تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     12-06-2020

ماضی کا سفر

پچھلے ہفتے دنیا چینل کے اسلام آباد دفتر میں پائوں رکھا تو ٹی وی کیمرہ کامران شاہد کے آٹھ بجے والے لائیو شو میں لینے کے لیے تیار تھا۔ کیمرہ مین چوکس جبکہ میک اپ مین میرا انتظار کر رہا تھا۔
میں اندر داخل ہوتے ہی ایک جگہ ساکت ہو گیا۔ مجھے لگا‘ یہ سب میرا جانا پہنچانا ہے۔ سوچتا رہا اس کمرے سے مجھے کیوں انسیت محسوس ہو رہی ہے؟ یہ دیواریں، میز اور الماری کیوں اپنی اپنی لگ رہی ہیں؟
کامران شاہد سے میری پہلی ملاقات دو ہزار دس میں گوادر میں ہوئی‘ جہاں این ایف سی ایوارڈ کی تقریب ہونا تھی۔ اسلام آباد سے صحافی اس خوبصورت ساحلی شہر پہنچے ہوئے تھے۔ جہاز میں ہی ہماری دعا سلام ہوئی تھی۔ کامران شاہد پڑھا لکھا اور انتہائی مہذب لگا تھا۔گوادر کے نیلے پانیوں اور خوبصورتی نے جتنا مجھے متاثر کیا‘ اتنا ہی مجھے وہاں ہر طرف پھیلی غربت نے مایوس کیا تھا۔ میں نے کسی دوست کو وہاں کہا تھا: ہمارے کام دیکھیں‘ گوادر کو دنیا کا خوبصورت اور امیر ترین خطہ ہونا چاہیے‘ یہاں دسمبر میں وہ خوشگوار موسم ہے جس کیلئے یورپین ترستے ہیں۔ ان دنوں برفباری کی وجہ سے پورا یورپ بند تھا۔ میں نے کہا: ہم اگر اس علاقے کو نو مین لینڈ قرار دے کر سیاحت کیلئے کھول دیتے تو دوبئی اس کے سامنے کیا چیز تھی۔ دنیا بھر کے مشہور برانڈز کے یہاں شورومز ہوتے، سارا دن گورے یا سیاح ساحل پر لیٹتے تو شام کو یہاں رونقوں سے لطف اندوز ہوتے۔ ڈالروں کی بھرمار ہوتی۔ بلوچستان کے لوگ ترقی کرتے اور پورے ملک کو اس کا فائدہ ہوتا۔ ایسا نیلا پانی میں نے زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔ جتنی بڑی مچھلیاں اور جھینگے یہاں دیکھے‘ دنیا میں اور کہیں نہیں ہوں گے‘ لیکن مقامی لوگوں کے پاس پینے کو پانی تک نہیں تھا۔ غربت ان کے چہروں پر دور سے نظر آرہی تھی۔ اب ان دس سالوں میں سنا ہے بہت کچھ بدل گیا ہے۔ 
خیر کامران شاہد کی ایک بات نے مجھے متاثر کیا کہ اس کے اندر سیکھنے کی بہت خواہش تھی۔ وہ ٹی وی جرنلزم میں نیا نیا اپنا نام بنا رہا تھا۔ کامران شاہد کی کوشش تھی وہ کسی سے کچھ نہ کچھ سیکھ لے۔ رات کو اس نے حامد میر سے پوچھا: اچھا ٹی وی شو کیسے کیا جاتا ہے؟ حامد میر نے کامران شاہد کو ایک پروفیشنل راز بتایا تھا کہ اینکر کو لمبا سوال نہیں کرنا چاہیے۔ اینکر کو کم سے کم اپنا چہرہ سکرین پر رکھنا چاہیے۔ ایک مختصر لیکن پُرمغز سوال کرے تاکہ کیمرہ فوراً مہمان پر جائے۔ لوگ اینکر کا چہرہ دیکھ کر تنگ آجاتے ہیں۔ آج بھی آپ دیکھیں تو حامد میر چھوٹے لیکن اہم سوالات کرے گا جبکہ بہت سارے اینکرز میری طرح پوری تقریر کرکے پھر طویل سوال کریں گے۔ کامران شاہد میرے پسندیدہ اینکرز میں سے ہے جو ذہانت بھرے شو کرتا ہے۔ 
اب اس دفتر میں داخل ہوکر مجھے لگا جیسے کچھ جانا پہچانا ہے۔ میں جا کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ کیمرہ مین نے میری حیرانی اور کسی حد تک تجسس کو محسوس کیا اور کہا: سر آپ دنیا ٹی وی میں اسی دفتر میں بیٹھتے رہے ہیں۔ 
دراصل دفتر کے باہر کچھ تبدیلیاں ہو چکی تھیں جس کی وجہ سے میں فوراً اسے نہ پہچان سکا۔ اچانک یادوں کا ایک ریلا مجھے اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ اگرچہ بہت کچھ بدل گیا تھا‘ پھر بھی مجھے لگا یہاں کچھ اپنا پرانا موجود تھا۔ 
ٹی وی جرنلزم سے مجھے دلچسپی نہیں تھی۔ ایک دفعہ چینل کے حوالے سے کراچی میں تربیت لے کر چھوڑ دیا تھا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں حالانکہ پیسے زیادہ مل رہے تھے۔ میں نے کہا: پیسے واپس لے لیں‘ مجھ سے یہ کام نہیں ہوگا۔ میں خبریں فائل کرکے، سکینڈلز بریک کرکے اور کالم لکھ کر ہی خوش ہوں۔ لیکن تقدیر کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔ مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی ٹی وی جرنلزم کی طرف آنا پڑا۔ میں نے نیا نیا ایک میڈیا ہائوس چھوڑا تھا کہ پرانے دوست ڈائریکٹر نیوز احمد ولیدکا فون آیا کہ دنیا گروپ میں آ جائو۔ دو دن بعد دنیا گروپ کے ایم ڈی نوید کاشف صاحب سے ملاقات ہوئی اور ان کی مہربانی سے دو ہزار گیارہ میں دنیا گروپ سے منسلک ہو گیا۔ ہارون الرشید صاحب ان دنوں دنیا اخبار کے ادارتی صفحات پر کام کر رہے تھے۔ نذیر ناجی صاحب گروپ ایڈیٹر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکے تھے۔ اظہارالحق، خالد مسعود ،حسن نثار، اوریا مقبول جان، عامر خاکوانی، خورشید ندیم، مسعود ملک مرحوم اور دیگر ٹاپ کالم نگار ایک جگہ اکٹھے ہو گئے تھے۔ اس سے بہتر کالم نگار ایک جگہ اکٹھے نہیں ہو سکتے تھے جو دنیا گروپ کے مالک میاں عامر محمودصاحب نے راتوں رات اکٹھے کر لیے تھے۔ 
دنیا چینل میں بھی کافی دوست اکٹھے ہو گئے تھے‘ ارشد شریف، محمد مالک، نصرت جاوید، سعید قاضی، سلمان غنی، نسیم زہرہ، عاصمہ چوہدری، ضمیر حیدر، مبشر لقمان، سمیع ابراہیم، جاوید اقبال، مہر بخاری۔ دنیا گروپ کے پاس ٹی وی اور اخبار کی بہترین ٹیم اکٹھی ہوگئی تھی۔ مارننگ شو‘ جو سمیع ابراہیم، سلمان غنی اور شازیہ ذیشان کرتے تھے‘ دھیرے دھیرے مقبولیت کے جھنڈے گاڑ رہا تھا۔ اتنے بڑے اینکرز کے درمیان مجھے اپنی جگہ بنانے کیلئے یقیناً بہت محنت کی ضرورت تھی اور میرے لیے یہ سب کچھ نیا تھا۔ 
دو ہزار تیرہ کے الیکشن کے دنوں میں لاہور سے لائیو ٹرانسمیشن ہوئی تو مجھے بھی وہیں جانا پڑا۔ اچانک ایک دن سیڑھیاں چڑھے ہوئے سعید قاضی سے ملاقات ہوگئی۔ پتہ نہیں اس کے ذہن میں کیا آئی‘ مجھے کہنے لگا: آپ ہمارے ساتھ صبح کے پروگرام 'خبر یہ ہے‘ میں کام کریں گے؟ میں ہچکچا گیا کیونکہ میرا کسی شو میں کام کرنے کا تجربہ نہیں تھا۔ اوپر سے شو صبح آٹھ بجے تھا۔ اس کا مطلب تھا صبح چھ بجے اٹھنا اور مجھ سے یہ کام نہیں ہونا تھا۔ اب سعید قاضی کہہ رہے تھے کہ ان کے ساتھ صبح کا شو کر لوں۔ کہنے لگے: نوید کاشف صاحب سے بات ہوگئی ہے۔ مجھے کچھ ہچکچاہٹ کا شکار دیکھ کر کہنے لگے: کوئی بات نہیں آپ سوچ لیں۔ اسلام آباد گھر لوٹا اور بیوی کو بتایا تو اس نے ہمت بندھائی کہ اب دنیا بدل رہی تھی‘ کب تک تم اولڈ سکول صحافی کی طرح خبر اور کالم پر چلو گے؟ ٹی وی کا دور ہے۔ میں نے کہا: صبح کون اٹھے گا؟ اور پھر ایک ایسے سفر کا سلسلہ شروع ہوا جو میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ سعید قاضی، شازیہ اور میرے شو نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔
اب اسی اپنے پرانے دفتر کی کرسی پر بیٹھے یاد آیا: کیسے یہاں سے نیا سفر شروع کیا تھا جس کا میرے ذہن میں ہرگز آئیڈیا نہیں تھا۔ راجہ عدیل اور رابعہ نے مجھے جوائن کیا۔ لالہ رخ ہمارے پروگرام کی ریسرچر تھیں۔ ایک قابل اور ذہین ریسرچر۔ دفتر کو جس طرح لالہ رخ نے آرگنائز کیا اور فائلیں بنا کر رکھیں وہ ابھی تک میں مس کرتا ہوں۔ ہر سکینڈل کی دستاویزات، ثبوت یا دیگر کاغذات ایک لمحے میں آپ کے سامنے حاضر۔
ایک دن جمشید رضوانی کا فون آیا: ایک لڑکا بھیج رہا ہوں‘ غریب لیکن قابل ہے‘ ملتان یونیورسٹی سے ایم اے جرنلزم میں گولڈ میڈل لیا ہے۔ پھر ایک دن قسمت خان میرے سامنے کھڑا تھا جس کے باپ نے بچوں کے مستقبل کی خاطر لورالائی سے ہجرت کی اور میلسی کے ایک گائوں میں جگہ ڈھونڈی۔ قسمت خان سے زیادہ ذہین کم نوجوان ہوں گے۔ایک دن ہمارے دوست صحافی احمد حسن علوی مرحوم کی بیٹی وجیہہ علوی کا فون آیا‘ انہیں انٹرنشپ چاہیے تھی۔ وجیہہ علوی نے قسمت خان اور مجھے بہتر بننے میں مددکی۔ اسی دفتر میں ہر وقت رونق لگی رہتی تھی۔ میں صبح کا شو کرنے سات بجے پہنچ جاتا۔ میں نے گردن گھما کر پورے کمرے کا ایک دفعہ پھر جائزہ لیا۔ وہ سب ساتھی اور دوست میرے سامنے آن کھڑے ہوئے۔ وہ سب جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ جنہوں نے مجھے جرنلسٹ بننے میں مدد کی۔ وقت تیزی سے گزر گیا تھا۔ آئینے میں خود کو دیکھا تو نہ پہچان پایا! 
شوکب کا ختم ہوچکا تھا۔ کیمرہ مین اور میک اپ آرٹسٹ مجھے گزرے دنوں کی یادوں میں گم دیکھ کر چپ چاپ کمرے سے نکل گئے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved