تین روز پیشتر وفاقی بجٹ کا اعلان کیا گیا‘ جس میں تعلیم کیلئے مختص بجٹ ضرورت سے کہیں کم ہے۔ کوئی بھی بجٹ قومی ترقی کے مختلف اہداف کیلئے سرمائے کی فراہمی کا تعین کرتا ہے۔ تعلیم کیلئے ناکافی بجٹ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پالیسی سازوں کے نزدیک تعلیم کے شعبے کی اہمیت کتنی کم ہے۔ کیا واقعی تعلیم ایک غیر ضروری شعبہ ہے؟ کیا تعلیم اور ترقی کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں؟ اس بات کا جائزہ ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے کیلئے اہم ہے۔ انسانی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تعلیم اور ترقی کا باہمی رشتہ قوموں کے عروج و زوال میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان فرق دراصل علم کا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا ہے تو ہمیں علم تخلیق کرنا ہو گا اور اس کیلئے تعلیمی اداروں کا کردار بنیادی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ترقی کی شاہراہ پر سفر کیلئے معیاری تعلیم کا ساتھ انتہائی اہم ہے۔ تعلیم کی اہمیت کا اندازہ قائداعظم محمد علی جناح کو شروع سے تھا۔ پاکستان بننے کے بعد پہلی تعلیمی کانفرنس میں انہوں نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ تعلیم ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے‘ یعنی اگر ہمیں عہدِ جدید میں وقار سے زندہ رہنا ہے تو تعلیم کو مرکزی حیثیت دینا ہو گی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہمیں جن اہم تعلیمی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ان میں سب سے بڑا چیلنج بچوں کی سکولوں تک رسائی کا تھا۔ اس زمانے میں سکولوں کی تعداد آبادی کیلئے ناکافی تھی۔ یہ چیلنج جس سے شروع ہی سے سنجیدگی سے نمٹنا چاہیے تھا وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا۔ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک بہت سی تعلیمی پالیسیاں آئیں جن میں خوش نما وعدے کیے گئے۔ خواندگی کے مطلوبہ اہداف کے حصول کیلئے Deadlines دی گئیں‘ لیکن عملی طور پر اس کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہ کیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھی ان بچوں کی تعداد اڑھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے جو سکول تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔
سکولوں تک رسائی کے اس چیلنج کے ساتھ جڑا ہوا دوسرا چیلنج Dropout کا تھا۔ پاکستان دنیا میں دوسرا بڑا ملک ہے جس میں سب سے بڑی تعداد میں بچے سکول چھوڑ جاتے ہیں۔ یوں سکول چھوڑنے والے یہ بچے بھی ان بچوں کے سمندر میں شامل ہو جاتے ہیں جو سکول کی دہلیز تک پہنچنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اس طرح پاکستان‘ جو اس لحاظ سے خوش قسمت ملک ہے کہ اس کی آبادی میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے‘ اپنے اس Advantage کا صحیح استعمال نہیں کر سکا‘ اور نوجوانوں کی بڑی تعداد جو اس کا سرمایہ بن سکتی تھی‘ خدشہ ہے کہ تعلیم سے محرومی کے باعث وہ ذمہ داری میں نہ بدل جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ہمارے ترقی کے سفر میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوگی۔
اب آئیے ان بچوں کی طرف جو سکولوں تک رسائی حاصل کرنے کے اختیارات ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ انہیں جو تعلیم دی جا رہی ہے اس کا معیار کیا ہے حالیہ کئی تحقیقاتی رپورٹس میں یہ بات واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ بچوں کی اکثریت کا علمی معیار اس درجے سے کم ہے جس میں وہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔معیار کے ساتھ جڑا ہوا ایک اور اہم چیلنج یہ ہے کہ جو تعلیم ہمارے تعلیمی اداروں میں دی جا رہی ہے کیا وہ معاشرے کی ضروریات اور عملی زندگی کے چیلنجز سے مطابقت رکھتی ہے؟ بدقسمتی سے اس سوال کا جواب بھی ہم اعتماد کے ساتھ اثبات میں نہیں دے سکتے۔اور پھر سب سے اہم سوال کہ کیا ہم اپنے بچوں کو اکیسویں صدی کے چیلنجز کیلئے تیار کر رہے ہیں؟ کیا تعلیمی اداروں کے نصاب میں اکیسویں صدی میں کام آنے والی مہارتوں مثلاً کریٹیکل تھنکنگ‘ کمیونیکیشن‘ Creativity اور Collaboration شامل ہیں؟ کیا ہمارے سکولوں کی اکثریت طالبِ علموں میں سوچنے اور تجویز کرنے کی صلاحیت پیدا کر رہی ہے؟ بدقسمتی سے ان سوالات کے جوابات بھی نفی میں ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہ فرسودہ نظام ہے جس میں تخلیقی سوچ کی کوئی گنجائش نہیں‘ جس میں طالبِ علم کے سوالات اور اس کی سوچ پر پہرے بیٹھا دیے جاتے ہیں‘ جس میں اگر طالبِ علم کسی سوال کے جواب میں اپنی سوچ کا استعمال کرے تو اس کے نمبر کاٹ لیے جاتے ہیں۔ یوں طالب علموں کو شروع ہی سے تعمیل کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام تخلیقی سوچ کے بجائے یادداشت کا امتحان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اساتذہ اور طلبا کی پوری کوشش ہوتی ہے سوالات کے جوابات یاد کر لیے جائیں تاکہ امتحان میں اچھے گریڈ کا حصول یقینی بنایا جائے۔
اب ہم تعلیم میں بہتری کیلئے حکومتی کردار پر بات کرتے ہیں۔ 2010ء میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے تعلیم صوبوں کے سپرد کر دی گئی۔ یہ ایک اہم فیصلہ تھا جو مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی کشمکش کی نذر ہو گیا۔ آئین میں ایک اہم آرٹیکل 25-A کا اضافہ کیا گیا جس کے مطابق ریاست سولہ سال تک کے عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ دار ہو گی۔ یہ ایک خوش آئند فیصلہ تھا لیکن اس کے عملی نفاذ کیلئے جن اقدامات کی ضرورت تھی وہ نہیں کیے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کا نمبر ڈویلپمنٹ انڈیکس میں بہت بہت نیچے آ گیا ہے۔ یو این ڈی پی کی 2019ء کی رپورٹ میں 189 ممالک کی ڈویلپمنٹ انڈیکس کی فہرست دی گئی ہے۔اس فہرست میں پاکستان 152ویں نمبر پر ہے۔ یہ صورتحال پالیسی سازوں کیلئے تشویش کا باعث ہونی چاہیے۔اس ساری صورتحال کے تجزیہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک حکومتیں تعلیم کے حوالے سے بلند بانگ دعوے تو کرتی رہیں لیکن ٹھوس عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ خوش نما پالیسیاں بنانے والوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اصل چیلنج ان پالیسیوں کا نفاذ ہے اور اس کیلئے ضروری ہے تعلیم کے حوالے سے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔ جنوبی ایشیا کے ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلیمی بجٹ کا مقابلہ کیا جائے تو یہ انتہائی کم ہے۔
2009ء کی تعلیمی پالیسی میں یہ تجویز کیا گیا تھا کہ تعلیم کیلئے جی ڈی پی کا سات فیصد مختص کیا جائے‘ لیکن وہ یہ خواب تھا جس کی تعبیر آج تک نہ مل سکی۔حالیہ بجٹ میں وفاقی سطح پر تعلیم کیلئے جس بجٹ کا تعین کیا گیا ہے اس میں اضافے کے بجائے کمی ہوئی ہے۔ معروف ماہرِ معاشیات ڈاکٹر وقار احمد کے مطابق 2018-19ء کے بجٹ میں یہ رقم کل وفاقی اخراجات کا 1.83 فیصد تھی جو 2019-20ء کے بجٹ میں کم ہو کر 1.35 فیصد رہ گئی۔ 2020-21ء کے بجٹ میں مزید کم ہو کر 1.34 فیصد رہ گئی۔ اس بجٹ میں تعلیم کیلئے جی ڈی پی کا کتنے فیصد تعلیم کیلئے مختص کیا گیا ہے؟ اس کا درست تعین صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب چاروں صوبوں کے بجٹ کا اعلان ہو جائے گا‘ لیکن غالب امکان ہے کہ یہ بجٹ بھی دو کے لگ بھگ ہو گا۔طاقت کا جدید تصور روایتی اسلحہ نہیں بلکہ وہ تعلیمی مہارتیں ہیں جو کسی قوم کے افراد میں پائی جاتی ہیں۔ ایسے میں چند سوالات کے جوابات اہم ہیں: کیا ہم تعلیم کو ملکی ترقی کا اہم ہدف سمجھتے ہیں؟ کیا ہم تعلیم کیلئے اپنے بجٹ کا مناسب حصہ مختص کر رہے ہیں؟ ان سوالات کے جوابات ہمیں اس بڑے سوال کا جواب حاصل کرنے میں مدد کریں گے کہ کیا ہم بطورِ قوم پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنا چاہتے ہیں؟