تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     15-06-2020

حزبِ اختلاف کی بد حالی

نظام کیسا بھی ہو‘ جمہوریت حزبِ اختلاف کے بغیر نہ رنگ نکھارتی ہے‘ نہ جماتی ہے۔ مخالف جماعتیں کمزور ہوں‘ بکھری ہوئی ہوں یا ان کی انتظامی اور قائدانہ صلاحیتیں اجلی نہ ہوں تو فقط شور ہی مچایا جا سکتا ہے‘ کچھ ہو نہیں سکتا۔ میرا مقصد پہلے ہی سے غیر مؤثر حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں پر چڑھ دوڑنا ہرگز نہیں‘ بلکہ کچھ معروضات پیش کرنے کی جسارت کرنا ہے کہ وہ کیسے با معنی جمہوری کردار ادا کر سکتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے زوال کی کہانی کافی طویل ہے۔ سب جانتے ہیں کہ تمام آمرانہ ادوار میں انہیں نہ صرف کمزور کیا گیا بلکہ ان کے حصے بخرے کر کے انہیں تباہ بھی کر دیا گیا۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ سامراجی نوکر شاہی کے اعلیٰ کل پرزوں نے آزادی کے فوراً بعد ہی مسلم لیگ کو دھڑوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیا تھا۔ نوآبادیاتی ورثے میں ہمیں ملنے والے غلام محمد‘ سکندر مرزا اور دیگر شخصیات‘ جو زیادہ مشہور نہیں ہیں‘ کے بارے میں کسی مؤرخ یا مبصر نے شاید ہی کوئی مثبت بات کہی ہو۔ وہ نوکر شاہی کھلم کھلا جمہوریت‘ آئین‘ انتخابات اور ہماری دھرتی سے جڑے سیاست دانوں سے نفرت کرتی تھی۔ ان کی اس وقت کی تقاریر سنیں اور تحریریں پڑھیں تو ان کا مزاج انگریز بادشاہوں سے کسی طور مختلف نہیں تھا۔ وہ بھی یہی کہتے رہے کہ پاکستان کے لوگ اپنی قبائلیت‘ ذات پات اور سماجی گروہ بندیوں کی وجہ سے جمہوریت کے لئے تیار نہیں‘ انہیں ایک مضبوط ریاست اور مرکزیت کے سہارے آئینی اور جمہوری نظام کے لئے تیار کرنا ہو گا۔
تب کی نوکر شاہی اور بعد کی سب آمرانہ حکومتوں کا خیال تھا کہ اگر کل اقتدار جمہوریت کے زور پر منتخب نمائندوں کے حوالے کیا گیا تو نہ جمہوریت رہے گی‘ نہ ہی سلامتی‘ اور پاکستان بھی ترقی نہیں کر سکے گا۔ ایوب خان نے اس فلسفے کو ایک مربوط شکل دے کر اپنے زیر تسلط صدارتی نظام چلایا تو اس نظریے کی حمایت میں کچھ مشہور امریکی جامعات میں موجود دانشور اش اش کر اٹھے۔ ایک نہیں کئی کتابیں لکھی گئیں‘ مضامین چھپے اور ایوبی منصوبہ بندی کو سیاسی دنیا میں ایک مثال کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ خاکسار اس بات کی تائید کرتا ہے کہ اس دور میں استحکام پیدا ہوا‘ ترقی ہوئی‘ صنعتی معیشت کی بنیاد رکھی گئی‘ تعلیم عام ہوئی‘ جس سے میرے جیسے دیہاتی بھی فیض یاب ہوئے اور پاکستان کی شناخت ایک ابھرتی ہوئی ریاست کے طور پر دنیا نے تسلیم کر لی۔ ہمارے حکیم‘ جو مقامی جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے کی مہارت رکھتے ہیں‘ کہتے ہیں کہ کیمیائی ادویات اثر تو جلدی دکھاتی ہیں‘ مگر صحت پر برے اثرات بعد میں بھگتنے پڑتے ہیں‘ فوائد فوری مگر کم اور نقصانات زیادہ رہتے ہیں۔ سیاسی نظام کی تشکیل میں بھی یہی ہوا۔ ایوب کے دور کے سیاسی اثرات نے لسانی شناخت کو جنم دیا‘ علیحدگی پسند مضبوط ہوئے اور مرکزی سیاسی جماعتیں اپنا سیاسی اثاثہ گنوا بیٹھیں۔
ہر آمرانہ دور میں‘ جس میں ذوالفقار علی بھٹو کا عوامی دور بھی شامل ہے‘ حزبِ اختلاف کے ساتھ رواداری کا سلوک نہ ہوا۔ انہیں جڑ سے اکھاڑ کر ختم کرنے کے لئے ریاستی اداروں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ زیادہ تر جماعتی سیاست دان ہوا کا رخ بھانپ کر عزت بچانے کے لئے خاموش ہو گئے یا ایوب خان‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ ضیاالحق اور پرویز مشرف کی قائم کردہ سیاسی جماعتوں میں جا گھسے۔ آمریت اور جمہوریت میں بنیادی فرق فلسفے اور عملی سیاست کا ہے۔ آمریت میں صرف آمر یہ اپنا حق اور فرض سمجھتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے‘ وہ ملک اور ریاست کے لئے ٹھیک ہے۔ دوسروں کی آواز نہ سنی جاتی ہے اور نہ ہی ان کی آرا کو کوئی اہمیت دی جاتی ہے۔ ہم نے اپنی اور دیگر ممالک کی تاریخ میں دیکھا کہ شخصی فیصلوں نے کیسے ساری قوم کو یرغمال بنا دیا۔ جمہوریت میں کوئی حتمی طور پر درست یا غلط ہو سکتا ہے۔ سیاسی سچائی کا تعین بات چیت افہام و تفہیم اور کچھ دے اور کچھ لے کے اصولوں پر ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا جمہوری روایت اور ثقافت ہمارے جمہوری ادوار میں آگے بڑھی ہے یا جو شکل و صورت آمرانہ ادوار میں قائم کی گئی‘ اس نے جمہوری روایت و ثقافت کو فروغ دیا؟ آپ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کو اقتدار نہیں ملا۔ اگر مکمل انتقالِ اقتدار نہ تھا تو اتنا کم اور ادھورا بھی نہیں تھا۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ سب جمہوری سیاسی جماعتوں کے دور میں ہم نا کامی‘ بد عنوانی اور لوٹ مار ہی دیکھتے رہے۔کچھ میں زیادہ‘ کچھ میں کم‘ کچھ میں کھلی چھٹی اور کچھ میں قانونی حربے۔ ماضی میںلاطینی امریکہ‘ مشرقی یورپ اور کچھ افریقی ممالک میں آمرانہ حکومتوں سے جمہوری حکومتوں کو اقتدار منتقل ہوا‘ ان سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں‘ بلکہ اس حوالے سے سیاسی فلسفہ اور تھیوری کا بھی وسیع ذخیرہ ہے‘ جس سے ہمارے جیسے ممالک مستفید ہو سکتے ہیں۔ بد عنوانی اور کرپشن سے سیاسی جماعتیں اندر سے کمزور ہو جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں جمہوری سیاست کی ساکھ کمزور ہو جاتی ہے۔ جب لوٹ مار کا بازار گرم ہوتا ہے تو سیاست میں شریف لوگ زیادہ نہیں ٹھہر سکتے۔ دولت کے سہارے‘ سیاسی خاندان ابھرتے ہیں اور انتخابی سیاست صرف ان کے تنگ دائروں میں محدود ہو جاتی ہے۔
ہماری سیاسی جماعتیں حزب اختلاف میں ہوں یا حکومتی اتحاد کا حصہ ہوں‘ سب کی بنیاد زیادہ تر شخصی‘ خاندانی اور دھڑے بندی ہے۔ ان کا پھیلائو نہ تو عوام میں ہوا ہے اور نہ ہی جماعتی سیاست کی جڑیں معاشرے میں گہری ہو سکی ہیں۔ آمرانہ ادوار کے منفی اثرات تیزی سے زائل ہو سکتے تھے‘ اگر آمریت کی جگہ موروثی سیاسی جماعتیں نہ لے لیتیں۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں‘ مذہبی سوائے جماعت اسلامی کے بھی اور لسانی بھی‘ موروثی ہو چکی ہیں۔ حزب اختلاف گروہ بندی سے نہیں اندرونی جمہوریت سے مضبوط ہو سکتی ہے۔ یہ نظام جب حکمران ٹولے کے لئے سیاسی بیساکھی سے کم نہیں‘ تو وہ اس کو چھوڑ کر سیاسی لنگڑے پن کا شکار کیوں ہونا پسند کریں گے۔ موروثی سیاسی جماعتوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے‘ ماہرین اور مخلص کارکنوں کے لئے گنجائش ہی نہیں رہتی‘ اس لئے تمام سیاسی جماعتیں جمود کا شکار ہیں۔ 
اب بھی وقت ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں صرف دفاع میں بولنے اور لکھنے والوں کی بھرتیاں نہ کریں بلکہ ان لوگوں کو اپنی صفوں میں جگہ دیں جو معروضی تجزیہ کر کے سچ کہنے کی جرأت کر سکیں۔ کسی بھی جماعت کی دسترس میں کوئی پالیسی ساز ادارہ نہیں۔ بجٹ ہو‘ اقتصادی‘ سماجی یا خارجہ پالیسی‘ ہر شعبے میں ماہرین پارٹی کے اندر بھی موجود ہوتے ہیں اور ان کی اعانت کے لئے ادارے بھی قائم کئے جاتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو بھی سیاسی جماعت اقتدار میں ہو‘ جب بجٹ پیش ہوتا ہے تو اسمبلی میں اتنا شور ہوتا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ جوشِ نفرت میں اور خالی مغز اور خالی عمل ہونے سے شور مچانے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ جمہوری روایت مختلف ہے۔ حکومت کے ساتھ تعاون کر کے متفقہ بجٹ بھی تیار ہو سکتا ہے۔ موجودہ بحران کے ہنگام ایسا بھی ہونا چاہئے تھا۔ حکومت ہو یا حزبِ اختلاف بات چیت کے راستے بند کر رکھے ہیں۔ حکومت کے مقابلے میں حزبِ اختلاف دلائل‘ شواہد اور شماریات کو سامنے رکھتے ہوئے متبادل بجٹ‘ قانون اور پالیسیاں بھی لا سکتی ہے۔ اس کے لئے کوئی بھی تیار معلوم نہیں ہوتا۔ چلو آئندہ برسوں کے لئے کچھ کرنا شروع کر دیں۔ ملکی سیاسی حکیموں کے علاج پر بھروسہ نہیں تو کچھ بیرونی نسخے ہی آزما لیں۔ سب حزبِ اختلاف کو توانا‘ تیار اور مؤثر دیکھنا چاہتے ہیں۔ نعروں اور نفرت سے نہیں‘ یہ تدبر اور عمل سے ممکن ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved