بعض لوگ ایک روایت بیان کرکے یہ حتمی رائے دیتے رہے ہیں کہ 12مئی کو جب ثریا ستارہ طلوع ہوگا تو کوروناوائرس کی وبا ختم ہوجائے گی۔ ہم پہلے بھی ایک کالم'' تعبیرات ومصادیق ‘‘کے عنوان سے لکھ چکے ہیں کہ آثارِ قیامت کے حوالے سے جو روایات کتبِ احادیث میں موجود ہیں ‘اُن کو مِن وعَن بیان کردیا جائے ‘ اُن کے مصداق کا تعیُّن نہ کیا جائے ‘ جن باتوں کو رسول اللہ ﷺنے متعیّن نہیں فرمایا اور مبہم چھوڑا ہے ‘ اُنہیں ویسے ہی رہنے دیا جائے‘ کسی کو نہیں معلوم کہ مستقبل کے پردے میں کیا مستور ہے اور ان روایات کے حقیقی مصداق کا ظہور کب ہوگا۔ شام میں جب حکومت کے خلاف اندرونی بغاوت کی تحریک چل رہی تھی ‘ تو کئی حضرات آئے دن لکھتے کہ حلب کا معرکہ آخری معرکہ ہوگا‘ ادلب کا معرکہ آخری معرکہ ہوگا اور وہ کسی نہ کسی روایت کا سہارا لیتے ‘ لیکن ایسا نہ ہوا ۔پس جب لوگ اپنی خواہشات کے تحت یا کم علمی کے سبب احادیث وروایات کی تعبیرات اور مصداق کا تعیُّن کریں گے اور وقت آنے پر ایسا نہ ہو تو لوگ دین کے بارے میں شکوک وشبہات میں مبتلا ہوں گے ۔ ایسی تعبیریں بیان کرنے والے کی نیت درست ہوسکتی ہے ‘ لیکن بعض اوقات یہ باتیں بیک فائر ثابت ہوتی ہیں ‘ یعنی ان روایات کو بیان کرنے والا تونیک نیتی سے ایسا کرتا ہے کہ لوگ متنبہ ہوجائیں ‘ اللہ کی طرف رجوع کریں ‘ دین کی طرف پلٹ آئیں ‘ لیکن بعض اوقات ان کا نتیجہ الٹ نکل سکتا ہے کہ لوگ دین کی تعلیمات اور احادیثِ مبارکہ کی صحت کے بارے میں شکوک وشبہات میں مبتلا ہوجاتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ بعض کالم نگاروں نے ان باتوں پر طنز بھی کیا ہے ‘سو ہم پہلے اُن میں سے بعض روایات کو بیان کریں گے اور پھر اُن پر گفتگو کریں گے :
رسول اللہﷺنے فرمایا:(1)''جب صبح کے وقت نجم یعنی ثریا ستارہ نکلے گا تو وبا دور ہوجائے گی‘(مسند احمد:8495)‘‘‘ (2)''جب نجم یعنی ثریا ستارہ طلوع ہوگا تو ہر ملک سے بیماری ختم ہوجائے گی‘(الآثار للإمام ابی یوسف:917)‘‘۔پس جب ہم اس روایت کو مقید پر محمول کریں گے تو اس سے پھلوں اور فصلوں کو لاحق ہونے والی آفت مراد ہوگی‘(3):'' جب ثریا ستارہ طلوع ہوگا ‘ تو اس وقت زمین کی ہر آفت اٹھ جائے گی‘(تاریخ جرجان‘ ج:1‘ص:292)‘‘‘(4):''جب ثریا صبح کے وقت طلوع ہو اور قوم کسی آفت میں مبتلا ہو تو وہ آفت اٹھ جاتی ہے یا اس میں تخفیف ہوتی ہے ‘ (اَلتَّمْہِیْدلِاِمام ابن عبدالبر‘ج:2‘ ص:193)‘‘۔ امام ابن عبدالبر نے کہا:''یہ غالب صورتوں میں ہے اور کبھی نہیں بھی ہوتا‘ لہٰذا اسے قاعدہ کلیہ قرار نہیں دیا جاسکتا ‘ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ نجم سے ثریا مرادہے اور اس کا وقتِ طلوع بارہ مئی ہے ۔ پس رسول اللہﷺنے پھلوں کی صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے اُن کی بیع سے منع فرمایا ‘ کیونکہ اس میں دھوکا ہوسکتا ہے‘ اس کی مزید وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے:
''حضرت زید بن ثابت بیان کرتے ہیں:رسول اللہﷺکے عہد میں لوگ درختوں پرپھلوں کی خرید وفروخت کرتے تھے‘ پھر جب پھل توڑنے کا وقت آتا اور بائع قیمت کا تقاضا کرنے آتا تو خریدارکہتا: ان پھلوں کا بور تو پہلے ہی خراب ہوکر کالا پڑگیا تھا‘ اس کو بیماری لگ گئی تھی اور اس پر پھل بہت کم لگے ہیں‘ وہ اس طرح آفات بیان کر کے پھلوں کی قیمت میں کمی کے لیے بائع سے جھگڑتے‘ جب رسول اللہ ﷺکے پاس اس طرح کے مقدمات کثرت سے آنے لگے تو آپﷺ نے بطور مشورہ فرمایا: درختوں پر پھل فروخت نہ کرو حتیٰ کہ اُن کا پکنا ظاہر ہوجائے ‘ عروہ نے کہا:مجھے خارجہ بن زید بن ثابت نے خبر دی کہ اُن کے والد ثریا ستارہ طلوع ہونے اورپھلوں کی زردی سرخی سے ممتاز ہونے تک تک اپنی زمین کے پھل فروخت نہیں کرتے تھے‘ (صحیح البخاری:2193)‘‘۔
علامہ عینی اس کی شرح میں لکھتے ہیں:''ثُرَیَّا‘ ثَرْوٰی کی تصغیر ہے‘ یہ ایک مخصوص ستارے کا نام ہے‘ امام ابوحنیفہؒ نے عطاء سے روایت کی ہے کہ جب ثریا طلوع ہوتا ہے تو پھلوں سے آفات دور ہوجاتی ہیں۔جب گرمیوں کی ابتدامیں فجر کے وقت ستارہ طلوع ہوتا ہے تو ان دنوں حجاز کے شہروں میں شدید گرمی پڑتی ہے جس سے درختوں پر پھل پک جاتے ہیں ‘در حقیقت یہ پھلوں کے پکنے کا وقت ہوتاہے اور ثریا کا طلوع ہونا اس کی علامت ہے ‘ (عمدۃ القاری‘ج:12‘ص:6)‘‘۔ الغرض جمہورشارحین حدیث نے طلوعِ ثریا سے جس آفت کے جانے کی بات کی ہے ‘ وہ انسانوں کو لاحق ہونے والی بیماریاں نہیں ہیں‘ بلکہ پھلوں بالخصوص کھجوروں کو لاحق ہونے والی آفات ہیں اور مدینۂ منورہ میں انہی سے واسطہ پڑتا تھااور ثریا کا طلوع ہونا کھجوروں کے پکنے کا زمانہ ہوتا تھا ۔''حضرت ابن عمرؓبیان کرتے ہیں: میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺسفر میں نہ نماز سے پہلے اور نہ نماز کے بعد کبھی تسبیح پڑھتے تھے‘ وہ بیان کرتے ہیں:میں نے عبداللہ بن عمرؓ سے پھلوں کی بیع کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا:رسول اللہ ﷺنے وبا کے ختم ہو جانے سے پہلے پھلوں کی بیع سے منع فرمایاہے‘ (راوی بیان کرتے ہیں:)میں نے کہا:اے ابو عبد الرحمن! وبا کا جانا کیا ہے‘ ابن عمرؓ نے فرمایا:ثریا ستارہ کا طلوع ہونا‘ (مسنداحمد:5012)‘‘۔
ثریا ستارہ سے متعلق جو احادیث وارد ہیں‘ ان میں سے بعض کسی قید کے بغیر مطلق ہیں‘ تواُن سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ثریا ستارہ طلوع ہونے سے کوئی بھی بیماری یا وبا ہو‘ختم ہوجائے گی ‘ خواہ اس کا تعلق انسانوں سے ہو یا پھلوں کی پیداوار سے اور بعض روایات مقید ہیں ‘ یعنی اُن میں صرف پھلوں کی بیماریوں کا ذکر ہے۔ اصولِ فقہ کا ایک قاعدہ ہے کہ ایک ہی موضوع کے بارے میں ایک جگہ کسی قید کے بغیر مطلق بات کہی گئی ہے اوردوسری جگہ وہی بات کسی قید کے ساتھ کی گئی ہے ‘تو مطلق میں بھی قیدکا اعتبار ہو گا‘ جیسے قرآنِ کریم میں کئی جگہ مردار‘ خنزیر ‘غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا جانور اور خون سمیت قطعی محرّمات کا ذکر کیا گیا ہے ‘تین مقامات (البقرہ:173‘ المائدہ:3‘ النحل:115)پر خون کا ذکر مطلق ہے اور الانعام:145میں '' دَماً مَّسْفُوْحاً‘‘یعنی ذبح کے وقت بہنے والا خون فرمایا گیا ہے‘ تو پہلے تین مقامات پر بھی یہ قید معتبر ہوگی ۔ اسی طرح بعض احادیث میں ازراہِ تکبر ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے یا گھسیٹ کر چلنے پر وعید آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایسے شخص پر نظرِ کرم نہیں فرمائے گا‘ اس کے لیے حدیثِ مبارک میں ''بَطَر‘‘ اور''خُیَلَائ‘‘ بمعنی تکبر کے کلمات آئے ہیں اور بعض جگہ مطلقاً ٹخنوں سے نیچے لباس لٹکانے پر وعید آئی ہے‘تو علما نے مطلق کو بھی مقید پر محمول کیا اور کہا:اگر کوئی ازراہِ تکبر لباس ٹخنوں سے نیچے لٹکائے یا زمین پر گھسیٹ کر چلے تو وہ وعید کامصداق ہوگا اور یہ مکروہِ تحریمی ہے اور اگر تکبر کے طور پر نہیں ہے ‘ محض عادۃً ہے تو یہ مکروہِ تنزیہی ہے‘چنانچہ حدیث پاک میں ہے:نبی ﷺنے فرمایا:جو ازراہِ تکبر اپنے کپڑوں کو لٹکائے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا‘ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی:یارسول اللہؐ!میری تہبند کی ایک جانب ڈھیلی پڑ جاتی ہے ‘سوائے اس کے کہ میں ہمیشہ اس کا خیال رکھوں ‘ تو نبی ﷺنے فرمایا:ابوبکرؓ!تم اُن میں سے نہیں ہو جو ازراہِ تکبر ایسا کرتے ہیں ‘ (بخاری:5784)‘‘۔
یہی صورتِ حال ثریا ستارہ طلوع ہونے پر وبا کے جانے کے بارے میں ہے کہ بعض جگہ روایات میں مطلق آیا اور بعض جگہ پھلوں کے بارے میں ہے ‘ لہٰذا یہاں بھی مطلق کو مقید پر محمول کریں گے کہ احادیث میں بیان کردہ وبا کا تعلق انسانوں اور حیوانات سے نہیں ہے ‘بلکہ پھلوں اور زرعی پیداوار سے ہے ‘ وہ بھی حجازِ مقدس کے خطے کے بارے میں ہے ‘ یہ اُن لوگوں کا تجربہ اور مشاہدہ بھی تھا؛ چنانچہ جب لوگوں نے پھلوں کے سودے کیے اور بعض اوقات وبا آنے کی صورت میں فصل کو نقصان پہنچا تو قیمت کے بارے میں اُن میں جھگڑے ہونے لگے ‘تو رسول اللہﷺنے پھلوں کی وبا کا زمانہ گزرنے سے پہلے اُن کی بیع سے منع فرمایا تاکہ نہ نزاع پیداہو اور نہ کسی کو نقصان پہنچے۔ ہمارے ملک میں بھی بعض فصلوں کو ایک خاص موسم میں وائرس لگ جاتا ہے‘ جیسے کپاس کو سُنڈی لگ جاتی ہے ‘ اسی طرح حجازِ مقدس میں بھی کھجوروں کے باغات کے لیے لوگوں کے اپنے تجربات اور مشاہدات تھے۔ اسی طرح ہمارے ہاں آم کے پھل کو وقت سے پہلے جلد تیار کرنے کے لیے اس کی پیٹیوں میں کیلشیم کاربائیڈ رکھا جاتا ہے ‘ جس سے پھل بظاہر تو پکا ہوا نظر آتا ہے ‘ لیکن اس میں قدرتی لذت نہیں ہوتی ‘ اب ماہرین نے کہا ہے کہ یہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے‘ ایسے مسائل کو سمجھنے کے لیے رہنما اصول یہ ہیں:
مومن کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ ہرخیر وشر کا مالک اللہ ہے‘ اس کی مشیت کے بغیر نہ ایک پتّا ہلتاہے ‘نہ ایک ذرہ ادھر سے ادھر ہوتاہے۔ صحت اور مرض اُسی کے قبضہ واختیار میں ہے ‘ انسان دوا استعمال کرتا ہے ‘ تدابیر اختیار کرتا ہے ‘ لیکن دوا یا تدبیر تبھی مؤثر ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہو‘ ورنہ ہمارامشاہدہ ہے کہ ایک ہی مرض میں مبتلا کئی مریض ہسپتال جاتے ہیں ‘اُن کے معالج بھی ایک ہی ہوتے ہیں‘ دوائیں بھی ایک ہی طرح کی دی جاتی ہیں ‘ ایک ہی طرح کی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں ‘ لیکن جہاں اللہ کا حکم اور اس کی مشیت ہوتی ہے ‘ دوا اور تدبیر مؤثر ہوجاتی ہے‘ مریض شفا یاب ہوجاتا ہے اور جہاں اس کی مشیت نہ ہو تو مریض جان کی بازی ہار جاتا ہے ۔ اگر شفا مطلقاً طبیب کے اختیار میں ہوتی اور دوا اپنی ذات میں وسیلۂ شفا ہوتی توکوئی بھی شفا یاب ہوئے بغیر نہ رہتا ‘ لیکن ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ اس کے برعکس ہے ۔ اخبارات میں آپ روز پڑھتے ہیں ‘ بعض لوگوں کا کورونا مثبت آیا‘ انہوں نے اپنے آپ کو قرنطینہ کرلیا اور شفا یاب ہوگئے اور بعض موت سے ہمکنار ہوگئے۔ نیز یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ رسول اللہ ﷺنے جوبعض پیش گوئیاں فرمائیں‘ اُن میں سِنّ وسال نہیں بتایا ‘ اُنہیں غیر معیّن چھوڑا ‘ تو کسی اور کو قطعیت کے ساتھ اُن کا مصداق متعیّن کرنے کا حق کس نے دیا ‘ قطعی علم تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے یا اُس کے بتانے سے رسول اللہ ﷺکے پاس ہے ۔