تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     15-06-2020

اب ساری گیم ہے امیون سسٹم کی…( 2)

اب ‘جبکہ پاکستان میں کورونا مریضوں کی تعداد ہزار سے نکل کر لاکھ والی کیٹیگری میں داخل ہو چکی ہے تو اب معاملہ ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ ہاتھ ہے عید پر منائے جانے والے جشن کا ۔ جب مجھ سمیت گھروں میں بند پاکستانی اس طرح بھنگڑے ڈالتے ہوئے بازاروں میں داخل ہوئے ‘ جیسے برسوں کے بعد پنجرے سے نکلیں ہوں ۔ ایک چیز ہوتی ہے ‘ ذاتی جہالت۔میں ذاتی طور پر جتنا بھی جاہل ہوں ‘ اس سے کسی دوسرے کو فرق نہیں پڑتا ۔ ایک چیز یہ ہے کہ یہ جہالت قومی ٹی وی چینلز سے نشر ہو رہی ہو۔جس ملک میں لاکھوں پیروکار رکھنے والا ایک سابق بیوروکریٹ اورموجودہ اینکر نیوٹریشن کا ڈپلومہ رکھنے والے ایک شخص کو ''کنسلٹنٹ کلینکل نیوٹریشنسٹ‘‘ قرار دیتے ہوئے ٹی وی پر بھاشن جاری کرنے کا موقع عطا کردے اور یہ ''کنسلٹنٹ کلینکل نیوٹریشنسٹ ‘‘ یہ فرمائے کہ خدا نے قرآن میں کسی ویکسین ‘کسی کیموتھراپی اور کسی انسولین کا ذکر نہیں کیا ؛لہٰذا کالا گنڈا کھاکر ہی علاج کرنا چاہیے ‘ وہاں روکیں گے‘ آپ کورونا؟ جن لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ پولیو اور تپِ دق کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا کارنامہ ویکسین نے ہی انجام دیا تھا‘ انہیں آپ اورکیا سمجھائیں گے ؟
قرنطینہ سینٹروں میں لوگ کرکٹ کھیل رہے ہیں ۔ میرا جو ذاتی حلقہ ٔ احباب ہے استادِ محترم پروفیسر احمد رفیق اختر کے شاگردوں کا‘ اس میں ایک شخص بھی ماسک نہیں پہن رہا ۔ میں ان کے درمیان اکیلا ماسک پہن کر خود کو پاگل پاگل محسوس کررہا ہوتا ہوں ۔ پاکستان میں صرف چار پانچ فیصد لوگ سائنسی بنیادوں پر مکمل احتیاط کر رہے ہیں ۔ تیس چالیس فیصد نیم دلی سے اور باقی سرے سے کورونا کو مانتے ہی نہیں ۔ اس نیم دلانہ کوشش کا نتیجہ یہ ہے کہ کورونا کا پھیلائو نسبتاً محدود رہا‘ لیکن عید کے جشن کے بعد بات اب ہزاروں سے نکل کر لاکھ والی کیٹیگری میں منتقل ہو چکی ہے ۔ اب تیار ہو جائیے اپنے کمزوروں ‘ بیماروں اور بوڑھوں کے جنازے اٹھانے کے لیے۔ کچھ بوڑھے‘ البتہ جسمانی طور پر فٹ ہو تے ہیں اوران کا امیون سسٹم مضبوط ہوتاہے اور کچھ نوجوانوں کی صحت اور امیون سسٹم کمزور بھی ہو سکتا ہے ‘جس طرح نیوزی لینڈ ‘ چین اور آسٹریلیا وغیرہ نے سائنسی بنیادوں پر کوروناسے کامیاب جنگ کی‘ ویسی جنگ پاکستان اور بھارت میں ممکن ہی نہیں ۔ میں ذاتی طور پر جتنی بھی احتیاط کروں ‘ جب پندرہ بیس لوگوں کا میرے دوستوں کا پورا گروپ بغیر ماسک کے ایک دوسرے سے بغل گیر ہورہا ہوگا تو میں ان کے درمیان کس قدر احمق نظر آرہا ہوں گا ؟ پھر یہ عین ممکن ہے کہ بظاہر ماسک اور سینی ٹائزر کی ہر ممکن احتیاط کرنے والے شخص کو بھی کورونا لاحق ہو جائے۔ ایک خوردبینی وائرس ہے ‘ اس نے جسم میں داخل ہونا ہے ۔ایک لمحے کے لیے ماسک ذرا ڈھیلا ہوا اور ایک مریض زور سے کھانسا تو وائرس جسم کے اندر ۔ اس پر وہ لوگ ‘ جو کہ احتیاط نہیں کر رہے ‘ وہ احتیاط کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ یہاں سے‘ بلکہ اس مضحکہ خیز تھیوری کی پیدائش ہوتی ہے کہ جو احتیاط کرتا ہے ‘ اسے ہی کورونا لگتاہے ۔ 
سوا چار ارب سال پہلے ‘ کرہ ٔ ارض پہ جب زندگی پیدا ہوئی اور جب میڈیکل سائنس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا اور انسانوں کے علاوہ آج بھی کسی سپیشیز میں میڈیکل سائنس کا کوئی وجود نہیں تو جاندار اسی امیون سسٹم کے بل پر زندہ رہتے تھے۔ یہی امیون سسٹم ہے ‘ جس کی وجہ سے نیم حکیموں اور اطائیوں کی موجیں لگی ہوئی ہیں ۔ یہ امیون سسٹم بغیر کسی معاوضے پر کسی بھی وائرس یا بیکٹیریا کی شناخت کرتاہے اور اس سے لڑنے کے لیے اینٹی باڈیز پیدا کرتاہے ۔ یہ صرف انسانوں میں ہی نہیں‘ بلکہ تمام جانوروں میں بھی پایا جاتاہے ۔ یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ جانور نالی کا پانی پی رہے ہیں‘ لیکن انہیں کچھ نہیں ہورہا ‘ یہ اسی امیون سسٹم کا شاخسانہ ہے ۔ اللہ نے کرۂ ارض پہ جب زندگی کو پیدا کیا تو اپنی صفتِ رحم کے تحت سب جانداروں کو امیون سسٹم عطا کیا۔ یہ امیون سسٹم ہی ہے ‘ جس کی وجہ سے جنگلات میں زندگی گزارنے والے کھربوں جانور ‘ ساری زندگی‘ جنہیں کبھی کوئی ڈاکٹر نصیب نہیں ہوا ‘ وہ بھی پندرہ پندرہ ‘ بیس بیس سال زندہ رہتے ہیں ۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ میڈیکل سائنس کا کردار کیا ہے ؟میں یہ سمجھتا ہوں کہ میڈیکل سائنس تو اللہ کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت اور معجزہ ہے ‘ جس کی وجہ سے شدید بیمار لوگ بھی دوبارہ صحت یاب ہو جاتے ہیں ۔جو لوگ خودکشی کا ارادہ کر رہے ہوتے ہیں ‘ وہ ذہنی علاج کے بعد ٹھیک ہو جاتے ہیں ۔ جانوروں میں تو زیادہ بیمار ہونے کا مطلب یقینی موت ہے ۔ ادھر آپ کی طبیعت خراب ہوئی‘ آپ کی چستی اور پھرتی میں فرق آیا ‘ ادھر کوئی درندہ آپ کو چیرپھاڑ دے گا۔ جانوروں میں کینسر کا مطلب یقینی موت ہے ۔ ٹی بی کا مطلب یقینی موت ہے ۔ جانوروں اور پرندوں میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جو بچّہ بیماراور کمزور ہو ‘ تو والدین اسے مرنے کے لیے چھوڑ کر اپنی تمام تر توجہ صحت مند بچوں پر مرکوز کر دیتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ انسان کے علاوہ تمام سپیشیز کے جانوروں کی تعداد محدود ہے ۔ انسان 7ارب سے بھی اوپر نکل گیا ہے ۔ یہ سب میڈیکل سائنس کا کمال ہے ۔ جانوروں میں ایسا تھوڑی ہوتاہے کہ کسی کا جگر فیل ہو جائے اور اسے وینٹی لیٹر پر لگا کر کسی اور کا جگر ٹرانسپلانٹ کر کے اسے دوبارہ زندگی کی طرف لے آیا جائے ۔ اب تو وہ زمانہ آنے والا ہے کہ آپ کے ناکارہ ہو جانے والے اعضا آپ کے اپنے جسم سے لیے گئے سٹیم سیلز کی مدد سے دوبارہ تخلیق کر دیے جائیں گے ۔ خیر ‘اب سخت احتیاط کرنے والے دوچار فیصد لوگوں کے علاوہ کورونا کی برکات ہر پاکستانی تک پہنچیں گی ۔ مضبوط امیون سسٹم اور صحت والے لوگ لوٹ پوٹ کر ٹھیک ہوجائیں گے ۔ ایک سے دو فیصد لوگ مر جائیں گے۔ یہ اب نوشتہ ٔ دیوار ہے ۔ سخت احتیاط نہ کرنے والوں کے علاوہ باقی لوگوں کیلئے اب ‘ساری گیم ہے امیون سسٹم کی !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved