جب خرابیوں کا ذکر چھڑ جائے تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ابتداء کہاں سے کی جائے اور کس کس خرابی کا رونا رویا جائے؟ خرابیوں کی ایک بُری عادت یہ ہے کہ یہ آپس میں یعنی ایک دوسری کو ضرب دیتی چلی جاتی ہیں۔ کسی میں کوئی ایک بڑی خرابی پائی جاتی ہو تو وہ تنہا نہیں رہتی‘ بہت جلد وہ اپنے لیے سکھیاں تلاش کرلیتی ہے اور اگر نہ ملیں تو پیدا کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتی۔ ایک خرابی دوسری خرابی کو راہ دیتی ہے‘ گلے لگاتی ہے۔ یوں زندگی کا ہر معاملہ الجھتا چلا جاتا ہے۔ ہم بہت سے معاملات میں پستی کی نذر ہوچکے ہیں۔ یہ پستی ویسے تو ہر سطح پر اور ہر شعبے میں نمایاں ہے‘ مگر معاشرتی معاملات زیادہ بگڑے ہوئے ہیں۔ ہم معاشرتی سطح پر بلند ہونے کے حوالے سے کبھی سنجیدہ نہیں ہوتے۔ یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے ‘جسے حل کرنے کو کبھی خاطر خواہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ معاشرتی بُرائیوں اور خرابیوں نے معاشی امور کو بھی پستی کی طرف دھکیل دیا ہے‘ جس میں معاشرتی سطح پر عیوب پائے جاتے ہیں‘ وہ معاشی معاملات میں بھی راہِ راست پر نہیں رہ پاتا۔ ایسے میں تجارتی اور پیشہ ورانہ امور میں اپنے فرائض سے نظر چرانا عام سی بات ہے۔ ہر پس ماندہ معاشرے کا یہی المیہ ہے۔
معاشرت ہاتھ سے جاتی رہے تو معیشت کو بھی گیا ہی سمجھیے۔ دنیا کا تجزیہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہمیں تو اپنے گریبان میں جھانکنا ہے۔ بہت سے معاشروں میں اچھی خاصی خرابیاں اور بُرائیاں پائی جاتی ہیں۔ اُن معاشروں پر نظر ڈال کر اِس خیال سے مطمئن ہو رہنا درست نہیں کہ جب بہت سی خرابیوں اور بُرائیوں کے ساتھ وہ بھی جی رہے ہیں تو ہم بھی جی ہی لیں گے۔ کون کیسا ہے‘ یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔ ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ ہم وقت یا حالات کے تقاضوں کے مطابق‘ خود کو بدلنے میں کامیاب ہو پائے ہیں یا نہیں۔ خرابیوں کو پروان چڑھاتے رہنے کے نتیجے میں کئی معاشرے شدید ذلت کے گڑھے میں گِرے ہوئے ہیں۔ ہمیں ذلت کے گڑھے میں گرنے کی عادت یا مشق ترک کرنی ہے۔
تبدیلی کی طرف مائل کرنے والے محرّکات کی کمی نہیں۔ اپنے ماحول پر نظر دوڑائیے تو ایسا بہت کچھ دکھائی دے گا‘ جو کسی بھی طور قابلِ برداشت نہیں۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر خرابیوں کی بھرمار ہے‘ مگر ہم آنکھیں بند کیے ہوئے اپنی پسند کی ڈگر پر چلے جارہے ہیں۔ ہمیں بظاہر اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ جس ڈگر پر ہم چل رہے ہیں وہ خیر کی طرف لے جائے گی یا ہمیں مزید شَر سے دوچار کرے گی۔ جہاں سنجیدگی نہ ہو‘ وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہم کم و بیش ہر معاملے میں غیر سنجیدہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ذاتی تعلقات سے کاروباری معاملات تک ہر سطح پر عدم سنجیدگی کا راج ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی کو بھی اس بات سے اب کچھ غرض نہیں رہی کہ کسی بھی سطح پر سنجیدگی کو زندگی کی ایک انتہائی بنیادی قدر کے طور پر اپنایا جائے۔ ہم دن رات سوشل میڈیا پر اصلاحی ویڈیوز دیکھتے اور آڈیوز سنتے ہیں‘ مگر اُس کا اثر ہم پر برائے نام بھی نہیں ہوتا۔ کسی کا خطاب سُن کر سَر دُھننے اور اُس خطاب کے مندرجات کی روشنی میں اپنے آپ کو تبدیلی کے لیے تیار کرنے میں بہت فرق ہے۔ سنجیدگی کا دامن تھامنے والے ہی کچھ سوچ پاتے ہیں‘ کر پاتے ہیں۔
ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں‘ جس میں محنت کو آج بھی بنیادی قدر کا درجہ نہیں۔ یہ بات عجیب سی لگتی ہے‘ مگر حقیقت پر مبنی ہے۔ محنت ہم سب کرتے ہیں ‘مگر محنت کو جو مقام ملنا چاہیے ‘وہ اُسے نہیں دیا جاسکا۔ یہی سبب ہے کہ ہم آج بھی محنت کرنے والوں کی قدر کرتے ہیں‘ نہ اُنہیں وہ احترام دے پاتے ہیں‘ جو اُن کا حق ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ محنت کے بغیر زندگی بسر کرنے والوں کو تو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے‘ مگر محنت کے معاملے میں جان کی بازی لگانے والوں کو احترام نہیں ملتا۔ کوئی شخص صاف ستھرے کپڑوں میں ہو تو ہماری توجہ کا مرکز بن جاتا ہے‘ مگر سینے پر آگ جھیل کر تنور میں روٹیاں لگانے والے کو ہم بالعموم بے اعتنائی اور بیزاری کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہر روٹی لگانے اور نکالنے کے لیے سینے پر تنور کی آگ جھیلنے والا بالعموم اس قابل نہیں ٹھہرتا کہ ہم اُس سے رسمی دعا سلام سے آگے کا کوئی تعلق رکھیں۔ ہم میں سے ہر ایک کے ماحول میں ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں ‘جو اپنے منصب کا حق ادا نہیں کرتے‘ یعنی پوری دیانت کے ساتھ کماحقہ محنت نہیں کرتے ‘مگر پھر بھی ہم اُن سے تعلقات استوار رکھنے‘ بلکہ اُن کا احترام کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ پوری سنجیدگی اور دیانت کے ساتھ کی جانے والی محنت ہماری بنیادی یا اہم ترین اقدار کا حصہ نہیں۔ پاکستانی معاشرے میں کسی لالچ یا غرض کے بغیر‘ پوری دیانت کے ساتھ محنت کرنے والوں کو احترام کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ معاملہ صرف یہاں ختم نہیں ہوتا۔ دوسری طرف اُنہیں زیادہ وقیع تصور کیا جاتا ہے‘ جو بظاہر کچھ نہیں کرتے۔ محنت کی عظمت سے انکار ہی نے معاملات کو اِس حد تک بگاڑا ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں اچھی خاصی تعداد اُن لوگوں کی ہے ‘جو محنت کے بغیر مزے سے جی رہے ہیں۔ ایسے گھرانے لاکھوں ہیں‘ جن میں کوئی ایک فرد کچھ بھی نہیں کرتا اور مزے سے جیتا ہے اور ایسے گھرانے بھی اچھی خاصی تعداد میں ہیں ‘جن میں کئی افراد کچھ کیے بغیر یا زیادہ محنت کیے بغیر تمام بنیادی سہولتوں اور آسائشوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ جس طور کسی درخت پر آکاس بیل ہوتی ہے ‘جو درخت سے توانائی پاکر پلتی ہے‘ بالکل اُسی طور محنت نہ کرنے والے بھی طُفیلیوں کی مانند ہوتے ہیں‘ جو دوسروں کی کمائی پر پلتے ہیں‘ یعنی حرام و حلال کے فرق کو نظر انداز کرکے سُکھ چین یقینی بنانے والوں پر اُنہیں ترجیح دی جانی چاہیے جو بھرپور محنت کر کے دوسروں کا حق ادا کرتے ہیں۔