دورِ طالب علمی میں شہاب نامہ پڑھا تھا‘ جس کا پہلا باب طاعون کی وبا پر تھا‘ گرمیوں کا موسم تھا‘ چوہے انسانوں میں پلیگ پھیلارہے تھے۔تیز بخار چڑھتا تھا پھر طاعون کی گلٹی نمودار ہوتی تھی‘جسم سوج جاتا اور ناک‘ کان سے خون آنے لگتا اور انسان کی موت واقع ہوجاتی۔ قدرت اللہ شہاب اس وقت کم سنِ تھے اور ان کے استاد بیمار ہوگئے‘ وہ ان کی تیمارداری کیلئے گئے تو ان کی نئی نویلی دلہن ان کو بہت اچھی لگیں‘ وہ صادقہ بیگم کے گرویدہ ہوگئے اوران کا ہاتھ بٹانے لگے ‘تاہم ان کے استاد کو عام بخار تھا‘ لیکن صادقہ بیگم وبا کی زد میں آگئیں۔ان کو طاعون ہوگیا تھا اور وہ بسترسے لگ گئیں۔
قدرت اللہ شہاب ان کی اور استاد کی خدمت کرنے لگے‘ صادقہ بیگم کو تیز بخار تھا‘ ان کے سر پر برف کی ڈلی رکھی تو وہ حرارت کی وجہ سے پگھل گئی اور صادقہ بیگم کی آنکھیں کھل گئیں‘ انہوں نے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ دور ہوجا میرے پلیگ نکل آئی ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے جلدی سے ٹھنڈا شربت بنایا اور صادقہ بیگم کو دیا‘ وہ فوری طور پر پی گئیں اور آخری فرمائش کی کہ میرے لئے ایک میٹھا پان لا دو۔ وہ ڈھائی میل تک پیدل چل کرگئے اورمیٹھا پان لے کر واپس آئے تو صادقہ بیگم کے میکے والے بیٹھے تھے ‘انہوں نے قدرت اللہ شہاب سے لے کرپان پھینک دیا‘ وہ مایوس گھر لوٹ گئے‘ لیکن سوچا کہ درگاہ پر دعا مانگی جائے‘ شاید صادقہ بیگم ٹھیک ہوجائیں ۔اماں سے نیاز بنوائی لیکن زندگی کی ڈور ٹوٹ گئی‘ صدقہ بیگم چل بسی۔جب جموں میں پلیگ بہت پھیل گیا تو ان کے اہلِ خانہ نے بچوں کو سر ینگر بھیج دیا‘ وہاں ہیضہ پھیل گیا تو ان کے اہلِ خانہ سرپکڑ کر بیٹھ گئے کہ کیا کیا جائے‘ ہرطرف سے وباؤں کے حملے جاری تھے۔ جس وقت ان کی کتاب شہاب نامہ میں یہ سب میں نے پڑھا تو سوچا کہ ان بیماریوں کا اس وقت علاج ممکن نہیں تھا‘ لوگ کتنی تکلیف کا سامنے کرتے ہوں گے؟چھوت کی بیماری میں سب مریض کو تنہا کردیتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب کے استاد اوران کی بیگم بھی الگ الگ کمروں میں تڑپ رہے تھے‘ ان کی مزاج پرسی صرف وہ کرتے رہے کیونکہ چھوت کی بیماری کے مریض کا علاج تو حکیم بھی نہیں کرتے تھے۔پھر سائنس اور صحت کے شعبے نے ترقی کرلی اور بیماریوں کے علاج آگئے۔ہسپتالوں میں جدید سہولیات کے ساتھ مشینیں آگئیں ‘ادویات آگئیں؛چنانچہ اب لوگ لمبی عمرپاتے ہیں اور بیماریوں کو شکست دیتے ہیں۔میں نے یہ سب پڑھتے ہوئے کبھی ایسا سوچا نہیں تھا کہ وہ دور واپس لوٹ آئے گا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ 1930ء‘ 2020ء میں پھر لوٹ آیا ہے۔ لوگ تڑپ رہے ہیں‘ مر رہے ہیں لیکن علاج موجود نہیں۔جدید سائنس ‘ ترقی ‘معیشت اور سپر پاورز اپنے گھٹنوں پر آچکی ہیں۔کورونا نظامِ تنفس پر حملہ کرتا ہے اور انسان چند دنوں میں ختم ہوجاتا ہے‘ یہ مذاق نہیں ہے تلخ حقیقت ہے۔اس وقت میری فیس بک پر 30افراد یہ سٹیٹس اپ لوڈ کرچکے ہیں کہ وہ کووڈ پازیٹیو ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد میڈیا کے افراد کی ہے کیونکہ میڈیا کے لوگ اب بھی فیلڈ میں کام کررہے ہیں۔اس کے ساتھ چار افراد جن کو میں صحافت کی وجہ سے جانتی ہوں‘ انتقال کرچکے ہیں۔
میرے ایک کولیگ کورونا کے باعث علیل ہیں‘ ان کی بیوی ان کی دیکھ بھال کررہی ہے‘ کیونکہ ان کے مطابق اگر ان کو ہسپتال لے گئے تو کوئی ان کا خیال نہیں رکھے گا۔وہ خود اپنے شوہر کو دوائی دے رہی ہیں‘ یخنی دے رہی ہیں‘ بھاپ دی رہی ہیں اور قہوہ دے رہی ہیں۔اپنی حالت کی پروا کئے بغیر وہ دن رات شوہر کی خدمت کررہی ہیں۔ ان کے گھر کچھ ماہ بعد پہلے بچے کی ولادت ہوگی‘ لیکن اب تک وہ اپنا چیک اَپ بھی نہیں کرانے جاسکیں۔اس ساری صورتحال میں ان کے سسرال والوں نے انہیں تنہا چھوڑ دیا۔انہیں ڈر ہے کہیں کورونا انہیں نہ لگ جائے ‘لیکن اس کا میکہ اس کو ہر طرح سے مدد دے رہا ہے‘ کھانا دوائیاں سب وہ گھر کے باہر رکھ جاتے ہیں اس کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔اس بیوی کو کتنا اجرِ عظیم ملے گا‘ اس کا اللہ ہی کو معلوم ہے‘ لیکن جن اپنوں نے انہیں تنہا چھوڑ دیا وہ کتنے گناہگار ہوں گے؟
ہماری پیاری ماریہ میمن کو بھی کورونا ہوگیا ہے۔ وہ صحافی اور اینکر ہیں‘ انہوں نے خود کو گھر میں محدود کرلیا ہے کہ دوسرے اس سے محفوظ رہیں ‘لیکن قسمت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ وہ قرنطینہ میں تھیں اور ان کی والدہ کینسر سے انتقال کرگئیں اور وہ اپنی پیاری ماں کا آخری دیدار بھی نہ کرسکیں‘ کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ یہ مرض دوسروں کو لگ جائے ۔اللہ ان کی والدہ کو جنت نصیب کرے اور ماریہ میمن کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔بے شک انہوں نے سب کی صحت اور زندگی کیلئے بہت بڑی قربانی دی ہے۔انہیں یہ غم تو ساری زندگی تکلیف دے گا کہ وہ اپنی والدہ کو آخری بار مل نہ سکیں‘تاہم سب کو ان کی قربانی پر فخر ہے کہ انہوں نے دوسروں کا خیال رکھا اور کورونا کے پھیلاو ٔکو روکا۔میری پیاری دوست حلیمہ عباسی کی والدہ بھی اچانک دنیا چھوڑ گئیں اور کورونا ایک خاندان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غمگین کرگیا ہے۔اب کون اس خاندان کا اور ان کی شیرخوار بیٹی کا خیال رکھے گا؟ میکہ تو لڑکیوں کا مان ہوتا ہے‘ یتیمی بہت بڑا زخم ہے جو کبھی نہیں بھرتا۔اللہ ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔میری سب سے گزارش ہے کہ عالمی ادارۂ صحت کی تجاویز پر عمل کریں۔اس وبا کو مذاق نہ سمجھیں‘ یہ میرے جن کولیگز اور رشتہ داروں کو ہوا ہے وہ بہت سخت تکلیف میں ہیں انہوں نے تمام بچاو ٔکی تدابیر بھی کی تھیں‘ لیکن قسمت میں لکھا تھا سو ہوگیا۔
وبا رنگ و نسل دیکھے بغیر سب کو لپیٹ میں لے رہی ہے‘ بیماری کا رنگ ونسل‘ مذہب نہیں ہوتا‘ یہ آتی ہے اور ہر اچھے برے کو لپیٹ میں لے لیتی ہے‘ لیکن یہ انسان کا امتحان بھی لیتی ہے کہ کون اچھائی پر رہے گا اورکون بدی پر۔کون دکھی لوگوں کی مدد کرے گا اور کون لوگوں کے دکھ مزید بڑھائے گا۔وبا ایک امتحان ہے جس پر ہمیں پورا اترنا ہے۔جنہوں نے نیک اعمال کئے وہ سرخرو ہوجائیں گے‘ جو بدی پر چل پڑیں شاید ان کو ہدایت مل جائے‘ لیکن اگر نہیں ملی تو آخرت میں ان کو درد ناک عذاب ملے گا۔ہم انسان اپنی تمام تر کمزوریوں‘خطاکاریوں اورغفلتوں کے باوجود اگر ایک بار اللہ کے آگے سر جھکا دیں تو وہ رحمان و رحیم ہے۔معیشت سے زیادہ ہمیں توبہ پر توجہ دینی چاہیے تھی ‘اجتماعی دعا کرنی چاہیے تھی کہ یا اللہ ایک ایسی وبا جس کا علاج موجود نہیں‘ اس سے ہم کو محفوظ فرما۔ہم اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کرتے ہیں‘ لیکن ایسا نہیں ہوا۔پاکستانی معیشت سے زیادہ انسانی زندگیوں کی اہمیت ہے سیاسی رنجشوں کدورتوں‘ نفرتوں اورتنازعوں کو ایک طرف رکھ کر عوام کا سوچیں۔باہمی محبت خلوص احترام سیاسی تدبرکے ساتھ ایک پالیسی بنائیں جس میں عوام کو کچھ تو دلاسا اور تسلی دیں۔اللہ تعالی کے حضور سربسجود ہوکر حکمران اشرافیہ اپنے گناہوں کی معافی مانگیں ‘تاکہ عوام اس وبا کی شدت سے نکل سکیں۔وزیر اعظم عمران خان اصلاحات کا نعرہ لگا کر آئے تھے‘ لیکن حکومت میں آتے ہی انقلاب اور اصلاحات کا بخار بالکل اترگیا۔ اگر وہ اپنے ارد گرد دیکھیں تو چینی‘ آٹا اور پٹرول پر ہاتھ صاف کرنے والے مل جائیں گے۔اقتدار بھی کیا شے ہے دربار اور اقتدار اجتہادی ‘ اختراعی ‘ اور تجدیدی قوت کو جکڑ لیتا ہے اور انسان صرف خوشامد کو سن کر خوش ہوتا ہے۔اب بھی وقت ہے لیڈر بن کر سامنے آئیں‘ بڑے فیصلے لیں‘ عوام کو صحت کی سہولیات دیں ‘ان کو راشن دیں۔عوام نے ہمیشہ سیاست دانوں کو نوازا ہے‘ ان کو دل کھول کر عطیات دئے ہیں ‘اب وقت آگیا ہے کہ سیاست دان بھی عوام کو کچھ لوٹا ئیں۔