انڈین ائر فورس کے ائر مارشل پرناب کمار جب ویسٹرن ائر کمانڈ کے چیف کی حیثیت سے فرائض سر انجام دے رہے تھے‘ توانہوں نے بھارت کے وزیر اعظم‘ وزیر دفاع ‘ ائر چیف مارشل سمیت کسی بھی مجاذ اتھارٹی کو بتائے بغیر 16,614 فٹ بلندی پر دنیا کی سب سے اونچی ائر فیلڈ (ایڈوانس لینڈنگ گرائونڈ) تیار کروالی تھی۔ آج یہ مضمون لکھنے کی ضرورت اس وجہ سے بھی پیش آئی کہ ان ایڈوانس لینڈنگ گرائونڈز کو گزشتہ ہفتے انڈین ائر فورس نے لداخ میں چین کی پیش قدمی یا کسی بھی ممکنہ جنگ کی تیاریوں کیلئے پھر سے کار آمد بنا لیا ہے اور دوسرا محرک اب تک پرویز مشرف کو نون لیگ کا طعنہ دینا ہے کہ انہوں نے کارگل کا محاذ ہم سے پوچھے بغیر کیوں فتح کیا؟
جب پرناب کمار نے یہ ائر فیلڈ تیار کرائیں تو اس وقت اے کے انتھونی بھارت کے وزیر دفاع تھے اور اس ائر فیلڈ کی تیاری کیلئے وزارت دفاع اور وزیر اعظم من موہن سنگھ سمیت ائر چیف مارشل سے ویسٹرن ائر کمانڈ نے کسی قسم کا زبانی یا تحریری اجا زت نامہ تک حاصل کرنا منا سب نہیں سمجھا ‘کیونکہ یہ ایک ایسا خفیہ عمل تھا‘ جس پر چین اور بھارت کے درمیان وسیع پیمانے پر سرحدی اور فضائی جھڑپیں شروع ہو سکتی تھیں۔ دنیا میں کسی بھی مقام یا حصے میں ہونے والی فوجی جھڑپوں یا محدود جنگ او رکھلی جنگ کیلئے سیکٹر کا ذکر ضرور آتا ہے۔ اس وقت چین اور بھارت کے درمیان( دولت بیگ اولڈی) ہو گا ۔اس وقت بھی بھارت کی بارڈر روڈ آرگنائزیشن اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی چین کے ساتھ سرحدی کشیدگی کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی بھی ایمر جنسی کیلئے جنوبی کشمیر کی سری نگر جموں نیشنل ہائی وے پر ہوائی پٹی تیار کر رہی ہے۔ بھارتی وزارت ِ دفاع کے مطابق ‘اس کا چین یا پاکستان کے ساتھ کسی جنگ سے کوئی تعلق نہیں‘یہ ہمارا پہلے کا تیار کیا گیا فوجی منصوبہ ہے ‘جسے ہم اب مکمل کر رہے ہیں‘ لیکن اگر اس علاقے کا دفاعی نقطۂ نظر سے جائزہ لیں تو یہ ہوائی پٹی جس کی لمبائی کوئی3.5 کلو میٹر بنتی ہے‘ نیشنل ہائی وے کے درمیانی حصے سری نگر جموں کے جنوب میں بج بیہارا کے علاقے میں تعمیر کی جا رہی ہے۔
مذکورہ تمام مشن صرف ائر چیف آف ویسٹرن کمانڈ ائر مارشل پرناب کمار تک محدود رہا اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت کی منتخب سرکار کو کانوں کان خبر ہی نہ دی گئی۔ پرناب کمار کے مطا بق‘ جب انہوں نے2008ء میں بطور چیف آف ویسٹرن ائر کمانڈ کا چارج لیا‘ جو لداخ سے راجستھان کے صحرائوں تک محیط تھا اور اس کی کمانڈ میں انڈین ائر فورس کے60 ائر فیلڈ آتے تھے۔ اپنی ان ذمہ داریوں کو سنبھالتے ہی اس نے پلاننگ شروع کر دی کہ ہماری ائر فورس اپنی بری فوج اور پیر املٹری فورسز کو ان انتہائی دشوار گزار اور بہت سی جگہوں پر ناقابل عبور جگہوں پر فوری طور پر کس طرح ٹرانسپورٹ سمیت اسلحہ کی فراہمی اور ہوائی شیلڈ دے سکتی ہے ۔ان کے سامنے لداخ اور دولت بیگ اولڈی سوالیہ نشان بن کر کھڑے ہو گئے ‘ جس پرفیصلہ کیا گیا کہ لداخ کیلئے راجستھان اور اس کے صحرائوں سے ہٹ کر ایڈوانس لینڈنگ گرائونڈز تیار کی جائیں اور س کیلئے تھوئسی‘ چوشل‘اور فکچی کو اولیت دی گئی‘لیکن ان سب سے بڑھ کر دولت بیگ اولڈی کو فوقیت دی گئی‘ کیونکہ بحیثیت ِ ویسٹرن کمانڈر انچیف میرے سامنے سٹرٹیجک صورتِ حال کے مطا بق‘ اگر انڈیا یہ ہوائی پٹی تیار کر لیتا ہے تو اس سے دو زبردست عسکری فائدے حاصل ہوجاتے ہیں۔اول: یہ دنیا کی سب سے بلند ہوائی پٹی بن جاتی اور دوسرا یہ قراقرم پاس سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہونے کی وجہ سے عسکری لحاظ سے انتہائی کار آمد ہو گی۔
ائر چیف ویسٹرن کمانڈ پرناب کمار کہتے ہیں کہ ان ہوائی پٹیوں کی تیاری کیلئے انہوں نے پانچ دفعہ وزارت دفاع سے منظوری حاصل کرنے کیلئے اسے خط لکھا ‘لیکن ان کی کسی ایک بھی درخواست کو منظور نہ کیا گیا۔آخر فیصلہ کیا کہ اگر ایک مرتبہ پھران ایڈوانس لینڈنگ گرائونڈز کیلئے وزارت دفاع یا حکومت سے اجازت نامہ حاصل کرنے کیلئے فائل تیار کر کے بھیجی تو نتیجہ وہی پہلی پانچ فائلوں جیسا ہی نکلے گا ۔سو ‘اس دفعہ میں نے فیصلہ کیا کہ کسی سے کوئی اجا زت نہیں لینی‘ کسی کو بھی کچھ نہیں بتانا اور یہ سب نئی دہلی کو بتائے بغیر خفیہ طور پر ہی کرنا ہو گا۔ اس کیلئے دولت بیگ اولڈی جو اس وقت بھارت چین کے درمیان انتہائی خطرناک سرحدی مقام بن چکا ‘ وہاں ہوائی پٹی بنانے کا حکم دے دیا اور اس کیلئے میں نے اپنی فضائی زیر کمانڈ حصے میں انڈین آرمی کی ویسٹرن کمانڈ اور ائر فورس کے کچھ افسران کو ہی اعتماد میں لیا اور ان سب نے اسے ایک عظیم قومی فریضہ اور دفاعی نقطہ نگاہ سے بہترین قرار دیتے ہوئے میرا ساتھ دینے کا یقین دلایا۔ دیکھا جائے تو فوجی قوانین اور ڈسپلن کے نقطہ نظر سے ہم سب سنگین جرم کر رہے تھے اور اس جرم پر جس میں وزارت دفاع‘ وزیر اعظم کو دھوکہ دیتے ہوئے لاعلم رکھ کر ایک متنازع علاقے میں فوجی تعمیرات کرنے پر ہم سب کا کورٹ مارشل ہو سکتا تھا‘لیکن سب نے دشمن پر اپنی سبقت اور مضبوط دفاعی پوزیشن سمیت قراقرم پاس کو لمحوں میں اپنی زد میں لینے کے فوائد سامنے رکھتے ہوئے یہ رسک لے لیا۔
جیسے ہی ہم ایڈوانس لینڈنگ گرائونڈ کی تکمیل کے قریب پہنچے تو میں نے فیصلہ کیا ہوائی پٹی پر جہاز اتارنے سے پہلے جس کیلئے31 مئی 2008ء کی تاریخ رکھی گئی تھی ‘تمام سینئر کو بھی آگاہ کردوں تو آرمی چیف جنرل دیپک کپور اور انڈین ائر فورس کے ائر چیف مارشلFali Homi Major کو دہلی ائر فورس کے گولف کورس جا کر بتا یا وہ کچھ پریشان بھی ہوئے‘ لیکن ان کیلئے اس وقت خاموشی ہی بہتر تھی ‘کیونکہ ان کیلئے مسئلہ کھڑا ہو سکتا تھا۔ پرناب کمار کہتے ہیں کہ اس وقت کے وائس چیف آف ائر سٹاف پردیپ نائک کو بھی زبانی طو رپر بتا دیا‘ جسے سنتے ہی وہ بھونچکا سے رہ گئے اور ایک لمحے کیلئے ان کے چہرے کا رنگ اڑ گیا ۔ ایک طرف بھارتی ائر فورس کی ویسٹرن کمانڈ کا ائر چیف ہے‘ جس نے تمام اصول و ضوابط کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے پوری حکومت کو دھوکے میں رکھ کربتائے بغیر ایسی جگہوں پر ائر فیلڈ تیار کیں‘ جن کا چین سے تنازع چلا آ رہا ہے‘ جو کسی بھی جنگ کی صورت میں اور دنیا بھر میں بھارت کی بد نامی کی صورت میں نکل سکتا تھا اور دوسری جانب22 برس ہونے کو ہیں‘ لیکن پرویز مشرف تنقید کی زد میں ہیں کہ انہوں نے کارگل پر قبضہ کرنے سے پہلے نواز شریف سے اجا زت کیوں نہیں لی؟ بائیس برس بعد بھی کچھ لوگ ‘ پرویز مشرف اور کارگل جنگ میں ان کے ساتھیوں کو سزا دینے کے مطالبے سے کم پر راضی ہی نہیں ہو رہے‘ جبکہ پرناب کمار کو وائس ائر چیف کے عہدے پر ترقی دی گئی اور وہ31 دسمبر2010 ء کو اپنی سروس مکمل کر کے با عزت ریٹائر ہوچکے ہیں۔