آوازیں اٹھنا ہی تھیں‘ کل تک کی جانے والی سرگوشیوں نے الفاظ کی شکل اختیار کر کے باہر آنا ہی تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سچ ابھی بند مٹھی میں ہی رہتا‘ لیکن ان الفاظ کو ہوا کے دوش پر اڑنے کی ہمت ان ہفتوں اور مہینوں نے دی اورجو لندن کی گلیوں اور سڑکوں پر آئے روزوائرل ہونے والی ویڈیوز کے ذریعے دیکھنے کو مل رہی ہیں ‘نیز وہ جو کل تک ایک دن اور ایک لمحے کی زندگی کی ضمانت مانگ رہے تھے ‘ جو وزیر اعظم عمران خان پر دباؤ ڈال رہے تھے‘ میڈیا ان کی صحت کے بارے میں بریکنگ نیوز چلا رہا تھا‘ جبکہ ان کے حمایتی تمام ڈاکٹرز اور وکلاء حضرات دہائیاں دے رہے تھے کہ ایک دن کا انتظار بھی ان کے مریض اور کلائنٹ کیلئے خطرناک ہو سکتا ہے اور کس قسم کی رپورٹ چاہیے‘ کس کا انتظار کیا جا رہا ہے ؟
بات یہاں تک چلی گئی کہ نواز شریف کو کچھ ہو جانے کی صورت میں وہ وزیر اعظم صاحب پر قتل کا مقدمہ درج کرانے کی دھمکیاں دینے لگے‘یعنی وہ جو گوئبلز کو مات دیتے ہوئے ان نتائج کی میڈیکل رپورٹس پریس کانفرنسوں کے ذریعے ہر سننے اوردیکھنے والے کو دیکھا رہے تھے‘ وہ جو انسانیت اور ہمدردی کی دہائیاں دیتے ہوئے نواز شریف کو کوئی وقت ضائع کئے بغیر لندن بھجوانے کی اپیلیں کر رہے تھے‘ وہ جو کبھی ان کی معمر والدہ صاحبہ تو کبھی ان کی بیٹی کی کی اپیلیں ٹی وی سکرین کی بریکنگ نیوز بنا کر پیش کر رہے تھے اور وہ جو وزیر اعظم صاحب سے منگل تک نواز شریف کی زندگی کی ضمانت مانگ رہے تھے‘ آج چھ ماہ کا عرصہ گزر نے اور انہیں لندن یا امریکہ کے کسی ہسپتال میں داخل ہوتا نہ دیکھ کر بجائے شرمندہ ہونے کے اپنی محفلوں میں بیٹھ کر حکومت کو بیوقوف بنانے پر قہقہے لگاتے ہوئے دیکھے جا رہے ہیں۔ میڈیا کے کچھ حصے جو مکمل ثبوتوں کے ساتھ اب پوچھنا شروع ہو گئے ہیں کہ لاہو رکے سروسز ہسپتال میں نواز شریف کے خون کے دئیے گئے‘ ٹیسٹ اگر اصلی نہیں تھے تو کس کے تھے؟ انہیں کس نے تیار کیا اور وزیر اعظم عمران خان کی پنجاب اور مرکزی حکومت نے اب تک اس جعل سازی اور غلط بیانی کی انکوائری کیوں نہیں کرائی؟ ایک نجی ٹی وی چینل نے چند روز ہوئے اپنے پروگرام میں بتایادیا ہے کہ میاں نواز شریف کے خون کا وہ ٹیسٹ جس کی بنیاد پر ان کے پلیٹ لیٹس کی رپورٹس تیار ہوتی رہیں‘ وہ سب جعلی تھیں۔اس میڈیا رپورٹ کے مطا بق‘ سروسز ہسپتال میں نواز شریف کے قیام کے دوران وہ ڈاکٹرز جو اپنے سرکاری فرائض کی ادائیگی کیلئے ان کے ساتھ متعین کئے گئے تھے‘ ان کا کہنا ہے کہ شریف فیملی نے ہمیں نواز شریف کے پلیٹ لیٹس کی رپورٹ کیلئے خون کے ٹیسٹ لینے کی اجا زت ہی نہیں دی تھی‘ بلکہ وہ جو رپورٹس بھی بناتے‘ اپنے ہی ڈاکٹروں سے یا ان کی بتائی گئی لیبارٹری سے تیارکر اتے تھے ‘ہمارا ان رپورٹس میں کسی قسم کا عمل دخل نہیں تھا۔
گو کہ یہ بات کچھ ناقابل یقین سی لگتی ہے ‘لیکن اس ملک میں سب کچھ چلتا ہے یہی وجہ ہے کہ اب میڈیا سے متعلق کچھ لوگوں کوخون کے ان مبینہ ٹیسٹوں کی تمام کہانی معلوم ہو چکی ہے‘ اس لئے وہ بلا خوف و تردد کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ پلیٹ لٹس صرف ڈراما تھا‘ جو شریف فیملی نے بڑی منصوبہ بندی اور مہارت سے کھیلا۔ اس طرح انہوں نے نا صرف حکومت اور عوام کو بیوقوف بنایا‘ بلکہ معزز عدلیہ کے ساتھ بھی Cheating کی ‘ جس نجی میڈیا چینل نے خون کے جعلی ٹیسٹ کا پوسٹ مارٹم کیا ہے‘ اس سے ایک تہلکہ سا مچ گیا ہے۔لوگ پوچھنا شروع ہو گئے ہیں کہ اس کھیل میں جو لوگ بھی شریک ہیں ‘ جس لیول پر بھی یہ جھوٹ پر مبنی ڈراما رچایا گیا‘ اس کے تمام کرداروں کو عوامی اور قانونی کٹہرے میں لا کر ان سب لوگوں کو بے نقاب کر نا چاہیے۔ اس بارے‘ اگر پنجاب یا مرکزی حکومت پس و پیش کرتی ہے تو اس کا بھی محاسبہ ہونا چاہیے ‘ورنہ سمجھا جائے گا کہ وہ اس جھوٹ کے ذمہ داروں کو بچا نا چاہتی ہے۔ اس رپورٹ کی تحقیق نہ کرنے پر وزیر صحت پنجاب کے کردار کو بھی سامنے لانا ہو گا‘کسی کو معافی نہیں ملنی چاہیے اور مکمل انکوائری ہونی چاہیے۔
بات تو صرف چند ماہ پرانی ہے‘ کوئی دہائیوں یا صدیوں کی بھی نہیں تو پھر وہ میڈیا اور اینکرز حضرات جو نواز شریف کی پلیٹ لیٹس پر اس وقت آسمان سر پر اٹھائے ہوئے تھے ‘جو چوبیس گھنٹے عوام کے اعصاب پر ہتھوڑے برساتے جا رہے تھے کہ پتا نہیں اگلے لمحے کیا ہو جائے اور یہاں تک ہو گیا کہ چوہدری شجاعت حسین‘وزیر اعظم کو نصیحتیں کرنا شروع ہو گئے کہ قتل کے مقدمے سے بچو اور انہیں جانے دو ۔ڈاکٹروں نے تو سنا ہے کہ معذوری ظاہر کر دی تھی کہ اب تو رپورٹس آ گئی ہیں کہ پلیٹ لیٹس دوہزا ر تک رہ گئے ہیں ۔( نہ کبھی ہوا‘ نہ کبھی سنا)حکومت کو چاہیے کہ ابھی کسی چارٹر طیارے سے نواز شریف کو فوری طور پر با ہر بھیج دیا جائے‘ ورنہ اگر انہیں یہاں پر کچھ ہو گیا تو ملک میں بہت خون خرابہ ہو سکتا ہے لاہو ر‘ گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں تباہی آ سکتی ہے۔میڈیا کے ان چند مخصوص گروپس نے قوم کے اعصاب کو شل کر کے رکھ دیا کہ ابھی نہ جانے کیا ہو جائے‘ کیونکہ وہ میاں صاحب کی صحت کے متعلق خد انخواستہ اس قسم کی تصویریں کھینچ رہے تھے کہ لگتا تھا ابھی کوئی بر ی خبر آ سکتی ہے۔ آج جب یہ ثابت کر دیا گیا ہے کہ یہ تمام رپورٹس اور خون کے ٹیسٹ جعلی تھے تو وہی میڈیا کے اینکرز کا مخصوص ٹولہ بجائے اس پر کوئی پروگرام کرنے کے اس چینل کو دھمکانا اور ڈرانا شروع ہو گئے ہیں کہ دیکھو تم اچھا نہیں کر رہے ‘اگر آپ کو پتا چل ہی گیا تھا تو بہتر تھا کہ خاموش رہ کر اپنا کچھ بھلا ہی کر الیتے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان اینکرز کا ٹولہ آزادیِ صحافت کی کتنے درجے کی گراوٹ پر فائز ہو چکا ہے ۔ ہمارے ملک کی سیا ست میں الزامات کا سلسلہ نہ جانے کب سے چلا آ رہا ہے اس لیے اب تو یہ صورت ِحال ہو چکی ہے کہ نہ جھوٹ پریقین ہوتا ہے اور نہ ہی سچ کو تسلیم کرنے کی ہمت ہوتی ہے کہ نہ جانے کل کو اندر سے کچھ اور نکل آئے‘ لیکن ایک پاکستانی کی حیثیت سے ایک حساس سوچ کا مالک ہونے کی بنا پر وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے اپیل کرنا چاہوں گا کہ اس سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرا دیں ‘یہ اس لیے نہیں کہ نواز شریف اس رپورٹ کو بنیادبنا کر باہر کیوں چلے گئے‘ بلکہ اس لئے کہ نواز شریف کی رپورٹس سے ملک کی معزز عدلیہ کو بھی گمراہ کیا گیا‘ انہیں میاں صاحب کو لاحق بیماری کا ایسا منظر پیش کیا گیا کہ ان کیلئے چند گھنٹے نکالنا بھی مشکل لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حکومتی وکیل نے جمعۃ المبارک کو مقدمے کی سماعت کے دوران سوموار کو وفاقی حکومت کی رپورٹ جمع کرانے کی بات کی تو معزز عدلیہ نے کہا کہ نہیں کل ہی سماعت ہو گی‘ کیونکہ میاں صاحب کی حالت اس رپورٹ کے مطا بق اس قدر خراب ہے کہ ان کی زندگی کی سوموار تک کی ضمانت ہی نہیں دی جا سکتی‘ ہاں! اگر حکومت لکھ کر دے دے کہ وہ سوموار تک زندہ رہیں گے تو سماعت ملتوی کی جا سکتی ہے؟
اب‘ بھلا اس دنیا میں کون سا انسان ہے ‘جو کسی کی زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے۔ یہ استحقاق تو صرف اور صرف رب کریم کو حاصل ہے ۔