مشرق اور مغرب کے مزاج میں بنیادی فرق نَفس (وجودِ ذات) کے فرق سے متعلق ہے۔ ہر انسان منفرد وجود رکھتا ہے‘ جسے ہم نَفس بھی کہتے ہیں۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اُس کی ذات یا اُس کا وجود انتہائی منفرد ہو۔ وہ ہمیشہ اس امر کے لیے کوشاں رہتا ہے کہ دوسروں سے بالکل مختلف ہو تاکہ پہچانا جائے۔ اپنی باضابطہ اور الگ شناخت قائم کرنے کی خواہش ہر انسان کے دل میں انگڑائیاں لیتی رہتی ہے۔ مشرق اور مغرب کے مفکرین نے نَفس کے حوالے سے بہت کچھ سوچا اور لکھا ہے۔ اس حوالے سے نمایاں ہونے والی فکری کاوشوں میں ایک چیز بہت نمایاں ہے۔ مشرق کے اہلِ علم نے ہر دور میں عمومی سطح پر نَفس کو درخورِ اعتنا سمجھنے سے گریز کی تعلیم دی ہے۔ اُن کا استدلال ہے کہ جب انسان سب کچھ اپنے وجود کے لیے چاہتا ہے تب نِری اور صریح خود غرضی جنم لیتی ہے۔ اچھا انسان وہ نہیں جو دنیا کو اپنی مٹھی میں لینے کے لیے بے تاب ہو بلکہ وہ ہے جو اپنے وجود کو دنیا کے لیے وقف کردے۔ایسے لوگ معاشرے کے لیے ایک نعمت کی طرح ہوتے ہیں۔ دوسری طرف مغرب کے مفکرین اس نکتے پر زور دیتے رہے ہیں کہ انسان جو کچھ بھی کرے اُس کا محور اُس کی اپنی ذات ہو۔ بنیادی استدلال یہ ہے کہ اپنی ذات کو نظر انداز کرکے دوسروں کا بھلا چاہنے والے غیر معیاری اور غیر متوازن نوع کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ بات بھی بھلی معلوم ہوتی ہے۔ انسان دوسروں کے لیے بہتر کردار اُسی وقت ادا کرسکتا ہے جب وہ خود مضبوط ہو۔ اپنے وجود کو نظر انداز کرکے کوئی بھی انسان پوری دلچسپی اور لگن کے ساتھ زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ ہر انسان کو کچھ کر دکھانے کی تحریک اُسی وقت ملتی ہے جب وہ اپنی ذات کو نمایاں کرنے کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار ہو۔
مشرق اور مغرب کی سوچ کا یہ فرق ہر معاملے میں نمایاں ہے۔ مشرق میں گوتم بدھ نے اپنی تعلیمات میں اس نکتے پر زور دیا کہ انسان کو اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے جینا چاہیے تاکہ نَفس غیر ضروری خواہشات اور اُن سے جڑے ہوئے امور سے آلودہ نہ ہو۔ گوتم بدھ کے خیال میں جب انسان اپنی ذات کی نفی کرتا ہے تب ہی پورے اخلاص کے ساتھ معاشرے کی خدمت کے قابل ہو پاتا ہے۔ اُنہوں نے اپنے وجود کی نفی اور خواہشات سے دور رہنے پر اس قدر زور دیا کہ یہی نکتہ اُن کی تعلیمات کی شناخت بن گیا۔ اُن کے پیرو بھی اپنے وجود کی نفی پر غیر متزلزل یقین رکھتے تھے۔ اس یقین ہی کی بدولت بدھ اِزم کے پیرو کار اخلاقی بلندی پیدا کرنے کے حوالے سے دنیا کی توجہ تیزی سے حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ کئی پس ماندہ معاشروں نے اخلاقی انحطاط سے بچنے کی نمایاں ترین تدبیر کے طور پر بدھ اِزم کو اپنایا۔ جہاں جہاں بدھ اِزم پھیلا وہاں اپنی ذات کی نفی کے ذریعے دنیا کا بھلا کرنے والوں کی تعداد بڑھی۔ مگر شخصیت کے ہمہ گیر ارتقا کے لیے محض اتنا کافی نہ تھا۔ اپنی ذات کی نفی کردینے سے انسان اپنے تمام مسائل حل نہیں کرلیتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے وجود پر باقی دنیا کو ترجیح دیتے رہنے سے اپنے آپ سے بیزاری کی سی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو ڈھنگ سے اور پورے جوش و خروش کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی لگن کا گلا دبا دیتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ جن معاشروں میں بدھ اِزم کو پروان چڑھنے کا موقع ملا وہ معاشرے مکمل طور پر پروان نہ چڑھ سکے۔ دوسروں کو متاثر کرنے والی تہذیب کے طور پر یہ معاشرے کبھی نمایاں نہ ہو پائے۔ ذاتی یا انفرادی سطح پر اخلاقی بلندی کے حوالے سے تو گوتم بدھ کی تعلیمات بہت اچھی رہیں مگر معاشرے کے ہمہ گیر ارتقا اور جامع نظامِ زندگی مرتب کرنے میں یہ بہت حد تک ناکام رہیں۔ دوسری طرف مغرب میں اپنے وجود یا نَفس ہی کو مرکز و محور سمجھنے کا لازمی منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ معاشروں میں بے لگام شخصی آزادی اور بے راہ روی کو تباہ کن حد تک بڑھاوا ملا۔ مغرب کے اہلِ دانش نے ہر فرد کو یقین دلایا کہ اُس کا وجود ہی باقی ہر چیز پر مقدم ہے۔ یہ سوچ ہر انسان کو اس بات پر اُکسانے کا باعث بنی کہ وہ صرف اپنا مفاد ذہن نشین رکھے اور باقی تمام لوگوں کو ثانوی حیثیت دے۔ صرف اپنے وجود کو باقی دنیا پر مقدم رکھنے کا ایک منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ہر حال میں شخصی ارتقا یقینی بنانے کی روش عام ہوتی گئی۔ مغرب میں بیشتر افراد نے اجتماعی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر صرف اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھانے پر توجہ دینا شروع کی۔ ہمہ گیر نوع کی ترقی و خوش حالی کے لیے بہت حد تک لازم ہے کہ انسان اپنے وجود کی نفی سے گریز کرے اور زیادہ سے زیادہ دلچسپی اور جوش و خروش کے ساتھ مصروفِ عمل ہو۔ مغرب میں ایسا ہی ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ انفرادی سطح پر غیر معمولی کامیابی یقینی بنانا ممکن ہوسکا۔
بہر کیف‘ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مشرق اور مغرب دونوں ہی نے فکر و عمل کی سطح پر انتہا پسندی اپنائی۔ اس انتہا پسندی نے خاصا بگاڑ پیدا کیا ہے۔ مشرق میں اپنی ذات کی نفی سے شخصی سطح پر اضمحلال کی سی کیفیت صدیوں تک پروان چڑھی ہے اور اب ہر معاملے پر حاوی و متصرّف ہے۔ اس کا لازمی‘ فطری نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ مشرقی معاشرے غیر معمولی فعالیت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے ہیں اور یوں عالمی سیاست و معیشت اور تہذیب و تمدن کے میدان میں اُن کا کردار چھوٹا اور مبہم رہا ہے۔ مغرب نے شخصی آزادی کو بے لگام ہونے دیا۔ اس کے نتیجے میں وہاں بھی بگاڑ پیدا ہوا۔ دانش کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی بھی انسان اپنے وجود کی نفی کرے نہ اُسے باقی دنیا پر غیر معمولی ترجیح دے۔ توازن کی راہ اپناکر ہی بامعنی زندگی بسر کی جاسکتی ہے اور یہ راستہ الہامی مذاہب نے سُجھایا ہے۔