کسی سے بات کرنے کو جی نہیں چاہ رہا ۔نہ کسی کا پیغام دیکھنے کی ہمت ہے ۔نہ جواب دینے کا یارا۔چند سطریں لکھنی پڑ جائیں تو پہاڑ جیساکام لگتا ہے ۔ایک بوجھ ہے‘ جو ہلکا ہونے کی بجائے مسلسل اپنے وزن میں اضافہ کیے جاتا ہے ۔ایک سکوت ہے‘ جس کا خول توڑ کر کوئی گفتگو داخل نہیں ہوپاتی اور اس سکوت کے اندر ایک مکمل خلا ۔ایسا خلا‘ جس میں بہت کچھ ہے اور یہ سب کیوں نہ ہو ؟ میری پیاری پوتی ‘ میری لاڈو‘ڈیڑھ سالہ ہانیہ عثمانی اچانک منگل 9 جون کے دن ہمیںچھوڑ کر زیادہ پیار کرنے والوں کے پاس چلی گئی ۔ان کے پاس‘ جنہیں نہ کوئی رنج ہے‘نہ کوئی خوف ‘نہ کوئی بیماری ‘نہ کوئی وبا۔بس ‘ایک قرب ہے او رایک ہمیشگی۔نہ اس قرب جیسی نعمت کوئی اور ہے اور نہ اس ہمیشگی جیسی کوئی زندگی ۔ کیا مزے ہیں ‘بھئی ان کے ۔
میں کالم اپنے ذاتی احوال پر نہیں لکھا کرتا‘نہ ان کیفیات پر جو ذاتی حوالوں سے دل پر گزرتی ہیں ۔نہ اپنے گھرانے کے افراد پر ۔میں تو ان مشاعروں اور محفلوں کے ذکر سے بھی احتراز کرتا ہوں‘ جو بہرحال معاشرے اور ادب کا بھی حصہ ہیں اور میری ادبی زندگی کا بھی ۔کیا کروں کہ میں اس تاثر سے کبھی باہر نہیں آسکا کہ کچھ استثنائی مثالوں کے علاوہ ایسی تحریریںذاتی تشہیر اور حسنِ طلب سے کسی نہ کسی طرح منسلک ہوتی ہیں ۔ممکن ہے میرایہ خیال غلط ہو اور وقت اس کی درستی کردے‘ لیکن حال کی بات کریں تو حال یہی ہے ۔
تو پھر میں آج اپنے اس تازہ ‘گہرے اور ذاتی دکھ کو کیوں زبان دے رہا ہوں ۔ایک تو اس لیے کہ اس طرح کا سانحہ میں ذاتی نہیں سمجھ رہا۔دوسری وجہ یہ کہ میں اپنے کناروں سے باہر چھلکتے ہوئے اس غم سے باہرابھی کچھ بھی نہیں لکھ سکتا۔ کسی پیارے ‘دلدار ‘ لاڈلے اور لاڈلی کی جدائی ہر گھرانے ‘ہر خاندان اور ہر فرد کے تجربے اور گھاؤ بھری زندگی کا حصہ ہے ۔کم سن بچوں کی جدائی ۔ کسی ننھی پری کی اچانک وفات کا حادثہ ۔فرشتے جیسے کسی بچے کا انتقال ۔میں نے کبھی کوئی فرشتہ نہیں دیکھا ‘ لیکن میرا یقین کی حد تک پہنچا ہوا گمان ہے کہ فرشتوں اور چھوٹے بچوں میں صرف پروں کا فرق ہوتا ہوگا۔باقی معصومیت اور شکل صورت تو ایسی ہی ہوتی ہوگی۔
یہ نومبر‘دسمبر 2018کی بات ہے ۔میںامریکہ کے کسی شہر کے کسی ہوٹل کے کسی کمرے میں تھکن کی نیند سو رہا تھا۔جب چالیس دن کے اندرچودہ پندرہ ریاستوں‘تیس پینتیس شہروں‘بیس پچیس فلائٹوں اور لاتعداد ملاقاتوں کا مسلسل سفر ہو تو سب مقامات‘شہر اور چہرے گڈمڈ ہونے لگتے ہیں ۔شاید واشنگٹن ڈی سی کی بات ہے ۔رات تین بجے کے قریب فون کی گھنٹی نے دستک دے کر نیند کا دروازہ کھلوایا۔گفتگو کی دوسری طرف روشن دن تھا‘میرا بیٹا حسن عثمانی تھااور خوش خبری تھی ۔ہانیہ کا مطلب ہی خوش رہنے والی اورخوش خبری ہے اور اس کا مجھے انتظار تھا۔ایک ننھی پری ہمارے گھر اتری تھی اور اس کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے گھربھر میں تازہ اور خوشبو دار ہوا رقص کررہی تھی ۔میں نے اس کی تصویریں دیکھیں اورپھر ایک اطمینان بھری گہری نیند کی بانہوں میں اتر گیا ۔
اصل سے بیاج زیادہ پیارا ہوتا ہے ۔یہ حقیقت ہے اوریہ حقیقت اسی وقت کھلتی ہے جب انسان دادا ‘دادی ‘نانا ‘نانی کے مسند پر بیٹھ جاتا ہے ۔صرف بیٹھ نہیں جاتا باقاعدہ بوکھلا بھی جاتا ہے ۔وہ اس مسند پر بیٹھنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتا۔ارے یہ جو میں اتنا کم عمر سا ہوں ‘یہ جو میں اپنے بڑوں کا لاڈلا ہوں‘یہ جو میں ابھی اپنے آپ کو بوڑھا محسوس نہیں کرتا۔یہ جو میں ابھی بے فکری کے دور سے گزر رہا ہوں۔یہ جو میں اپنے دادا ‘ دادی ‘ نانا ‘نانی کی باتیں ذکر کرتا رہتا ہوں جو کل کی بات لگتی ہے ‘میں دادا یا نانا بن گیا ؟ وہ کیسے ؟اتنی جلدی ؟یہ سب لوگ مجھے دادا کہہ کر مبارک دے رہے ہیں تو میں خود کو دادا محسوس کیوں نہیں کر رہا ؟لیکن پھر یقین آنے لگتا ہے ۔قدم بہ قدم ۔ یہ جو پھولوں کی گٹھڑی میرے سامنے ہمک رہی ہے؟یہ جو مہکتا گلدستہ میرے اردگرد منڈلاتا‘مجھے چھوکر گزرتا رہتا ہے ؟یہ مجھے کیسے ملتے ؟اگر میں اس مسند پر نہ بیٹھا ہوتا؟ تویہ سب مل کر مجھے بتا رہے ہیں کہ زندگی کا ایک اور دور ختم ہوگیا اور ایک اور دور شروع ہوگیا۔ایک ایسا دور‘ جس کی زندگی پہلی زندگی سے متصل بھی ہے اور الگ بھی ۔
ڈیڑھ سالہ ہانیہ عثمانی میری پوتی ‘نامور شاعر انور مسعود کی پر نواسی ‘ڈاکٹر حسن عثمانی‘ آمنہ عثمانی کی بیٹی تھی۔ڈاکٹر راشد‘ڈاکٹر عدیلہ اس کے نانا نانی تھے۔دس پندرہ دن سے آمنہ اور ہانیہ اسلام آباد میں عدیلہ کے گھر تھے۔ہانیہ صحت مند تھی ۔چند دن پہلے اسے قے اور اسہال کی شکایت ہوئی ۔دوا اور احتیاط کے باوجود طبیعت بگڑتی گئی ۔منگل 9جون کو صبح ساڑھے آٹھ بجے کے قریب نیند ہی میں رخصت ہوگئی ۔ اللہ کی امانت ‘اللہ نے واپس لے لی ۔دونوں گھرانوں کیلئے یہ قیامت کی خبر تھی اور ماں باپ کے لیے جاں کاہ صدمہ۔سہ پہر کے بعد یہ سب عزیز بچی کو لے کر لاہور پہنچے اور مغرب سے پہلے ہم نے یہ پھول زمین کے سپرد کرکے اس پر مٹی ڈال دی ۔میرے والدین کے بالکل سرہانے ایک ننھی سی قبر کی گنجائش تھی۔ سو‘ وہاں اس کا اضافہ ہوگیا۔ہانیہ زیادہ پیار کرنے والوں کے پاس چلی گئی ۔
میرے والد مرحوم زکی کیفی کا شعر ہے: ؎
دل کا جو حال ہے لفظوں میں بیاں کیسے ہو
سانس لینا مجھے مشکل ہے فغاں کیسے ہو
بس اس وقت میرا یہی حال ہے ۔چند دن سے میں سخت گھبراہٹ ‘اداسی کا شکار تھااور وجہ سمجھ نہیں آرہی تھی ۔اس شام یہ وجہ بھی سمجھ میں آگئی ‘لیکن میں ان حالات میں لوگوں کو تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا؛ چنانچہ بالکل قریبی عزیزوں کے علاوہ کسی کو اطلاع نہیں دی اور فیس بک اور سوشل میڈیا پر بھی کسی کو نہیں بتایا ۔ مقصد یہی تھا کہ ان حالات میں لوگوں کو زحمت اور تکلیف سے بچایا جائے۔یہ اندازہ ہے کہ عزیز و اقارب کے علاوہ محبت کرنے والے بہت سے ہیں اور وہ سب آنا یا بات کرنا چاہتے ہیں ۔ بہت سے احباب کو کسی ذریعے سے اطلاع ہوگئی اور وہ پہنچ گئے یا فون اور پیغامات آتے رہے ۔میں بہت سی کالز نہیں سن سکا اور بے شمار پیغامات کا جواب نہیں دے سکا۔وجہ آپ سب جانتے ہیں ۔معذرت بھی کیا کروں‘لیکن ان سب کی دلی قدر ہے ۔اللہ ان سب کو سرسبز و شاداب رکھے ۔(آمین)
وبا کے ان سخت دنوں میں جب ہر طرف سے بری خبریں آرہی ہیں ‘میں اس تحریر کے ذریعے آپ کو کوئی اچھی اطلاع نہیں دے رہا اور مزید دکھی کر رہا ہوں ‘لیکن ان چند دنوں میں بے شمار عزیزوں ‘دوستوںکی طرف سے ایسی ہی خبریں مل رہی ہیں ۔جاننے والے جانے والے بن گئے ہیں ۔میرا زخم اپنی جگہ‘ لیکن ان سب کے گھاؤ مجھ سے زیادہ گہرے ہیں ۔ کیا تسلی دوں اور کیا مرہم رکھوں ؟میرے یہ شعر نئے نہیں ‘لیکن موجودہ حالات ہر روز انہیں تازہ تر کر رہے ہیں۔آپ ہی بتائیں ان کے سوا کیا پیش کروں؟؎
رنج کتنا بھی کریں ان کا زمانے والے
جانے والے تو نہیں لوٹ کے آنے والے
کیسی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی
کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے
ایک پل چھین کے انسان کو لے جاتا ہے
پیچھے رہ جاتے ہیں سب ساتھ نبھانے والے
لوگ کہتے ہیں کہ تو دُور افق پار گیا
کیا کہوں اے مرے دل میں اتر آنے والے!
جانے والے ترے مرقد پہ کھڑا سوچتا ہوں
خواب ہی ہوگئے تعبیر بتانے والے
ہر نیا زخم کسی اور کے سینے کا سعودؔ
چھیڑ جاتا ہے مرے زخم پرانے والے