پاکستان میں مسائل تو بہت حل ہوتے ہیں لیکن وہ عوام کے مسائل نہیں ہوتے۔ حکمران طبقوں کی پیدا کردہ پیچیدگیاں‘ دشواریاںاور گتھیاں ہوتی ہیں‘ جو پہلے انہیںپیدا کرتے ہیں اور پھر سلجھانے میں لگ جاتے ہیں اور اس کے بعد دعوے کرتے ہیں کہ انہوں نے فلاں مسئلہ حل کر دیا؛ حالانکہ عوام کے لئے نہ تو وہ کوئی مسئلہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس کا حل انہیں کوئی فائدہ پہنچاتا ہے۔ مثلاً آئین کا ٹوٹنا اور بحال ہونا‘ ہمارا ایک مستقل مسئلہ ہے۔ جب وہ ٹوٹتا ہے‘ تو ہم اس کی بحالی کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اور جب اسمبلیاں معرض وجود میں آ کر اسے بحال کرتی ہیں‘ تو شادیانے بجائے جاتے ہیں کہ ہم نے آئین بحال کر دیا۔ نہ تو آئین ٹوٹنے سے عام شہری کی روزمرہ زندگی پر کوئی اثر پڑتا ہے اور نہ آئین کی بحالی سے۔ وہ بیچارانہ لینے میں نہ دینے میں۔ خواہ مخواہ آئین کی بحالی کے لئے قربانیاں دیتا ہے اور بحالی کے بعد بھنگڑے ڈالتا ہے۔ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔ اسی طرح وفاق اور صوبوں میں اختیارات کی تقسیم کا سوال ہے۔ یہ حکمرانوں کے چونچلے ہیں۔ عام شہری کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ تعلیم کا محکمہ صوبے کے پاس ہے یا وفاق کے پاس؟ سرکاری آمدنی میں صوبے کا حصہ کتنا ہے اور وفاق کا کتنا؟ کونسا ٹیکس وفاقی حکومت وصول کرے گی اور کونسا صوبائی؟ عام آدمی کا تعلق صرف اتنا ہے کہ اسے ٹیکس ادا کرنا ہے اور پھر اپنا گھریلو بجٹ بھی توازن میں رکھنا ہے۔ جب ایک ٹیکس صوبائی حکومت کے پاس جاتا ہے‘ تب بھی لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جشن منائیں اور وفاق کے پاس جاتا ہے‘ تب بھی کہا جاتا ہے خوشیاں منائو‘ مرکز مضبوط ہو گیا۔ ہر شہری کو صرف ایک بات سے غرض ہوتی ہے کہ اس سے جو ٹیکس لیا جا رہا ہے‘ اس کے بدلے میں اسے کیا ملتا ہے؟ امن؟ تحفظ؟ بچوں کی تعلیم؟ صحت؟ روزگار؟اچھی اور محفوظ سڑکیں؟ چوری‘ ڈاکوں اور راہزنی سے بچائو؟ یہ اور دوچار مزیدچیزیں عام شہری کے لئے اہمیت رکھتی ہیں۔ ان میں سے حکمران طبقوں کے لئے کسی کی بھی اہمیت نہیں۔ بیروزگاری کی شرح‘ ہر سال پہلے سے بڑھ جاتی ہے۔ چوریوں اور ڈاکوں میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ مہنگائی میں اضافے کی شرح ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے۔ سرکاری سکولوں میں تعلیم کا معیار بدسے بدتر ہوتا جا رہا ہے، جس کا سب سے بڑا ثبوت نجی شعبے کے سکولوں اور کالجوں کی تعداد میں روزافزوںاضافہ ہے۔ دنیا میں سب سے مہنگی بجلی پاکستانی عوام خریدتے ہیں اور سب سے زیادہ لوڈشیڈنگ کا عذاب بھی انہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے عوام پر ایک جرمانہ یہ بھی ہے کہ وہ ہر نئی حکومت پر خوشیاں منائیں اور پھر اس کے جانے پر بھی خوشیاں منائیں۔ ایسی خوشیاں منانے کے مواقع ہمیں باربار ملتے ہیں۔ فوجی حکمران آتا ہے ‘ تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ نجات دہندہ آ گیا ‘ خوشیاں منائو۔ جب وہ چلا جاتا ہے‘ تو اطلاع دی جاتی ہے کہ ظلم کی سیاہ رات ختم ہو گئی‘ شادیانے بجائو۔ ہم نجات دہندوں اور ظلم کی سیاہ راتوں کے آنے اور جانے پر ہی‘ ناچتے کودتے رہتے ہیں۔ نہ کسی کے آنے سے ہمارا بھلا ہوتا ہے اور نہ جانے سے۔ عام آدمی پہلے سے بھی زیادہ غریب‘ پہلے سے بھی زیادہ بے بس اور پہلے سے بھی زیادہ مہنگائی کے بوجھ میں دبتا چلا جا رہا ہے۔ حکومتیں لسانی‘ نسلی اور فرقہ ورانہ تنازعات کے نتائج بھگتنے میں لگی رہتی ہیں۔ نہ یہ تنازعات ہماری کسی بھلائی کے لئے ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کا ختم ہونا‘ کسی غریب کے چولہے پر ایک روٹی کا اضافہ کرتا ہے۔ جب تنازعہ پیدا ہوتا ہے‘ توتب بھی ہمارے لئے پریشانی اور ختم ہوتا ہے‘تو ہمارے لئے سکون کا سانس۔ مگر پریشانی سے بھی کچھ نہیں ملتا اور سکون کا سانس بھی ہمارے جسم میں خون کی ایک بوند نہیں بڑھاتا۔ لیکن ہم مصروف بہت رہتے ہیں۔ پھر جشن منانے میں ہمارے مقابلے ہوتے ہیں۔ آج فلاں فرقے کا خاص یوم آ گیا۔ سجاوٹوں کے لئے چندہ دو اور آج اس کے مخالف فرقے کا خاص یوم آ گیا‘ اسے بھی سجاوٹوں کے لئے چندہ دو۔ نہ پہلے یوم سے کسی بیمار کو شفا ملتی ہے اور نہ دوسرے یوم سے کسی غریب کا پیٹ بھرتا ہے۔ لیکن اگر ہماری قوم کی مصروفیات کو دیکھا جائے‘ تو شاید سب سے زیادہ مصروف رہنے والے ہم لوگ ہیں۔ آپ یورپ‘ امریکہ‘ حتیٰ کہ تیل والے عرب ملکوں میں جا کر دیکھیں‘ تو لوگ بڑے آرام سے اپنی اپنی چھٹیاں مناتے ہوئے‘ صحت مندانہ سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ بہت تھوڑے تہوار مناتے ہیں مگر خوب مناتے ہیں۔ 8گھنٹے کام کرتے ہیں اور فارغ وقت میں بے فکری سے مزے اڑاتے ہیں۔ ہمارے پاس مزے اڑانے کے لئے وقت نہیں ہوتا۔ جب ہم کام نہیں کرتے‘ تو ایک دوسرے کا کچھ بگاڑنے کے لئے سوچتے رہتے ہیں اور اگر اللہ توفیق دے‘ تو عملی طور پر بگاڑنے کے لئے بھی نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ٹریفک سگنل توڑتے ہیں۔ سڑکوں پر حفاظتی رکاوٹیں ہٹاتے ہیں۔ چلتے چلتے شوقیہ کھڑکیوں پر پتھر مار کر‘ شیشوں کو ریزہ ریزہ کرتے ہیں۔ کسی کار پر چابی سے لکیر مار دیتے ہیں۔ کسی موٹرسائیکل کو دھکا دے کر گرا دیتے ہیں۔ کوڑے کے ڈھیر پر جلتا ہوا سگریٹ پھینک جاتے ہیں اور کچھ نہیں‘ توصاف ستھری جگہ دیکھ کر وہاں تھوک ہی دیتے ہیں۔ مگر مصروف ہم بہت رہتے ہیں۔ آج کل ہم پر خوشیوں کا موسم آیا ہوا ہے۔ تین چار پارٹیاں ‘ انتخابات میں کامیاب ہوئی ہیں۔ ہم سب کی کامیابیوں پر ناچتے پھر رہے ہیں۔ مبارکبادیں دے رہے ہیں۔ مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں۔ جیتنے والے لیڈروں کے گھروں پہ جمع ہو کر ‘ انہیں کامیابی پر مبارکیں دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ انتخابی جیت صرف ان کے لئے ہوتی ہے‘ جو اسمبلیوں میں جاتے ہیں۔ وہاں جانے کے بعد‘ یہ پلٹ کر اپنے ووٹروں کی طرف نہیں دیکھتے۔ کئی الیکشن آئے‘ کئی گئے۔ سڑکیں اسی طرح خستہ حال ہیں۔ ووٹ ڈالنے والی 70فیصد آبادی کو پینے کے لئے صاف پانی میسر نہیں۔ ہماری 3فیصد دیہی آبادی کسی نہ کسی ہیپاٹائٹس کا شکار ہے۔تمام گھر 12گھنٹے سے زیادہ تاریکی میں ڈوبے رہتے ہیں۔ چوروں ڈاکوئوں سے اپنی حفاظت خود کرنا پڑتی ہے۔ دیہات میں ڈھورڈنگروں پر خودپہرے دینا پڑتے ہیں۔ جس کی آنکھ جھپکی‘ اس کا بیل یا بھینس گئے۔ قسمت اچھی ہوئی‘ تو رقم دے کر اپنا مویشی واپس لے آئو‘ ورنہ روتے دھوتے رہو اور خوشیاں منانے کے لئے ایک اور الیکشن کا انتظار کر لو۔ باقی دنیا میں جو مواقع خوشیوں کے ہوتے ہیں‘ ہمارے ہاں ماتم کے ہوتے ہیں۔ بیٹی کی شادی کرنا پڑے‘ تب رونا دھونا۔ شادی کے اخراجات کہاں سے پورے کریں؟ بچہ یا بچی پاس ہو جائے‘ تومٹھائی کا خرچہ پڑ گیا۔ عید آئی تو بچوں کے لئے نئے کپڑے سلوانے کی طاقت نہیں۔ ہر عید پر آپ ایسی خبریں پڑھتے ہوں گے کہ باپ یا ماں باپ دونوں نے بچوں کے لئے عید کے کپڑے نہ ہونے کی وجہ سے خود کشی کر لی۔ عید الاضحی آتی ہے تو پھر رونا دھونا کہ قربانی کے لئے بکرا کہاں سے خریں؟ یا گائے کی قربانی میں حصہ ڈالنے کے لئے پیسہ کہاں سے لائیں؟ اور جو قربانی کے لئے بکرا خریدنے یا گائے میں حصہ ڈالنے کے قابل نہیں ہوتا‘ اس کے گھر میں صف ماتم کہ بچوں کو کیا سمجھائیں؟ہم سب سے زیادہ سوچنے والی قوم ہیں۔ مگر سوچتے صرف ایسی باتیں ہیں‘ جن کے نتیجے میں نہ اپنا فائدہ ہوتا ہے‘ نہ خاندان کا‘ نہ اہل شہر کا اور نہ اہل وطن کا۔ ہم بہت مصروف رہتے ہیں۔ مگر حاصل محنت کیا ہوتا ہے؟ یہ ہم کبھی نہیں سوچتے۔ آج میں خوش ہوں کہ مسلم لیگ نے عبدالمالک بلوچ کو اپنے صوبے کا وزیراعلیٰ بنا دیا ہے۔ بلوچستان میں مٹھائیاں بٹ رہی ہیں اور لوگ خوشیوں سے جھوم رہے ہیں۔ اب صوبے میں امن آ جائے گا۔ پہلے ہم نے بدامنی پیدا کی۔ اب ہم امن کی امیدیں باندھ رہے ہیں۔ مگر ان دونوں کاموں میں بلوچ عوام یا پاکستانی عوام کو کیا ملا؟ یہ ہم کبھی نہیں سوچتے۔ ہم بلاوجہ خوشیاں مناتے ہیں ۔ بلاوجہ روتے دھوتے ہیں اور کھایا پیا کچھ نہیں‘ گلاس توڑا بارہ آنے والی زندگی گزارتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved