تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     12-06-2020

شہباز شریف کی علالت، بجٹ سیشن اور مولانا کا احتجاج

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف بجٹ اجلاس کے لیے تقریر تیار کر رہے تھے کہ جمعرات کی صبح ان کے کورونا کا شکار ہونے کی خبر آ گئی۔ 3 جون کو لاہور ہائی کورٹ میں پُر ہجوم پیشی کے بعد انہوں نے احتیاطاً کورونا ٹیسٹ کرایا تو اس کی رپورٹ منفی آئی تھی۔ اس سے پہلے عطاء اللہ تارڑ اور بدر شہباز (شہباز شریف کے سیکرٹری) کے کورونا ٹیسٹ پازیٹو آئے تو شہباز صاحب بھی احتیاطاً قرنطینہ میں چلے گئے تھے‘ لیکن اللہ نے خیر کی۔ ان کی ٹیسٹ رپورٹس منفی آئیں لیکن تازہ رپورٹ مثبت آئی ہے۔ وہ قرنطینہ میں چلے گئے ہیں۔ مریم اورنگ زیب اور عطاء اللہ تارڑ اس حوالے سے شہباز صاحب کی 9 جون کو نیب میں پیشی کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کے بقول شہباز شریف نیب حکام کو تحریری طور پر آگاہ کر چکے تھے کہ وہ کینسر سروائیور ہیں، 69 سال کی عمر ہے‘ جس کے باعث ان کا امیونٹی لیول بہت کم ہے۔ انہوں نے نیب کے سوالات کے تحریری جواب بھی بھجوا دیئے تھے۔ اس کے باوجود نیب حکام ان کی حاضری پر مصر رہے۔ ان کی اطلاعات کے مطابق خود نیب لاہور میں بھی بعض افسر کورونا کا شکار ہیں۔ ادھر نیب حکام کا کہنا تھا کہ شہبازشریف کی پیشی کے لیے تمام ایس او پیز کا مکمل اہتمام کیا گیا تھا۔
میڈیا میں نیب ذرائع کے مطابق یہ تفتیش سوا گھنٹہ جاری رہی۔ شہباز صاحب نے 13 سوالات کے تحریری جوابات جمع کرائے جبکہ باقی سوالات میں سے صرف 4 کے جواب دے پائے۔ ذرائع کے مطابق، شہباز صاحب نیب حکام کو مطمئن نہ کر پائے؛ چنانچہ ان پر واضح کردیا گیا کہ 17 جون کو لاہور ہائی کورٹ سے ان کی ضمانت قبل از گرفتاری میں توسیع نہ ہوئی تو انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
''ذرائع‘‘ والا معاملہ بھی دلچسپ ہے۔ چونکہ یہ تفتیش بند کمرے میں ہوتی ہے، چنانچہ یہ''ذرائع‘‘ ادارے ہی کے ہوتے ہیں۔ لکھا ''نیب ذرائع‘‘ ہی جاتا ہے‘ لیکن بعد میں جو صورتِ حال سامنے آتی ہے‘ وہ ان ''ذرائع‘‘ کے دعووں کے برعکس ہوتی ہے۔ مثلاً 2018 کے اوائل میں احد چیمہ گرفتار ہوئے، تو ''ذرائع‘‘ کے مطابق وہ شہبازشریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کو تیار ہوگئے تھے۔ انہوں نے متعدد الزامات کو تسلیم بھی کر لیا تھا۔ اسی طرح کی خبریں، فواد حسن فواد کے حوالے سے بھی آئی تھی۔ احد چیمہ آج بھی جیل میں ہیں۔ فواد حسن فواد ضمانت پر گھر آ گئے ہیں۔ اور دونوں میں سے کسی نے الزامات کو قبول کیا۔ نہ شہبازشریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کو تیار ہوئے۔
69سالہ کینسر سروائیور، شہباز شریف اپنی صحت کے حوالے سے بہت محتاط اور حساس رہتے ہیں: سماجی فاصلہ کورونا کے ایس او پیز میں اہم ترین نکتہ ہے۔ شہبازشریف 3 جون کو ہائیکورٹ آئے تو احاطہ عدالت کے اندر اور باہر بھی کارکنوں کا ہجوم تھا۔ ان میں سے بعض نے ماسک بھی پہن رکھے تھے، لیکن ضروری درمیانی فاصلہ مفقود تھا، بعض سیلفیاں بھی بنا رہے تھے۔ شاہد خاقان عباسی اور مریم اورنگ زیب بھی راولپنڈی سے آئے ہوئے تھے۔ ان کے کورونا پازیٹو کی خبر آئی تو عمومی خیال یہی تھا کہ وہ یہ سوغات لاہور ہی سے لیکر گئے تھے۔ 9جون کو نیب میں پیشی کے موقع پر بھی کارکن خاصی بڑی تعداد میں تھے۔ مریم اورنگ زیب اور عطاء اللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ ایک شب قبل انہوں نے ایک بیان میں کارکنوں کو شہباز کی پیشی کے موقع پر نہ آنے کی تلقین کی تھی لیکن اپنے لیڈر سے محبت کرنے والے کارکنوں کی خاصی بڑی تعداد اس کے باوجود چلی آئی۔
خیال تھا کہ شہباز شریف کی بیماری کو سیاسی مخالفین، ڈرامہ بازی قرار دے کر اس کا مذاق اڑائیں گے‘ لیکن یہ بات خوش گوار حیرت کا باعث تھی کہ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان شہبازشریف کی علالت پر تشویش اور افسوس کا اظہار کررہے تھے۔ پنجاب حکومت کی طرف سے اظہار خیر سگالی کرتے ہوئے، ان کا کہنا تھا کہ شہبازشریف کی صحت پاکستان کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ اس توقع کا اظہار کہ صحت یابی کے بعد وہ کورونا کے خلاف مہم میں بھرپور کردار ادا کریں گے۔
ادھر ملک میں اور خصوصاً پنجاب اور لاہور میں کورونا کا طوفان بڑھتا جارہا ہے۔ وزیر اعظم اگلے دوماہ کو زیادہ خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق فی ملین ہلاکتوں میں پاکستان خطے میں سب سے آگے نکل گیا ہے (ہر گھنٹے میں چار اموات) عالمی سطح پر پاکستان چھٹے نمبر پر آگیا ہے۔ جمعرات کو قومی اسمبلی میں خواجہ آصف نے اگلی نشستوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، یہ سب لوگ کورونا کے باعث قرنطینہ میں ہیں۔ میڈیا میں بھی صورتِ حال مختلف نہیں۔
ایسے میں قومی اسمبلی کا بجٹ سیشن، پارلیمانی تاریخ کا منفرد سیشن ہوگا۔ (اللہ کرے، آئندہ کبھی اس کا اعادہ نہ ہو) حکومت اور اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں (پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی) میں معاہدے کے تحت اس اجلاس کی حیثیت اب محض رسمی اور علامتی ہوگی۔ سماجی فاصلے کے مطابق ایک وقت میں ایوان کی کل تعداد کے ایک چوتھائی ارکان ہوں گے (342 کے ایوان میں 86 ارکان۔ 46 حکومتی اور 40 اپوزیشن بنچوں پر) بجٹ سیشن، پارلیمانی سال کا سب سے زیادہ پرجوش اور ہنگامہ خیز سیشن ہوتا ہے۔ اپوزیشن کی کٹوتی کی تحریک (Cut Motion) کا مطلب ہوتا ہے کہ حکومت ایوان کے اعتماد سے محروم ہو چکی۔ اس صورت وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے ارکان کی حاضری کو یقینی بناتی ہے۔ محض چار ووٹوں کی اکثریت والی حکومت کے لیے تو یہ مرحلہ اور بھی زیادہ کٹھن ہوتا ہے‘ جبکہ اس کی اپنی (پی ٹی آئی کی) صفوں میں بھی صورتِحال کوئی زیادہ اطمینان بخش نہیں تھی۔ ایسے میں ''مبینہ طور پر‘‘ جہانگیر ترین کی بیرونِ ملک روانگی حکومت کے لیے سکھ کا سانس بنی۔ ادھر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور سپیکر چودھری پرویز الٰہی کی ملاقات میں‘ تجدید وفا کے اہتمام سے بھی لگتا ہے کہ قاف لیگ کی قیادت کو نیب سے درپیش خطرہ ٹل گیا ہے اور کولیشن پارٹنرز میں فاصلے سمٹ گئے ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں معاہدے کے بعد، تیس جون کو بجٹ کی منظوری تک، کورم کی نشاندہی کی جائے گی نہ اپوزیشن کٹوتی کی تحریکوں پر ووٹنگ ہو گی (اپوزیشن کٹوتی کی تحریکیں تو پیش کرے گی لیکن ووٹنگ کے بغیر واپس لے لے گی)۔ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام اس ارینجمنٹ کو قبول کرنے پر تیار نہیں؛ چنانچہ مولانا عبدالواسع اور اسد محمود (مولانا فضل الرحمن کے صاحبزادے) کی زیر قیادت جے یو آئی کے ارکان اسمبلی نے اس پر شدید احتجاج کرتے ہوئے سپیکر ڈیسک کے سامنے دھرنا دیدیا (ڈپٹی سپیکر قاسم سوری اجلاس کی صدارت کررہے تھے) مولانا کا موقف تھا کہ کسی رکن اسمبلی کو اجلاس میں شرکت سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ انہوں نے ایوان میں جے یو آئی کی تمام نشستیں (درجن بھر سے زائد) لگانے کا بھی مطالبہ کیا۔ مولانا عبدالواسع نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے رویے سے ایک بار پر یہ حقیقت واشگاف ہوگئی کہ ملک میں حقیقی اپوزیشن صرف جے یو آئی ہے۔
ادھر میڈیا سے گفتگو میں مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اپوزیشن قوم کی توقعات پر پورا نہیں اتر رہی۔ اسی شام رانا ثناء اللہ کی زیر قیادت خرم دستگیر اور محسن رانجھا پر مشتمل مسلم لیگ (ن) کے وفد نے مولانا سے ملاقات کی۔ ظاہر ہے، یہ تالیف قلب کی کوشش تھی۔ لیکن کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سیاسی حکمت عملی میں جمعیت علمائے اسلام کو بھی اعتماد میں لے لیا کرے۔ مولانا دسمبر کے آزادی مارچ میں اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کر چکے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved