجلی‘ سوئی گیس اورپانی کے کسی محکمے کا افسر‘ اسے ہر فائل اور ہر کیس کو اس کا اصل میرٹ دیکھ کر فیصلہ کرنا ہو گا‘اگر اس میں کسی قسم کی ذاتی پسند یا نا پسند کو ترجیح دی تو اس کا شمار ان گناہوں میں ہو گا ‘جن کا اﷲکے حضور پورا پورا حساب دینا ہو گا۔
ترمذی شریف کے مطا بق‘ حدیث مبارکہ میں رسول کریمﷺ نے فرمایا '' روزِ محشر ہربنی آدم کو اﷲ کے سامنے کھڑے ہو کر بتانا پڑے گا کہ اس نے دنیا میں اپنی زندگی کس طرح گزاری؟اپنی جوانی کو کیسے گزارا؟ اس نے زندگی میں کن طریقوں سے دولت اکٹھی کی اور کس طرح اس نے اپنی اس دولت کو خرچ کیا اور اس کے پاس جو علم تھا‘ اسے کس طرح استعمال کیا ؟‘‘۔اﷲ تبارک و تعالیٰ سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ‘کیونکہ اس کے کیمرے کی آنکھ ہم سب کو دیکھ رہی ہے‘ اس لئے بتا دیا جائے گا کہ تم نے پاکستان‘ دبئی‘ لندن اور امریکہ سمیت سوئٹزر لینڈ یا سپین میں جو جائیدادیں اور سرمایہ محفوظ کیا ہے‘ وہ کس طرح اکٹھا کیا گیاتھا؟ اس کے ذرائع کیا تھے؟ اب‘ اگر کوئی یہ کہے کہ میری لندن‘ امریکہ یا فرانس اور سوئٹزر لینڈ کی جائیدادوں کے متعلق کسی کو پوچھنے کا کوئی حق نہیں یا یہ کہے کہ اگر میری امریکہ یا لندن میں جائیداد ہے تو آپ کو کس نے حق دیا ہے کہ اس کی چھان بین کریں‘کیا کسی اسلامی معاشرے اور قانون میں اس منطق کو تسلیم کیا جا سکتا ہے؟اگر خلیفہ دوم حضرت عمرفاروقؓ سے ایک عام انسان سب کے سامنے پوچھ سکتا ہے کہ خلیفہ وقت یہ بتائیے کہ آپ نے اپنے جسم کے گرد لپیٹی ہوئی یہ چادر کہاں سے لی ہے؟تو کسی عام سیاسی رہنماکی کیا حیثیت ہے؟
ترمذی شریف میں درج حدیث مبارک کے مطا بق‘ اﷲ تعالیٰ بنی آدم سے روزِ قیامت پوچھے گا؛ تمہیں جو علم دیا گیا‘ اسے تم نے کس طرح استعمال کیا؟اب‘ اس علم کے ذریعے وہ ڈاکٹر ہو یاوکیل ‘ عالم فاضل ہو یا سائنسدان ہو یا پولیس کاافسر‘ سرکاری افسر ہو یا انصاف کی کرسی پر بیٹھا ہوا منصف‘ ان سب سے بغیر کسی تفریق یا لحاظ کے پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنے اس علم کا استعمال کس طرح کیا؟کیا اس سے لوٹ کھسوٹ کی یا بنی نوع انسان کی خدمت؟ تم نے مظلوم کو انصاف دلایا یا ظالم کا ساتھ دیتے ہوئے میرے مظلوم بندے کو انصاف سے محروم کیا؟ جب تمہارے سامنے کسی بیوہ‘ یتیم اور معذور کی جائیداد کا مقدمہ رکھا گیا تو تم نے دولت کے لالچ میں ظالم کے حق میں فیصلہ کیوں کیا؟ جب تمہارے سامنے تمہارے ہی کسی ساتھی یا دوست کا مقدمہ رکھا گیا تو چاہیے یہ تھا کہ اس پر پورے انصاف سے فیصلہ کرتے‘ لیکن تم نے اپنے تعلق اور برادری کی خاطر انصاف کی کرسی کی عظمت کو پامال کیوں کیا؟ اﷲ اپنے سامنے کھڑے بنی آدم سے پوچھے گا کہ جب دنیا میں تمہیں منصب دیا گیا تو تم نے میرے بندوں کے ساتھ انصاف کیوں نہ کیا؟ روزِ محشر اﷲ تبارک و تعالیٰ پوچھے گا کہ اے بنی آدم یاد کرو ‘ جب زمین پر میرا بندہ تمہارے پاس اس وقت آیا جب تم حاکم اور منصف کی کرسی پر بٹھائے گئے تھے تو میرے بندے نے تم سے فریاد کی کہ تمہارے ساتھ بیٹھے ہوئے فلاں شخص نے لوٹ مار اور ناجائز طریقے سے اس ملک کے عوام کی دولت لوٹ کر محل بنائے ہیں‘ اس نے دنیا بھر میں اپنی جائیدادیں بنا لی ہیں‘ جب اس نے تمہیں ان جائیدادوں کے تمام ثبوت بھی دے دیئے تو تم نے میرے اسے بندے کو معمولی اور حقیر جان کر اس کی درخواست کو اپنی دوستی کے ناتے حقارت سے کیوں دیکھا؟کیا تو نہیں جانتا تھا کہ میرے محبوب ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں اعلان کر دیا تھا کہ ''تم میں سے کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں ‘سوائے اچھے اور نیک اعمال کے‘‘اس لئے اپنے کسی دوست عزیز یا ساتھی کے خلاف درخواست اور شکایت کو رد کرنے سے پہلے سورہ المائدہ میں رب کریم کا فرمان ضرور دیکھ لینا '' اور گناہ اور زیا دتی کے کاموں میں ایک دوسرے کے مدد گار نہ بنو اور اﷲ کے عذاب سے ڈرو ‘کیونکہ اﷲ کا عذاب بہت ہی سخت ہے‘‘۔
آج کسی کو غریب یا معمولی شخص سمجھ کر اس کی تضحیک کرتے ہوئے یاد رکھنا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں محمود و ایاز میں کوئی فرق نہیں ۔