’آپ صاب سچ بول رہے ہو؟‘ نوجوان نے غیریقینی انداز میں سرکاری افسر سے پوچھا تو اس نے محض اثبات میں سر ہلا دیا۔ نوجوان اپنا جواب پا کر کھل اٹھا اور اسی کمرے میں رقص کرنے لگا ۔ پھر رقص چھوڑ کر افسر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ’اب آپ صاب دیکھنا میں وزیر خارجہ کی کرسی تک دوڑ لگادوں گا‘۔ سرکاری افسر اس نوجوان کی اولوالعزمی دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ابھی اقوام متحدہ میں جانے والے ایک وفد میں اس نوجوان کا نام آیا ہے اور اس نے وزیر خارجہ بننے کا دعویٰ بھی کردیا ہے، لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ نوجوان ذوالفقار علی بھٹو میں اقتدار کی خواہش اتنی شدید ہے کہ وہ اس کے لیے کچھ بھی کرگزرے گا۔ یہ افسر تھے قدرت اللہ شہاب اور انہیں اس وقت کے صدر سکندر مرزا کی طرف سے حکم دیا گیا تھا کہ ’زلفی ‘ کا نام اس وفد میں شامل کیا جائے۔ سکندر مرزا تک پہنچنے میں ’زلفی‘ کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے‘ یہ ایک الگ کہانی ہے۔ حالات بدلے اور بہت تیزی سے بدلے۔ سکندر مرزا کی جگہ جنرل ایوب خان نے لے کر پاکستان میں محدود جمہوریت کے اصول پر ایک ایسا دستور نافذ کرنے کی کوشش کی جو اپنی تشکیل، نفاذ اور تسلسل کے لیے جنرل ایوب خان کا محتاج تھا۔ ایک آمرانہ طرز حکومت کو دستوری ڈھانچہ اور فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنے میں ذوالفقار علی بھٹو کے ذہنِ رسا کا کردار غیر معمولی تھا۔ بھٹو نے ایوب خان کو باور کرایا کہ رائے عامہ پاکستان جیسے ملکوں میں بے معنی چیز ہے، اصل بات ’قیادت‘ کی ہے جو آپ فراہم کررہے ہیں۔ بھٹواور جنرل ایوب کی اس نظریاتی مماثلت نے انہیں آخرکار وزیر خارجہ کے عہدے تک بھی پہنچا دیا لیکن اپنی چند غلطیوں کی سزاکے طور پر جب انہیں برطرف کیا گیا تو ان کی مایوسی کا عالم دیدنی تھا۔ یہ تو اچانک لاہور ریلوے اسٹیشن پر ان کے شاندار استقبال نے انہیں سُجھایا کہ اقتدار کا اصل راستہ عوام کے درمیان سے ہو کر گزرتا ہے۔ شاید یہی وہ موقع تھا کہ جب آمریت کے پروردہ بھٹو نے ایک نیا جنم لیا اور پھر وہ عوام کی حکومت کا استعارہ بن گئے۔ بھٹو کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ موجودہ پاکستان کے پہلے رہنما بنے جنہیں بے پناہ عوامی حمایت حاصل تھی۔ اقتدار میں آکرانہوں نے جو کچھ کیا اس سے اختلاف بھی ممکن ہے اور اتفاق بھی لیکن یہ طے ہے کہ پاکستان کے دفاعی اور خارجی امور کے لیے جو نظریات بھٹو نے پیش کیے ان کے بعد آنے والے بھی ان سے انحراف نہیں کرسکے۔ 1977ء کا الیکشن عوام کی بالادستی کا دوسرا مرحلہ تھا جس میں پُرامن انتقال اقتدار کی بنیاد رکھی جانی تھی۔ اس جان لیوا مرحلے سے ملک کو نکال لے جانا ہی جمہوری قوتوں کی اصل کامیابی تھی۔ لیکن افسوس کہ عوام کی حاکمیت کاخواب پھانسی کا پھندا بن کر بھٹو کے گلے میں پڑ گیا اور یوں ایک بار پھر ایسی سیاہ رات کا آغاز ہوا جس کا دیباچہ انہوں نے کبھی اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔ ملک ایک بار پھر وہیں جا کھڑا ہوا جہاں سے سفر شروع ہوا تھا۔قدرت اللہ شہاب کے کمرے میں رقص سے شروع ہونے والی یہ کہانی رقصِ بسمل پر ختم ہوگئی۔ دوسری کہانی کا آغاز 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کی گیلری میں ہوا۔ ایک سینیٹر گیلری میں بیٹھ کر اسمبلی کی حلف برداری کی تقریب دیکھ رہے تھے کہ اچانک ان کی نظر کچھ فاصلے پر بیٹھے ایک نوجوان پر پڑی جو اس اسمبلی کا رُکن منتخب ہو ا تھا لیکن حلف اٹھانے کی بجائے گیلری میں بیٹھا تقریب کا نظارہ کررہا تھا۔ سینیٹر صاحب حیران ہو کر اس کی جانب گئے اور اس سے پوچھا ’آپ حلف کیوں نہیں اٹھا رہے؟‘ سوال سن کربھی اس نوجوان نے کوئی جواب نہ دیا تو سینیٹر صاحب نے کہا ’او ہو، کہیں آپ پنجاب کی وزارت اعلیٰ تو نہیں سنبھالنے والے؟‘ یہ سوال سن کر اس نوجوان نے سینیٹر کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں اور چہرے کا یہ تاثر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سینیٹر کے ذہن پر نقش ہوگیا۔ کچھ دن بعد ہی سینیٹر کی بات درست نکلی اور وہ خاموش نوجوان پنجاب کا وزیراعلیٰ منتخب کرلیا گیا۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ سوال کے جواب میں خاموش رہنے والے کا نام نواز شریف ہے اور جس سینیٹر کا ذکر ہورہا ہے وہ سرتاج عزیز ہیں۔ سرتاج عزیز بتاتے ہیں کہ اس وقت نواز شریف کو یہ معلوم تھا کہ وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننے والے ہیں لیکن ابھی تک اس دور کے شاطروں نے انہیں حتمی فیصلہ نہیں سنایا تھا ،اس لیے انہوں نے کچھ کہنے کی بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف بیس سال کے فرق سے بھٹو کی نفرت کی بنیاد پر بنائے گئے اس نظام حکومت میں نواز شریف بالکل اسی جگہ کھڑے تھے جہاں ساٹھ کی دہائی کے آغاز میں خود ذوالفقار علی بھٹو تھے۔تاریخ خود کو لمحہ بہ لمحہ دہرا رہی تھی لیکن میں جس لمحے کا ذکر کررہا ہوں وہ یکم نومبر 1990ء کو آیا۔ یکم نومبر کی صبح سرتاج عزیز کو نواز شریف نے فون کیا کہ وہ مری سے لاہور جاتے ہوئے ان کے پاس اسلام آباد میں رکنا چاہتے ہیں۔ سرتاج عزیز نے خوش آمدید کہا اور دو گھنٹے بعد میاں صاحب ان کے گھر پہنچ گئے۔اس وقت سیاسی صورتحال یہ تھی کہ ایک ہفتہ پہلے میاں نواز شریف اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ کی حیثیت سے قومی اسمبلی کی 106نشستیں جیت چکے تھے اور وزارت عظمیٰ کے امیدوار تھے۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میاں نواز شریف نے سرتاج عزیز سے کہا کہ ’میں نے افواہیں سنی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ غلام مصطفی جتوئی کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتی ہے تاکہ ان سے اپنی ہر بات منوائی جاسکے‘ لیکن یہ کیوں نظر انداز کیا جارہا ہے کہ قومی اسمبلی میں اکثریت میرے ساتھ ہے؟‘ یہ سوال اٹھا کر نواز شریف نے کچھ توقف کیا اور پھر کہا ’ اب وقت آگیا ہے کہ ہم آہستہ آہستہ ان پوشیدہ قوتوں کو سیاسی میدان سے باہر نکالنے کی کوشش شروع کردیں جو اعلیٰ ترین منصب داروں کے تابع ہونے کی بجائے ان عہدوں پر کمزور لوگوں کو لانا چاہتی ہیں‘۔ یہ گفتگو سرتاج عزیز نے اگلے ہی دن صدر غلام اسحٰق خان کے گوش گزار کردی اوراس کے چارد ن بعد نواز شریف نے بطور وزیر اعظم حلف اٹھا لیا۔اس کے بعد نواز شریف بساط کی اسی طرف آگئے جہاں کبھی ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ بھٹو نے جن معاملات میں نظریاتی جہتیں استوار کیں نواز شریف نے ان میں عملی تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں کرکے نئی منزلوں کا تعین کردیا۔ جمہوریت کے راستے کا اہم ترین سنگ میل الیکشن کے ذریعے انتقال اقتدار ہے اور یہ اتنا سخت مقام ہے کہ یہیں پر بھٹو کی نبضیں ڈوبیں، یہیں بے نظیر بھٹو جان ہار گئیں اور یہیں سے نوازشریف کی جلاوطنی کی راہ نکلی۔ اسی مرحلے کو سر کرنے کے لیے میثاق جمہوریت کا وہ پُل تعمیر ہوا جو غیرجمہوری قوتوں کے بنائے ہوئے دوزخ کے اوپر سے گزر جاتا ہے۔سیاست کی مومی تختی پر لکھے اس معاہدے کو حالات کی حدت سے بچائے رکھنے کا اصل کام نواز شریف اور آصف علی زرداری نے کیا۔ان دونوں نے بغیر کوئی شور مچائے دستور بھی بحال کردیا، ایک دستور شکن کو انجام کی طرف بھی دھکیل دیا اور آخر کار الیکشن کے ذریعے انتقال اقتدار کا جان لیوا مرحلہ بھی طے کرلیا۔یہ انہی دونوں کا اعزاز ہے کہ اس الیکشن کے بعد ہماری سیاسی تاریخ جو 5 جولائی 1977ء پر رکی ہوئی تھی آخر کار آگے کی طرف چل پڑی ہے۔ عجب بات ہے‘ ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام شروع کیا لیکن ایٹمی دھماکہ نواز شریف نے کیا، عوام کی حاکمیت کا خواب پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو نے دیکھا لیکن اس کی تعبیر نواز شریف کی تیسری بار وزارت عظمیٰ کی شکل میں سامنے آئی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved