پاکستان کے قبائلی علاقوں کی طرح بھارت کے وسیع قبائلی علاقے بھی تشدد کی زد میں ہیں؛ تاہم تشدد کی نوعیت مختلف ہے۔حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ تشدد کے معاملے میںان علاقوں نے جموں کشمیر اور شمالی مشرقی ریاستوں کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے، لیکن وہ اس صورت حال سے نمٹنے کے طریقہ کار کے لیے ابھی تک کوئی لائحہ عمل مرتب کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پچھلے ہفتے داخلی شورش کی تاریخ میں اپنی نوعیت کے سب سے بڑے حملے میں وسطی صوبہ چھتیس گڑھ کے قبائلی ضلع سکھما میں بائیں بازو کے انتہا پسندں نے صوبائی کانگریس کی لیڈرشپ کا صفایا کر دیا۔ حملے میں مقتدر کانگریسی لیڈر مہندر کرما کی بھی موت ہوگئی جو بائیں بازو کے انتہا پسندوں‘ جنہیں عرف عام میں نکسلائٹ کہتے ہیں‘ کے خلاف پرائیوٹ آرمی ’’سلواجدوم ‘‘ کے خالق تھے۔ریاستی کانگریس کے صدر نندکمار پٹیل، ان کے صاحبزادے سمیت پارٹی کے 28چوٹی کے ارکان اس حملے میں مارے گئے۔ چونکہ ریاست میں اس سال کے آخر تک انتخابات ہونے والے ہیں، کانگریس پارٹی کے لیڈرانتخابی مہم کے سلسلے میں ایک ریلی میں شامل ہونے کیلئے اس قبائلی علاقے کا دورہ کر رہے تھے۔ حیرت کی بات ہے کی مہندر کرما‘ جونکسالیوں کے نشانہ پر تھے او ر دہلی اور صوبائی دارالحکومت رائے پور میں بھی سکیورٹی کے انتہائی سخت حصار میں رہتے تھے‘ آخر اتنی آسانی سے کیسے ترنوالہ بن گئے۔جس طرح 1990ء کی دہائی میں کشمیر میں شورش سے نمٹنے کیلئے بھارتی سکیورٹی فورسز نے محمد یوسف عرف ککہ پرے کی قیادت میں اخوان المسلمون نامی پرائیویٹ آرمی کی حوصلہ افزائی کی، اسی طرح قبائلیوں کو نکسالی تحریک سے باز رکھنے اور ان علاقوں میں کان کنی میں مصروف کمپنیوں کی حفاظت کے لیے مرکزی اور چھتیس گڑھ حکومتوں نے سلواجدوم قائم کرنے میں مہندر کرما کی پشت پناہی کی۔ریاست میں ہندو قوم پرست بی جے پی حکومت کے قیام کے بعد بھی کرما پر نوازشوں کا سلسہ جاری رہا۔ کانگریس کے ایک اور قبائلی لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ اجیت جوگی ، کرما اور سلوا جدوم کے طریق کار کے سخت مخالفین میں سے تھے۔ کرما کی نجی آرمی نے جہاں نکسالی باغیوں میں یقینا دہشت پیدا کی اور وہ اس کے خون کے پیاسے بن گئے، وہاں عام قبائلی بھی سلواجدوم کی دست درازیوں سے محفوظ نہ رہ سکے۔ ککہ پرے کی اخوان المسلون کی طرح ایک طرف اگر سرکار کی پشت پناہی ہو اور دوسری طرف احتساب سے آزادی تو حیوان بنتے دیر نہیں لگتی۔ سلواجدوم نے قبائلی بستیوں میں دہشت کی ایسی فضا قائم کی کہ ان علاقوں سے لاکھوں افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔حکومت پر قبائلیوں کا یقین محکم ہونے کی بجائے وہ سرکاری اداروں سے مزید متنفر ہوگئے۔ آخر کار جولائی 2011ء میں سپریم کورٹ نے ایک رٹ پٹیشن کی سماعت کے بعد اس فورس کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے کر ان کو غیر مسلح کرنے کا حکم دیا۔ شدت پسند بائیں بازو کی جماعتوں کی مسلح تحریک جو نکسالی تحریک کے نام سے مشہور ہے میں‘ 2005ء سے اب تک 6071 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں 1500سے زائد سکیورٹی کے اہلکار شامل ہیں۔ گزشتہ برس 488 افراد اس تحریک کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ جنوری سے مئی 2013ء تک پانچ مہینوں میں 173 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اگر ان ہلاکتوں کا موازنہ کشمیر سے کیا جائے تو 2012ء اور 2013ء میں بالترتیب 117 اور 32 افراد پرتشدد واقعات میں ہلاک ہوئے۔ ان اعدادوشمار کے باوجود حکومت اور نہ ہی اپوزیشن نکسالی علاقوں میں بدنام زمانہ قوانین آرمڈ فورسز اسپیشل فورسز ایکٹ یا ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ کے نفاذ کا ارادہ رکھتی ہے۔ان ہلاکتوں اور تشدد کے باوجود وزیر دفاع اے کے انٹونی نے ان علاقوں میں فوج کی تعیناتی کو خارج کردیا۔ 1970ء کے اوائل میں بننے والی نکسالی تحریک نے آج دس ریاستوں آندھرا پردیش‘ کرناٹک‘ بہار‘ چھتیس گڑھ‘ جھاڑکھنڈ‘ مدھیہ پردیش‘ مہاراشٹر‘ اڑیسہ‘ اترپردیش اور مغربی بنگال کے کئی حصوں کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ سرکار کا کہنا ہے کہ نکسالی تنظیموں کے تانے بانے پڑوسی ریاست نیپال کی زیر زمین تنظیموںسے بھی ملے ہوئے ہیں اور یہ ایک Compact Revolutionary Zone قائم کرنا چاہتے ہیں جس کا دائرہ نیپال سے شروع ہوکر جنوبی بھارت کے آندھرا پردیش تک پھیلا ہوگا۔ دراصل ایک ارب کی آبادی والے ملک میں جمہوریت کی ’’برکات‘‘ صرف چند مخصوص طبقات تک محدود ہونے کے باعث بیشتر عوام آئینی اور بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ عوام کا بڑا طبقہ زمین اور آمدنی کی غیر متناسب تقسیم‘ذات پات پر مبنی تشدد‘ بھکمری‘ چھوت چھات‘ غربت اور افلاس سے دوچار ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں طاقت کے زور پر اپنا حق حاصل کرنے کے نکسالی فلسفے کو اپنانے والوںکی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ اس صورت حال سے ملٹی نیشنل کمپنیاں زبردست خطرہ محسوس کررہی ہیں۔ کئی برس قبل سابق امریکی سفیر ڈیوڈ سی ملفورڈ نے حکومت کو متنبہ کیا تھاکہ اگر جنوب اور وسطی بھارت میں نکسالی تشددکا سلسلہ جاری رہا تو ریاست آندھرا پردیش میں امریکی سرمایہ کاری متاثر ہوسکتی ہے۔ خیال رہے کہ اس ریاست کے دارالحکومت حیدرآباد میں ایک امریکی سافٹ ویر کمپنی سمیت متعدد امریکی کمپنیوں کے ہیڈکوارٹر ہیں۔جنوبی ایشیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سب سے بڑے مرکز اور بھارت کی ’’سلی کون ویلی‘‘ کے نام سے مشہور کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور کے اطراف میں بھی نکسالیوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ Research Institute of Conflict Management کے نہار نائک کا کہنا ہے کہ نکسالی تشدد کے معیشت پر تباہ کن اثرات پڑیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ نکسالیوں نے بالخصوص ایسے علاقوںمیں اپنی جڑیں گہری کرلی ہیں جہاں معدنیاتی وسائل‘ پن بجلی اور دیگر قدرتی وسائل کا زبردست ذخیرہ ہے۔ ماہرین اقتصادیات بھی امریکی سفیر کے خدشے کی تائید کرتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ اگر نکسالی تشدد کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو غیرملکی راست سرمایہ کاری کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہوجائے گا۔ خیال رہے کہ غیرملکی سرمایہ کاری کے لحاظ سے جنوبی ریاست تامل ناڈو سرفہرست ہے ۔ا س کے بعد کرناٹک کا نمبر آتا ہے اور یہ دونوں ریاستیں نکسالیوں کے نشانے پر ہیں۔ حقوق انسانی کے لئے سرگرم تنظیم پیپلز یونین فار سول لبرٹیز (PUCL) کا کہنا ہے کہ جب تک سماجی عدم مساوات کا خاتمہ نہیں ہوگا نکسالی تحریک کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا رہے گا۔ پی یو سی ایل کا کہنا ہے کہ عدم تحفظ کا احساس بھی لوگوں کو بائیں بازو کی انتہا پسند تنظیموں میں شامل ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔پولیس کے ایک سابق اعلیٰ افسر ایس سبرامنیم کا بھی خیال ہے کہ اس مسئلہ کو دو سطحوں پر کام کرکے حل کیا جاسکتا ہے ۔ اوّل یہ کہ سماجی اور اقتصادی عدم مساوات کو ختم کیا جائے اور دوئم یہ کہ نکسالیوں سے نمٹنے کے لئے جدید ترین اور پیشہ ورانہ طریقے اپنائے جائیں۔ مسٹر سبرامنیم کا کہنا ہے کہ دیہاتوں میں غریب عوام کو پولیس کی زیادتیوں سے بھی بچانے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے لئے پولیس اور دیگر سرکاری اہلکاروںکو خصوصی تربیت دینے کی ضرورت ہے جس سے وہ دیہاتوں میں بسنے والوںکو اپنی طرح کا ہی انسان سمجھیںاور ان کے ساتھ انسانیت سے پیش آئیں۔ان کا کہنا ہے کہ جب سکیورٹی کے دستے ان علاقوں میں غریب قبائلیوں کو نشانہ بناتے ہیں توحکومت، اپوزیشن اور قومی میڈیا چپ سادھ لیتے ہیں جس سے ان قبائلیوں میں عدم تحفظ کا احساس شدت اختیار کر جاتا ہے۔ یہ جان لینا چاہئے کہ یہ قبائلی بھی اسی ملک کے شہری ہیں جنہیں برابر کے حقوق دینے ہونگے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved