باشعور لوگ کورونا وائرس کی وبا سے پہلے بھی گھر سے نکلتے وقت خودکو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کیلئے فیس ماسک استعمال کرتے تھے اورجو شخص فیس ماسک استعمال کرتاتھا تو اسے سمجھدار ‘ صفائی پسند اور منفرد تصور کیاجاتاتھا‘ لیکن ماسک کااستعمال عام نہیں تھا ‘پھر کورونا وائرس کی خبریں آئیں تو اس عالمی وبا سے بچائو کیلئے فیس ماسک کااستعمال ایک اہم احتیاطی تدبیر کے طورپر پیش کیاگیا۔
چین اورامریکہ سمیت دنیا بھر میں تو ماسک کااستعمال ضروری سمجھا جارہاتھا اور اس کیلئے حکومتوں کو سختی کرنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آرہی تھی ‘کیونکہ ان ممالک کے باشندے اپنی صحت اورزندگی کی حفاظت کیلئے فیس ماسک کااستعمال ضروری سمجھ کر کررہے تھے ۔پاکستان میں بھی جب یہ وبا پھیلی تو عالمی ادارۂ صحت نے پاکستانی قوم کو بھی احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت کی۔ ہماری اپنی حکومت نے بھی اس وائرس سے بچنے کیلئے ڈبلیوایچ او کی ہدایات پرعمل کرنے کیلئے آگہی مہم شروع کی اورلوگوں کو بتایا کہ کورونا وائرس سے بچائو کیلئے اپنے ہاتھوں کو صابن سے باربار دھوئیں‘ فیس ماسک کااستعمال کریں‘ کام کے دوران اپنے اوردوسرے لوگوں میں کم ازکم چھ فٹ کاسماجی فاصلہ برقرار رکھیں‘ مصافحہ نہ کریں‘ گلے نہ ملیں‘ غیرضروری سفر سے پرہیز کریں‘ اجتماع والی جگہ پرہرگز نہ جائیں اور کورونا وائرس علامات کی صورت میں فوری طور پر 1033پر کال کریں۔
بیرون ممالک میں وبا کی تباہ کاریاں اور تیزی سے پھیلائو دیکھتے ہوئے پاکستانیوں نے بھی اورکسی احتیاطی تدبیر پر عمل کیا یا نہیں‘ لیکن فیس ماسک کااستعمال تیزی سے بڑھنے لگا۔ ہرطرف سڑکوں کے کنارے بھی ماسک کی فروخت شروع ہوگئی اور وہ فیس ماسک جو دس روپے میں خریدنا بھی ضروری نہیں سمجھتے تھے‘ وہی ماسک ‘بلکہ مزید کم معیار والا ماسک تیس سے چالیس روپے میں فروخت ہونے لگا اور اس کی مانگ اتنی بڑھ گئی کہ میڈیکل سٹوروں پر معیاری ماسک نایاب ہوگئے۔ عام شہریوں کی جانب سے فیس ماسک کے بڑھتے ہوئے استعمال کودیکھ کر خوش گوار حیرت ہوتی کہ قوم میں ایک مثبت تبدیلی پیدا ہوئی اور شعور آرہاہے‘ لیکن عین انہی دنوں جب پاکستان میں کورونا وائرس اپنے پنجے گاڑ رہاتھا تو کئی بعض ڈاکٹروں ‘ عوامی نمائندگان اور اعلیٰ حکام نے ٹی وی پر یہ کہا کہ '' فیس ماسک کااستعمال ہر فرد کیلئے ضروری نہیں۔‘‘ یہ بتایا جانے لگا کہ ضروری نہیں کہ کھانسی‘ نزلہ اوربخار کی عام علامات کورونا وائرس ہوں اور ہر آدمی کیلئے ماسک کااستعمال ضروری نہیں۔ کورونا وبا سے بچائو کیلئے آگہی مہم کے بینروں پر بھی اسی قسم کے پیغامات لہرائے جانے لگے ‘جن سے عام آدمی شش وپنج کاشکار ہوگیا کہ فیس ماسک کااستعمال ضروری ہے یانہیں ؟ کیونکہ ایک طرف ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن یہ کہہ رہی ہے کہ فیس ماسک لازمی استعمال کریں اورہماری وفاقی وصوبائی حکومتوں کی جانب سے بھی جاری کردی ایس اوپیز میں فیس ماسک کے استعمال پر پہلے تو صرف زوردیاگیا‘ لیکن بعد اسے لازمی قرار دے دیاگیا ‘لیکن دوسری طرف آج بھی راولپنڈی شہر کی اہم شاہراہوں پر کورونا احتیاطی تدابیر کی آگہی مہم کیلئے آویزاں کئی بینروں پر یہ تحریر موجود ہے کہ '' گھبرائیں نہیں‘ احتیاطی تدابیر اپنائیں‘ خبردار! وسوسے اور افواہ سے بچیں ‘ ماسک پہننا ہر فرد کیلئے لازم نہیں‘‘۔جب حکومتی سطح پر اس طرح کاتجاد سامنے آئے گا اور ایک طرف کہا جائے گا کہ فیس ماسک لازمی استعمال کریں اور دوسری جانب یہ بھی بیان جاری کیاجائے گا کہ ماسک ہرفرد کیلئے لازم نہیں تو پھر عام طبقے (کم پڑھے لکھے شہریوں) کے ذہن میں یہ بات ہی بیٹھے گی کہ ماسک ضروری نہیں اورپھر لوگوں نے احتیاط چھوڑ دینی ہے ‘جو اس وبا کے تیزی سے پھیلائو کا سبب بن سکتاہے‘ بلکہ بن رہا ہے‘اگر پہلے ماہرین طب یہ سمجھتے تھے کہ ماسک کا استعمال ہر فرد کیلئے ضروری نہیں‘ لیکن پھر وقت کے ساتھ جوں جوں اس مرض بارے تحقیقات ہورہی ہیں اور نئی چیزیں سامنے آرہی ہیں تو اب‘ اگر وہی ماہرین ِصحت یہ سمجھتے ہیں کہ ماسک لازمی ہے تو یہ کوئی برائی نہیں‘ بلکہ سائنسی تحقیقات میں کئی باتیں وقت کے ساتھ ثابت ہوتی رہتی ہیں اورکئی مفروضے جدید تحقیقات کے بعد تبدیل ہوجاتے ہیں ؛لہٰذا اگر اس وبا کی ابتدا میں یہ کہاگیا کہ ماسک ہر شخص کیلئے ضروری نہیں تو اس وقت اس وبا کی شدت بھی اتنی نہیں تھی‘ بلکہ یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ اس وقت یہ وائرس پاکستان کے صرف چند مخصوص علاقوں تک محدود تھا‘ لیکن اب یہ ملک کے کونے کونے میں پھیل چکاہے۔پہلے یہ وائرس کراچی اوربلوچستان کے کچھ علاقوں تک تھا ‘لیکن اب لاہور اور راولپنڈی زیادہ تیزی سے متاثر ہورہے ہیں‘ اس لئے اب ماہرین کا یہ کہنا کہ فیس ماسک ہر ایک کیلئے لازمی ہے تو یہ بالکل درست ہے۔ حکومت نے بھی سرکاری دفاتر کے باہر یہ تحریر آویزاں کر دی ہے کہ '' نو ماسک‘ نو سروس‘‘ جبکہ نجی اداروں نے اپنے دفاتر کے باہر نوٹس لگا دئیے ہیں کہ ''نو ماسک‘ نو انٹری‘‘ تو اس کامطلب یہی ہے کہ اب‘ حالات زیادہ سنگین ہیں اور ہمیں اپنی و دوسروں کی صحت و زندگی کی حفاظت کیلئے فیس ماسک کا استعمال ہرصورت کرنا چاہیے۔ انتظامیہ نے بھی کاروباری حضرات کیلئے ایس اوپیز پر عمل کرنا ضروری قرار دیا ہے اور تاجر برادری کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگر کسی دکاندار نے خود ماسک کااستعمال نہ کیا یا کسی خریدار کو بغیر ماسک دکان میں داخلہ دیاگیا تو ایسی دکان سربمہر کردی جائے گی۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی عملے اور مسافروں کیلئے فیس ماسک کااستعمال لازمی قرار دیاگیاہے۔ ٹرینوں میں سفر کرنے والے مردوخواتین کو بھی بغیر ماسک کے ریلوے سٹیشن میں داخلے کی اجازت نہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے سرکاری افسران اور ملازمین کیلئے بھی ماسک ضروری قرار دیاہے اور سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم عمران خان بھی ماسک پہن کر اجلاسوں میں شرکت کررہے ہیں ‘جو اس بات کاثبوت ہے کہ انسانی صحت کی حفاظت کیلئے موجودہ حالات میں ماسک پہننا بہت ضروری ہوگیاہے۔
سوشل میڈیا پر بعض دیگر ممالک کی تازہ تصاویر شیئر ہورہی ہیں کہ اب وہاں لوگوں نے فیس ماسک کااستعمال کم کردیاہے تو ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ وہاں اب وائرس پر بڑی حد تک قابو بھی پالیاگیاہے۔ ہم ماسک کے استعمال میں کیوں سستی کرتے ہیں؟ کیاہمیں اپنی جان بھی عزیز نہیں؟ہمیں چاہیے کہ فیس ماسک کے استعمال کو اپنی پختہ عادت بنائیں ‘تاکہ ہم اپنی صحت کوبھی یقینی بناسکیں اور اپنے عزیزواقارب کے ساتھ دوسرے لوگوں کی زندگیوں کوبھی محفوظ بناسکیں‘ کیونکہ ماہرین کاکہناہے کہ فیس ماسک کے استعمال سے کورونا وائرس کاخطرہ چالیس فی صد تک کم ہوجاتاہے اورہم اس وائرس کے ساتھ ماحولیاتی آلودگی سے بھی محفوظ رہتے ہیں توپھر یہ عہد کتناہوگا کہ آج سے ہم گھر کے اندر بھی فیس ماسک کااستعمال یقینی کریں گے ‘تاکہ اپنی فیملی کوبھی وبا سے بچا سکیں!