جو مرضی کر لیں، چینی پر اب لوٹ
مار نہیں ہونے دیں گے: شہباز گل
وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ ''جو مرضی کر لیں، چینی پر اب لوٹ مار نہیں ہونے دیں گے‘‘ کیونکہ یہ کافی ہو چکی ہے، اس لیے اب دوسری اجناس پر طبع آزمائی کی جائے کیونکہ چینی پر لوٹ مار تسلی بخش طور پر ہو چکی ہے اس لیے اس کاروبار میں کچھ ورائٹی بھی ہونی چاہیے کیونکہ ایک ہی کام کی تکرار میں کچھ مزہ نہیں آتا اور آدمی اُکتا جاتا ہے ؛چنانچہ ان حضرات کی سہولت کے لیے حکومت ان اشیا کی فہرست بہت جلد جاری کر رہی ہے جن پر اب لوٹ مار کی جا سکتی ہے، اگرچہ یہ حضرات خود بھی کافی عقلمند واقع ہوئے ہیں اور اچھی طرح سے جانتے ہوں گے کہ چینی کے علاوہ کس کس چیز پر لوٹ مار کی جا سکتی ہے، نیز اس سے حکومت کو بھی سہولت رہے گی جبکہ اسے سہولت کاری بھی کہا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
احتساب ادارے نے کھنگال لیا، ہماری
ایک پائی کی کرپشن نہیں: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف حمزہ شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''احتساب ادارے نے کھنگال لیا، ہماری ایک پائی کی کرپشن نہیں‘‘ جبکہ والد صاحب نے جو کرپشن نہیں کی تھی وہ ایک دھیلے کی کرپشن تھی؛ چنانچہ میں نے منہ کا مزہ بدلنے کے لیے ایک پائی کی کرپشن نہیں کی اور یہ بھی اس لیے کہ اگر کرتے بھی تو ان دھیلوں اور پائیوں کو کہاں کہاں لیے پھرتے، نیز یہ جواب بھی ملنا تھا کہ یہ تو سکہ رائج الوقت ہی نہیں ہے بلکہ اگر پیسوں کی کرپشن نہ کرتے تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوتا کہ پیسہ بھی اب کافی عرصے سے سکہ رائج الوقت نہیں رہا ہے اور یہی عالم ٹکوں، اکیّوں اور دونیّوں وغیرہ کا ہوتا، اس لیے ہم نے سوچا کہ اگر کرپشن کرنی ہی نہیں ہے تو روپوں اور ڈالروں میں نہ کی جاتی۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اپوزیشن اپنی سیاست کیلئے عوام کی زندگیوں سے نہ کھیلے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن اپنی سیاست کے لیے عوام کی زندگیوں سے نہ کھیلے‘‘ کیونکہ عوام کی زندگیوں سے کھیلنے کے لیے اگر دیگر متعدد ذرائع اور موضوعات موجود ہیں تو سیاست جیسی مقدس چیز کو اس کے لیے کیوں استعمال کیا جائے جو کہ بجائے خود ایک عبادت ہے اور دونوں بڑی پارٹیاں اسے عبادت کے طور پر ادا کرتی رہی ہیں، جبکہ کئی ہمارے معززین بھی اس عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور ہم نے کبھی زیادہ اعتراض نہیں کیا، کیونکہ عبادت کرنا ہر شخص کا بنیادی جمہوری حق ہے اور جمہوریت کے اس سنہری زمانے میں اس پر قدغن لگانے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
''غزل‘‘
یہ ہمارے دوست جمیل یوسف کا مجموعہ کلام ہے جسے کتاب ورثہ لاہور نے چھاپا ہے، صفحات 480۔ تحسینی رائے دینے والوں میں وزیر آغا، مشفق خواجہ، پروفیسر فتح محمد ملک، پروفیسر خورشید رضوی، پروفیسر توصیف تبسم، ڈاکٹر ممتاز حسن اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق شامل ہیں۔ آپ ایک کہنہ مشق شاعر ہیں جنہوں نے اپنی شاعری سے ایک خوشگوار فضا قائم کر رکھی ہے اور اپنے نظریات سے اِدھر اُدھر نہیں ہوئے، نمونۂ کلام:
جب راہِ طلب میں لڑکھڑائوں
بن جاتا ہے میرا آسرا کون
اے حُسن تجھے بھی کچھ خبر ہے
تجھ میں ہے یہ چھُپا ہوا کون
یہ فصلِ بہار کیسی آئی
آ کر ٹھہرا یہ قافلہ کون
یہ آبِ رواں یہ چاندنی شب
یہ پھُول یہاں کھلا گیا کون
......
اور، اب آخر میں یہ تازہ غزل:
جو گزرتے نہیں لمحات کی ایسی تیسی
خود بدل جائیں گے، حالات کی ایسی تیسی
دھوم دھام آپ کی ان میں نہیں موجود تو پھر
ایسے خواب اور خیالات کی ایسی تیسی
آپ کے ساتھ محبت ہے سو کافی ہے بہت
آپ کے ساتھ ملاقات کی ایسی تیسی
آپ کی اب تو اجازت سے دھڑکتا ہے یہ دل
دیکھ لیں گے اِسے، بدذات کی ایسی تیسی
آپ کے پاس جواب اِن کا نہیں ہے تو مرے
سارے کے سارے سوالات کی ایسی تیسی
آپ اوروں کے مسائل پہ توجہ رکھیں
میری اور میری شکایات کی ایسی تیسی
داغِ دامن سے مرے ہے یہ اندھیرا روشن
رات کیا بیچتی ہے، رات کی ایسی تیسی
بھات کھانے کو تو پتھر نہیں سر پھوڑنے کو
اِن نباتات و جمادات کی ایسی تیسی
اب ملیں گے بھی تو اک فاصلہ رکھیں گے، ظفرؔ
رہے جذبات تو جذبات کی ایسی تیسی
آج کا مطلع
ہوا تھی اور گرہ در گرہ خیال اُس کے
بکھر رہے تھے کہیں نرم و خشک بال اُس کے