تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     12-06-2020

ٹوٹتا ہوا’سٹیٹس کو‘

اس جنگ کے کئی محاذ کھلے ہوئے ہیں۔ زیادہ تر محاذ ایسے ہیں جو نظر نہیں آ رہے لیکن ہر محاذ سے چیخ اور دھمکی کی آوازیں آتی ہیں اور ساتھ ساتھ دھواں بھی اُٹھتا ہوا صاف دکھائی دے رہا ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ ہے۔ 'سٹیٹس کو‘ فورسز کے پاس صرف پاکستانی روپے کے اے ٹی ایم کارڈز نہیں ہیں بلکہ دنیا کی ہر کرنسی کے اے ٹی ایم ان کے کہنے پر ہِلتے‘ کھلتے اور چلتے ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے تازہ ترین اس لڑائی کے فیز نمبر1 پر نظر ڈالنا ضروری ہو گا۔ اگر آپ اخباروں کے آرکائیوز دیکھیں تو 'سٹیٹس کو‘ کے جادوگروں کے ایسے ایسے کمالات نظر آئیں گے جو آپ کو کورونا وائرس سے بھی زیادہ حیران کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر 1960ء کے عشرے میں ملک میں سب سے لمبا مارشل لاء حکمرانی کیا کرتا تھا۔ ایوب خانی مارشل لاء جس نے ملک میں سب سے لمبا اقتدار بھی دیکھا۔ اسی دور میں انڈونیشیا سے ایک خاتون کو پاکستان بلایا گیا جس کے آنے کی خبر اُس زمانے کے اخباروں نے پہلے صفحے پر چھاپی۔ پاکستان کے غریب لوگوں کو بتایا گیا کہ یہ محض ایک عورت نہیں بلکہ چلتا پھرتا معجزہ ہے۔ ایوب خانی دور کے پی ٹی وی پر اس جادو اثر لیڈی کے دورے کی نیوز ریل چلائی گئی جس کا نام کورونا سے ملتا جلتا سا تھا۔ وہ نام تھا فونا۔ اس اِنڈونیشین لیڈی نے کراکا ٹووا کے پہاڑی علاقے کا لباس پہن رکھا تھا جس میں سر کو سفید کپڑے سے ڈھانپا جاتا ہے۔ باقی کی باڈی کوَر کرنے کے لیے اسے بڑی سی چادر میں لپیٹا گیا‘ ایسی چادر جسے نہ تو پُرانے دور کا برقعہ کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی آج کے دور کا عبایا۔ اس وقت کی بڑی بڑی ہستیوں نے پونے پانچ فُٹ قد کے اس معجزے سے ملاقاتیں کیں اور اپنے گناہگار کانوں سے فونا کے بچے کی گفتگو سُنی جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ ایک طرف معجزاتی خاتون کا سپانسرڈ شدہ دورہ جاری تھا اور دوسری طرف ایک عوامی شاعر اس ڈرامے کے پردے میں چُھپی ہوئی معاشی قتلِ عام کی سازش کا پردہ چاک کر رہا تھا۔ امریکی امداد کی گندم کے لیے جگہ بنانے کی سازش‘ جس کی وجہ سے ایشیا کی فوڈ باسکٹ کہلانے والے پنجاب میں آٹا جمپ مار کر 10 روپے من مہنگا ہو گیا۔ ایسے میں ایک طرف ملک بھر کی نظریں انڈونیشیا کی فونا پر لگی ہوئی تھیں جبکہ پردے کی دوسری طرف اور Economic Hitman غریب عوام میں بھوک بانٹنے کا جال بچھا رہے تھے۔ شاعرِ عوام حبیب جالب اکیلا تھا۔ اُس کے عوام انڈونیشیا کے صوبے ایسٹ جاوا کی زارا فونا کا ڈراما دیکھتے رہ گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آرٹ آف گورننس کے بجائے عام لوگ ایسے ڈراموں کے عادی ہو گئے۔ ان ڈراموں کے پروڈیوسر‘ رائٹر اور ڈائریکٹر عام لو گوں کی نفسیات میں گھسنے میں کامیاب ہو گئے۔ بالکل ویسے ہی جیسے کمزور جسمانی مدافعت رکھنے والے لوگوں میں بد بخت کورونا وائرس گھس رہا ہے۔
اگر ہم اپنے عزیز وطن کے گزرے ہوئے72 سالوں پر نظر ڈالیں تو ہر طرف 'سٹیٹس کو‘ کا راج دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے انصاف کی پہلی سیڑھی پولیس سٹیشن کے گیٹ سے شروع ہوتی ہے۔ کتنے آئے کتنے گئے‘ بہت سے ایسے جن کے لوگ نام جانتے ہیں نہ ہی آخری نشان‘ مگر تھانہ کلچر میں 'سٹیٹس کو‘ نہیں ٹوٹ سکا بلکہ یہ کہنا زیادہ سچ کے قریب ہو گا کہ کبھی کسی نے پولیس کے ادارے کو ریفارم کرنے کی جرأت ہی نہیں کی۔ پہلی بار عمران خان نے کے پی کے کی حکومت ملنے کے بعد پولیس ریفارم پر ہاتھ ڈالا۔ یہی ریفارم صوبہ پنجاب میں کرنے کی کوشش جاری ہے‘ لیکن 'سٹیٹس کو‘ کی مزاحمت ''سب پر بھاری‘‘ دکھائی دیتی ہے‘ جس کے کئی چلتے پھرتے جادو اثر ثبوت سوشل میڈیا سے پرنٹ میڈیا تک دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں رائے عامہ کے سیلف سٹائل ماہرین سب سے نمایاں ہوتے ہیں۔ جسے تھانے میں رسائی ملی وہ ایس ایچ او کا شیدائی ہو گیا۔ جس کو ڈی پی او‘ آر پی او یا آئی جی نے چائے پلا کر سیلفی بنوا دی وہ اسی کا فدائی بن گیا۔ ایسے ہی بے شمار جاں نثار پولیس کے محکمے میں ریفارمز کی مخالفت کر کے نمک کا حق یا پھر شوگر کا حق ادا کرتے پائے جاتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کا مافیا سب کے سامنے ہے۔ اس مافیا کا راج ہسپتال کے گیٹ سے شروع کر کے وارڈ میں ایڈمیشن تک ہر جگہ بے بس مریضوں کا استقبال کرتا ہے جس کی پُشت پر بڑے بڑے نام آتے ہیں۔ نظامِ انصاف میں اصلاح کے لیے آواز اُٹھانا کس قدر آسان ہے آپ اپنے دل سے پوچھ کر بتا دیں۔
معاشی مارا ماری کے اس ماحول میں کارٹل بنانے کا اعزاز ایک بینکر کو حاصل ہوا جس نے اپنی پی آر کے ذریعے پہلے پاکستان کے خزانے کی سب سے بڑی کرسی پر قبضہ جمایا‘ پھر معاشی اشاریے میں نیشنل اکانومی کی تاریخ میں (Fudged Figures) کی ٹیکنالوجی متعارف کروا دی۔ بعد ازاں 'سٹیٹس کو‘ کے ملٹی نیشنل فنکاروں نے اسے چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر جا بٹھایا۔ اس نے آتے ہی 1973ء کے آئین کے آرٹیکل نمبر3 کو اپنے پیروں تلے روند کر رکھ دیا۔ ہر طرف ریگولیٹری اتھارٹیز بنوا دیں‘ جن میں 'سٹیٹس کو‘ کے معمولی تنخواہ دار ملازم بٹھا دیے گئے اور ان تنخواہ داروں نے سیمنٹ کارٹل‘ سَریا کارٹل‘ شوگر کارٹل‘ سے شروع کر کے آلو کارٹل اور دھنیا کارٹل تک معیشت کے ہر شعبے کو سیٹھ کے گھر کی خدمت گار نوکرانی بنا کر چھوڑا۔ اس ساہوکار بینکر نے طریقۂ واردات یہ بنا دیا کہ ہر 45 یا 50 دن بعد کوئی ایک کارٹل اکٹھا ہو کر اس چیز کی قلت پیدا کرتا۔ قلت کا شور مچا کر اس کا ریٹ بڑھایا جاتا پھر فرلانگوں اور کلومیٹروں تک پھیلے ہوئے گوداموں میں سے ذخیرہ شُدہ مال ڈبل ٹرپل ریٹ پر مارکیٹ میں پہنچا دیا جاتا۔
اگلی بات ذرا غور سے سنئے گا اور وہ یہ کہ مارکیٹ اکانومی کی اسی کارٹیلائزیشن کی وجہ سے ٹماٹر کبھی ساڑھے 400 روپے فی کلوگرام میں بکتا ہے اور کبھی ٹکے ٹوکری بھی نہیں بک سکتا۔ اسی لیے مظلوم کسان اسے سڑک پر رکھ کر اس پر ٹریکٹر چلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لُوٹ مار کی اس بے رحم تاریخ کے خطرناک ترین موڑ پر 25 جولائی 2018ء کا دن آ گیا۔ آئیے ذرا سا پیچھے مُڑ کر دیکھتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی تبدیلی سرکار کو ابھی 2 سال بھی پورے نہیں ہوئے بلکہ ایک سال 10 ماہ اور 16 دن کی حکمرانی میں عمران خان نے 'سٹیٹس کو‘ کی ساری طاقتوں کے ساتھ جنگوں کے ڈھیر لگا کر رکھ دیئے ہیں۔ مثال کے طور پر سیاست اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے کارٹل اور مافیا خواہ وہ اپوزیشن میں ہوں‘ بیوروکریسی میں یا پالیسی سازی میںسب ٹوٹتے ہوئے 'سٹیٹس کو سے گھبرائے ہوئے ہیں۔ تین تازہ مثالیں ہی دیکھ لیں۔
پہلی مثال: ان میں سے پہلی مثال شوگر مافیا کی ہے جس کے خلاف ایکشن میں سارے بڑے روایتی سیاسی خاندانوں تک 'سٹیٹس کو‘ ٹوٹنے کی تپش پہنچی۔ وزیر اعظم کے لیے پوائنٹ بلینک دھمکی یہ تھی کہ پی ٹی آئی حکومت نہیں رہے گی۔ اس کے باوجود عمران خان صاحب نے قوم کو 'سٹیٹس کو‘ توڑ کر دکھا دیا۔
دوسری مثال: اس سلسلے کی دوسری مثال پٹرولیم مافیا کی ہے جس نے کارٹل بنا کر عوام کو پٹرو پرائسز کے اربوں روپے ریلیف سے محروم کر دیا۔ ایف آئی اے ایکشن میں ہے۔ ملٹی نیشنل یا مقامی منافع خور‘ دونوں قانون کے کٹہرے میں آئیں گے۔
تیسری مثال: بجلی کی قیمتوں میں مصنوعی ہائی گراف بنانے والوں کی ہے۔
ٹوٹتا ہوا 'سٹیٹس کو‘ روایتی سرپرستوں کے سہارے کھڑا نہیں رہ سکتا‘ کیونکہ عام آدمی 'سٹیٹس کو‘ توڑنے کے لیے بے تاب ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved