تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     14-06-2020

اترا کھنڈ سے لیپو لیکھ …(دوسری قسط)

نیپال کی خود مختاری کو روندکر بھارت اپنی طاقت کے زو رپرمشرق سے مہیش پور اور مغرب سے لیپو لیکھ تک اپنی فوجی چوکیاں اور سڑکیں تعمیر کرتا رہا‘آج 30 برس بعد چین اور بھارت کے درمیان سرحدی کشیدگی کا اہم ترین مقام یہی لیپولیکھ ہے ۔نیپالی عوام نے بڑی جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی تو نیپال کا خیال تھا کہ بھارت اس کی آزادی اور خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے اس سے اچھے تعلقات استوار کرے گا ‘لیکن جلدہی نیپال کویہ دیکھ کر دھچکا لگا کہ بھارت تو اسے جی حضوری کرنے والے ماتحت سے زیا دہ کا درجہ نہیں دیتا۔نیپال کی جغرافیائی اور علاقائی اہمیت اور تعلقات کو اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسی سے منسلک رکھنے کی بھارتی ہٹ دھرمی نے نیپالیوں کے دلوں میں اس کے خلاف شکوک و شبہات کے وہ بیج بونا شروع کر دیے کہ انگریز کی پروردہ Rana dynasty کے تسلط سے آزادی کیلئے بے بہا قربانیاں دینے کے بعد اپنے لئے جو آزادی حاصل کی ہے وہ ایک خواب بن جائے گی اور اب بھارت اس کی سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے نیپالیوں کوایک مہرے کے طو رپر استعمال کرنے کیلئے ان کا اصلی حکمران بننا چاہتا ہے۔ نیپال پر زبردستی انگریز کے مسلط کئے گئے رانا خاندانوں کے خلاف 1950ء میں ایک زبردست انقلابی جدو جہد کے نتیجے میں آزادی حاصل کرنے والا نیپال چین اور بھارت کی صورت میں نئی نئی آزادی لے کرابھرتی ہوئی طاقتوں کے درمیان سینڈ وچ بن چکا تھا ۔بھارت کا حکم تھا کہ جدھر میں کہوں تم نے ادھر جانا ہے‘ مجھ سے پوچھے بغیر کسی سے بات نہیں کرنی‘ لیکن بھارت کے احکامات کی تعمیل میں نیپال اس حد تک بھی نہیں جانا چاہتا تھا کہ اس کی جھولی میں گرکر چین سے اپنے تعلقات کوخراب کر لے جو اپنی سدرن سکیورٹی کے سلسلے میں انتہائی حساس ہے۔ نیپالی حکومت کیلئے سب سے بڑی اطمینان بخش بات یہ تھی کہ چین توسیع پسندی کا قائل نہیں ‘ سوائے اپنے علاقوں اور سرحدوں کی مکمل حفاظت کے۔ سرکاری یا غیر سرکاری کسی بھی مسئلے پر بات چیت کرتے ہوئے چینیوں کا رویہ نیپال سے انتہائی مہذب اور ہمدردانہ ہوتا‘ جبکہ بھارتی ان پر رعب جھاڑتے‘ جس سے نیپالیوں کی نفسیات ان سے نفرت محسوس کرنے لگی ۔
1950ء سے1959ء تک بھارت نیپال تعلقات اچھے چلتے رہے‘ لیکن1959ء میں جب نیپال میں پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے تو یہ اطلاعات نیپال کیلئے کسی صدمے سے کم نہ تھیں کہ بھارت بے تحاشا پیسہ پھینک کر ان انتخابات میں اپنی پسند کی جماعت کی کامیابی کیلئے نیپال کے سیا سی‘ سفارتی اور دفاعی معاملات میں مداخلت کررہا ہے۔ یہاں سے بھارت کی نیپال میں مستقل مداخلت کا آغاز ہو گیا اور اس دوران نیپال پر وقفے وقفے سے چندایسی حکومتیں بھی قائم ہوئیں جو بھارت کا دم چھلہ بن کر رہ گئیں ۔ غلامی کے انہی ماہ و سال نے نیپال کو فوجی اور اقتصادی طو رپر بہت پیچھے دھکیل دیا۔جیسے جیسے نیپال کو بھارت سے کچوکے لگتے گئے اس کی کئی دہائیوں سے شناخت ‘ بہادری اور وفاداری کو لگے زخم ہرے ہونے لگے اور پھر ایک دن نیپال کا گورکھا ایک جھٹکے سے اپنے پرکھوں کی عظمت ‘شجاعت اور غیرت کی میراث کا علم لئے للکارے مارتاہوا اس طرح بھارت کے سامنے کھڑا ہو گیا ہے کہ بھارت کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس کی پھٹی پھٹی آنکھوں کو یقین ہی نہیں آ رہا کہ اس کا سری لنکا‘ بھوٹان‘ میانمار ‘ مالدیپ‘ بنگلہ دیش اور نیپال کو آر ایس ایس کے جھنڈے کو سلامی دینے کیلئے قطار میں لگانے کا خواب یوں چکنا چور ہو جائے گا اور ہندوتوا کے تھرڈ کلاس قسم کے نشے میں بد مست بھارت کی انتہا پسند سیا سی اور فوجی قیا دت عقل و شعور سے بیگانہ ہو جائے گی ۔ آج اگر بھارت ایک وحدت کی شکل میں دنیا میں موجود ہے تو اس کی بنیادوں میں ہندوئوں کا نہیں بلکہ سکھوں اور گورکھوں کا خون ہے۔ انڈیا کی فوج میں موجودگورکھے اور سکھ اگر آج پیچھے ہٹ جائیں تو آر ایس ایس والوں کی دھوتیاں اس قدر ڈھیلی ہو جائیں کہ ان کا سنبھالنا مشکل ہو جائے۔ انڈین آرمی چیف جنرل منوج کے گورکھوں کے متعلق گھٹیا ریمارکس پر کفِ افسوس ملتے ہوئے نیپال کے وزیر دفاع پوکھرل بول اٹھے کہ کاش ہم گورکھے بھارت کے دامِ فریب میں نہ آتے۔ جس قدر قربانیاں گورکھوں نے بھارت کی حفاظت کیلئے دی ہیں وہ کوئی مودی جیسی احسان فراموش ذہنیت ہی بھلا سکتی ہے۔ کئی دہائیوں سے بھارت کے برہمنوں کی غلامی اور چوکیداری کرنے والا بہادر اور وفا دارگورکھا بالآخر اپنی پہچان اور وقار کے خلاف بھارت کے آرمی چیف جنرل منوج کے توہین آمیز الفاظ برداشت نہ کر سکا اورسوائے بھارت کے چند ہزار ٹھیکیداروں اورتنخواہ داروں کے ‘پورا نیپال انتہا پسند ہندو جرنیل کے تمسخرآمیز ریمارکس پر اس طرح اٹھ کھڑا ہوا کہ بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔
نیپال جس کی اپنی تاریخ کئی صدیوں تک پھیلی ہوئی ہے ‘ اگر یہ سکم‘ بھوٹان اور لداخ سے سمٹ کر اگر ایک چھوٹے سے حصے تک محدود ہو چکا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے آبائو اجداد کے خون اور ڈی این اے سے بھی لا تعلق ہو گئے ہیں۔ نیپال کے بہاد ر‘جفا کش گورکھے کے نزدیک اس کی عزتِ نفس سب سے مقدم ہوتی ہے اور انڈین آرمی چیف کے گھٹیا ریمارکس کا جواب دیتے ہوئے انڈین آرمی کے تیرہ جوان‘ جو اپنے طور پر کچھ لوگوں کا پیچھا کرتے ہوئے ہمیشہ کی طرح منہ اٹھائے نیپالی حدود میں گھس آتے تھے‘کو غیر قانونی طو رپر سر حد پار کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ ان بھارتی فوجیوں کی گرفتاری نے جہاں پورے بھارت میں ہلچل مچا دی ‘ وہیں نیپالی عوام اپنی فوج کی حمایت میں بھی کھڑے ہو چکے ہیں۔ گزشتہ دس برسوں سے بھارت پر مسلط آر ایس ایس کے سامنے ڈٹی ہوئی نیپالی حکومت نے انڈین آرمی چیف کو سخت جواب دے کر واضح کر دیا ہے کہ لیپو لیکھ سڑک‘ جس کا افتتاح بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کیا تھا‘ اسے کبھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ جس پر بھارت نے نیپال کا احتجاج بڑی رعونت سے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ان کا حصہ ہے اور کوئی بھی انہیں یہ سڑک تعمیر کرنے سے نہیں روک سکتا ۔ انڈین آرمی چیف نے نیپال کی اس جرأت پر حیرت کاا ظہار کرتے ہوئے کہا کہ گورکھے کی یہ جرأت کہ اب وہ بھی بھارت کی راہ میں کھڑا ہونا شروع ہو گیا ہے؟ نیپال میں بھارت کے خلاف مظاہروں پر تبصرہ کرتے ہوئے ا نڈین آرمی چیف جنرل منوج نے اسے سیا سی سٹنٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ گورکھے کسی دوسرے کی انگلیوں پر ناچ رہے ہیں ۔ جنرل منوج کے ان الفاظ نے پورے نیپال میں آگ لگا کر رکھ دی اور نیپال کے وزیر دفاع پوکھرل نے عالمی میڈیا کے سامنے نیپال کا نقشہ رکھتے ہوئے بتایا کہ لیپولیکھ‘کالا پانی اور لیمپی یوادر‘ جسے بھارت اپنا حصہ بتا رہا ہے وہ نیپال کی حدود میں ہیں۔ گورکھا قوم جسے کل تک راشٹریہ ذہنیت اپنی ایک کالونی سے زیا دہ درجہ نہیں دیتی تھی‘ جن کی سرحدوں کا بھارت کی کتابوں میں رتی بھر بھی احترام نہیں تھا ‘آج وہی گورکھا قوم بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سینہ تان کر ہر چھوٹی قوم کے ساتھ ظلم کرنے والے بھارت کے بالمقابل کھڑی ہو چکی ہے‘ تاکہ دنیا جان لے کہ نیپال کے گورکھوں کو اپنی سرحدیں اور وقارسب سے زیا دہ عزیز ہے۔(ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved