پاکستانی سیاح کو ہندوستان میں دو مسئلوں کا مسلسل سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اور اگر اس کے کوئی رشتے دار کسی شہر میں نہ ہوں تو یہ مسئلہ مزید گمبھیر ہوجاتا ہے ۔ پہلا تو یہ کہ جیسے ہی اس کی پاکستانی شناخت نمایاں ہوتی ہے ،لوگ اس سے محتاط گفتگو شروع کردیتے ہیں ۔ سرکاری دفتروں میں ، مثلاً سی آئی ڈی رپورٹس کے لیے جانا ہوجو بعض صورتوں میں لازمی ہے ، تو نہایت تکلیف دہ سلوک ہوتا ہے ۔مجھے بھی کچھ بار اس سے گزرنا پڑا۔اس لیے پولیس رپورٹ سے مستثنا ویزا جب بھی ملا،سکھ کا سانس لیا ۔ماحول دونوں ملکوں میں ایسا بن گیا ہے کہ ہر شخص پر کسی جاسوسی ایجنسی کے آلہ ٔ کار کا شبہ کیا جاتاہے ۔یہ مسئلہ بتدریج ہر سال بڑھتا گیا ہے ۔دوسرا مسئلہ کھانے کا ہے ۔سبزیوں کی تو خیر ہے لیکن گوشت حلال بھی اور اچھا کھانا بھی کہاں سے ملے؟جو ریسٹورنٹس مسلمان علاقوں میں ہیں وہ عام طور پر معمولی سے ہیں اور بیٹھنے کی مناسب سہولتیں نہیں ہیں ۔ اور اچھے صاف ستھرے ریسٹورنٹس میں جائیں تو وہاں حلال کا کوئی پتہ نہیں ۔ دلی ،لکھنو،وغیرہ جیسے بڑے شہروں میں تو یہ مسئلہ کم ہے لیکن اگر آپ ان شہروں کا سفر کر رہے ہیں جہاں مسلمان تعداد میں بہت کم ہیں ،جیسے جے پور یا راجستھان کے مختلف بڑے شہر ، تو یہ مسئلہ سوہان روح بن جاتا ہے ۔اس طرح کی دربدری اور بھوک کا ذائقہ بھی مجھے کئی بار چکھنا پڑا۔
دلی میں میرے کافی عزیز ہیں ‘جن میں میری سگی خالہ زاد بہن شاہین باجی کا گھرانہ بھی ہے جہاں ہمیشہ ٹھہرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح خدیجہ اور بریرہ میری رشتے کی دوبھانجیاں ہیں جو ذاکر نگر اور چاندنی چوک کے علاقوں میں رہتی ہیں ‘لیکن دلّی سے میرا ایک تعلق کاروباری حوالے سے بھی ہے۔ہم پاکستان کے گنے چنے‘ بلکہ ایک زمانے میں تنہا‘ ایکسپورٹر ہیں جو کم و بیش بیس پچیس سال تک انڈیا کو پاکستانی کتب ایکسپورٹ کرتے رہے ہیں۔ 1990 کے کچھ بعد سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور لمبے عرصے قائم رہا۔ اس زمانے میں ہندوستان میں پاکستانی کتب نہیں ملتی تھیں بلکہ ہندوستان کے بعض ادارے اسی شناخت پر مستحکم ہوئے کہ ہمارے یہاں سے وہ کتابیں درآمد کیا کرتے تھے۔ دلّی اور دیگر شہروں کے کئی ناشرین اور درآمد کنندگان سے میرا بہت رابطہ رہا۔ وہاں کے لوگ ہماری طرح کاروباری معاملات میں اچھے، برے، درمیانے ہر طرح کے ہیں‘ لیکن قابل تعریف بات یہ ہے کہ وہ کم منافع پر کام کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں اور عام دکاندارکا رہن سہن سادہ ہے۔ یہ مزاج کراچی کی دہلی برادری اور میمن برادریوں میں بھی ہے جبکہ لاہور اورپنجاب کے کئی دیگر شہروں کاعمومی رجحان زیادہ منافع رکھنا اور نمائش پسندی ہے؛ اگرچہ ان میں بھی ہر طرح کی مثالیں موجود ہیں۔
دریا گنج، دہلی کے ایک پبلشر ہم سے کتابیں امپورٹ کرتے تھے۔ ایک بار میں دہلی گیا تو انہوں نے دوپہر کے کھانے کی دعوت دی۔ کھانا ان کے دفتر میں تھا جس کا راستہ ان کے گودام سے ہوکر گزرتا تھا۔ میں گودام سے گزرا تو دیکھا کہ پروین شاکر کی خوشبو، فراز صاحب کے شعری مجموعے اور فیض کے نسخہ ہائے وفا کی بہت سی ڈھیریاں لگی ہوئی ہیں۔ ایک ایک کتاب ہزاروں کی تعداد میں تھی۔ میں نے ناشر سے کہا کہ میرے پاکستان کے شعرا اور ادیبوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ آپ اور کئی دوسرے ہندوستانی ناشر بھی یہ کتابیں چھاپ رہے ہیں۔ آپ چاہیں تو میں ان مصنفین اور ان کے وارثوں سے مناسب بلکہ معمولی رقم کے عوض باقاعدہ اجازت دلوا دیتا ہوں۔ آپ کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہندوستان میں تنہا آپ یہ کتابیں قانونی طریقے سے چھاپ سکیں گے۔ میرا مقصد یہ تھا کہ پاکستانی مصنفین کو کچھ نہ کچھ رقم ملے، چاہے وہ کم ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اس وقت تو ایک ٹکہ بھی نہیں مل رہا۔ پبلشر نے کہا کہ میں آپ کو کل سوچ کر جواب دوں گا۔ اگلے دن اس نے کہا کہ میری دلچسپی نہیں کیونکہ میں کم از کم رقم بھی مصنف کو دوں تب بھی کچھ دینا تو پڑے گا جبکہ اس وقت میرا کام مفت میں ہورہا ہے‘ اور میں قانونی اجازت لے بھی لوں گا تو کوئی یہاں میرے کہنے سے رکے گا نہیں‘ یہاں کوئی کاپی رائٹ کی پروا نہیں کرتا۔ اور یہ دوسری بات درست تھی۔ ہمارے ہاں بھی حال بہت خراب ہے لیکن کم از کم کتابوں کے معاملے میں جیسا لاوارث کاپی رائٹ قانون میں نے ہندوستان میں دیکھا، کہیں اور یاد نہیں۔ کوئی بھی شخص کسی کی بھی کتاب چھاپ لے یا قانون کی کوئی اور خلاف ورزی کرلے‘ آپ کچھ نہیں کرسکتے‘ نہ پولیس اس میں کوئی دلچسپی لیتی ہے؛ البتہ گانوں، فلموں اور شوبز کے معاملات کی بات الگ ہے۔
ہندوستان پاکستان کی ایکسپورٹ یا امپورٹ میں کم از کم چار اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ بینک درمیان میں لازماً ہوتے تھے‘ یعنی ہمارا بینک، سٹیٹ بینک آف پاکستان، متعلقہ ہندوستانی خریدار کا بینک، سٹیٹ بینک آف انڈیا۔ اس میں بسا اوقات رقم ملنے میں بہت دیر ہو جاتی ہے لیکن دوبار تو حد ہوگئی۔ یہ رقم خریداروں نے فوراً ادا کردی تھی لیکن راستے میں سٹیٹ بینک آف انڈیا میں پھنس گئیں۔ ہمارا بینک مسلسل یاد دہانی کراتا رہا لیکن بے سود۔ اعتراض بھی کوئی نہیں تھا۔ ایک رقم شاید دو سال بعد بڑی مشکل سے ملی اور دوسری تقریباً چار سال بعد اس وقت جب ہم اس سے مایوس ہو چکے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر تنگ کیا گیا تھا۔
ایک مزے کا واقعہ یاد آیا۔ پہاڑ گنج، دہلی کے ایک انگریزی پبلشر نے مجھے دوپہر کے کھانے پر کریم ہوٹل میں مدعو کیا۔ کریم ہوٹل کا تعارف میں پہلے کراچکا ہوں۔ میزبان، ایک اور صاحب اور میں، تین لوگ ہوٹل کے اندر ہال میں بیٹھ گئے۔ کھلاہال کچھ اس طرح کا تھا کہ اس کے اوپر بھی ہوٹل کی منزلیں تھیں۔ ہر منزل پر چوڑی بالکونیاں تھیں جن میں گاہکوں کے لیے میزیں لگی تھیں۔ دوپہر کا رش تھا۔ بیرے کھانے کی ٹرے لے کر ان بالکونیوں میں آجا رہے تھے اور گاہکوں کو کھانا سرو کر رہے تھے۔ میزبان نے آرڈر دیا اور ہم اب کھانے کے انتظار میں بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔ اچانک ایک زوردار دھماکے کے ساتھ کھانے کی ایک ٹرے ہماری میز پرآ گری۔ پانی کا جگ اور گلاس ٹوٹ گئے اورایک ہی لمحے میں ہم سب کے کپڑے، ہاتھ اور چہرے کھانے، پانی اور روغن میں لتھڑ گئے۔ اس گلکاری سے میزبان کے کپڑے سب سے زیادہ رنگین ہوئے تھے؛ تاہم کہیں کہیں سے اس کی قمیص کا اصل رنگ بھی جھانک رہا تھا۔ ہم نے اس ناگہانی سے گھب را کر اوپر دیکھا تو جس بیرے کا یہ کارنامہ تھا وہ تیسری بالائی بالکونی سے جھانک کر اپنی پھسلی ہوئی ٹرے کے نتائج ملاحظہ کر رہا تھا۔ شکر کی بات یہ کہ ٹرے ہمارے سر پر نہیں گری تھی ورنہ۔ ذہین لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ ورنہ کیا۔ دھماکے کی آواز سن کر ہوٹل کا مالک بھی آگیا تھا اور تیزی سے صورتحال کا اندازہ لگانے میں مصروف تھا۔ حالت ہماری بھی خراب تھی لیکن میزبان توحیرت اور صدمے سے زیادہ قورمے میں غرق تھا۔ اس نے ہم سے معذرت کی لیکن ظاہر ہے اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اب اصل مسئلہ نہ مجرم کو پکڑنا تھا، نہ کھانا۔ اصل مسئلہ تھا خود کو باعزت حالت میں واپس لانا۔ خوش قسمتی سے میرا ہوٹل قریب تھا اس لیے میں تو ایک گھنٹے بعد دوبارہ یہیں ملنے کی اجازت لے کر نکل گیا۔ باقی دو معزز حضرات نے پہاڑ گنج کا رُخ کیا۔ ایک گھنٹے بعد جب ہم دوبارہ ہوٹل کے سامنے جمع ہوئے تو پہلے تو ایک دوسرے کو دیکھ کر خوب ہنسے۔ پھر ہوٹل کے مالک سے ملے جو پہلے ہی شرمندہ بیٹھا تھا۔ اس نے مجرم بیرے کو بلوا رکھا تھا اور اس کی مزید سُبکی کے لیے اسے اکڑوں بٹھایا ہوا تھا۔ جو ہونا تھا وہ ہوچکا تھا۔ اللہ نے جانیں بچا لی تھیں۔ میزبان کا اور ہمارا جو نقصان ہوا سو ہوا، فائدہ یہ ہوا کہ ہوٹل والے نے ہمارے میزبان سے کھانے کا بل نہیں لیا۔ لیکن یہ واقعہ ہمیشہ کے لیے ذہن نشین ہوگیا۔ اس لیے اے خوش خوراک قارئین! آپ کریم ہوٹل میں جب بھی بیٹھیں سب سے اوپر کی بالکنی میں بیٹھیں‘ لیکن اگر مفت کھانے کا ارادہ ہو تو ہال ہی سب سے بہتر ہے۔