تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     17-06-2020

سٹیل مل اور معاشی بندوبست کی مختلف حکمت عملیاں

پاکستان سٹیل مل منفی وجوہات کی بنا پر خبروں میں ہے۔ وفاقی حکومت کے ایک سینئر عہدیدار نے وضاحت پیش کی ہے کہ کیونکر یہ سٹیل مل ریاستِ پاکستان کے لیے ایک بوجھ بن چکی ہے۔ اس کی پیدوار جون 2015ء میں بند ہو گئی تھی لیکن یہ اپنے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کرتی رہی جن کی تعداد 2019ء میں نوہزار تین سو پچاس تھی۔ اب مرکزی حکومت سٹیل مل کے ان ملازمین سے نجات پانے کے لیے انہیں گولڈن ہینڈ شیک کی پیشکش کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہر ملازم کو23 لاکھ تک کی رقم ملنے کی توقع ہے۔ گولڈن ہینڈ شیک کی کل مالیت تقریباً انیس اعشاریہ سات ارب روپے بنے گی۔ وفاقی حکومت 2008-09ء سے لے کر اب تک سٹیل مل کو پانچ بیل آئوٹ پیکیج دے چکی ہے جن کی مالیت 58 ارب روپے بنتی ہے۔امکان یہی ہے کہ وفاقی حکومت اس مل کو کسی نجی سرمایہ دار گروپ کو فروخت کر دے گی تاکہ حکومت اس مل کے مالی بوجھ سے چھٹکارا پا سکے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب کسی پاکستانی حکومت نے سٹیل مل کی نجکاری کے بارے میں سوچا ہو‘ 2006ء میں مشرف حکومت نے اسے سرمایہ داروں کے ایک نجی گروپ کو فروخت کر دیا تھا‘ تاہم سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے‘ جس کی سربراہی افتخار محمد چوہدری کر رہے تھے‘ فروخت کے اس معاہدے کو منسوخ کر دیا تھا۔
سٹیل مل کی نجکاری کے لیے وفاقی حکومت کے ایجنڈے کو سٹیل مل ملازمین کی یونین اور حزب مخالف کی جماعتوں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا ہے۔پیپلز پارٹی نمایاں طور پر اس نجکاری کی مخالف ہے اور اس کی بنیاد وہ یہ بتاتی ہے کہ اس نجکاری کے بعد کئی ہزار لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے‘ تاہم یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اب تک کسی سیاسی جماعت نے کوئی ایسی حکمت عملی پیش نہیں کی جو حکومتی ایجنڈے کا متبادل کہی جا سکے۔70 ء کی دہائی کے اوائل میں سوویت یونین نے یہ سٹیل مل قائم کی تھی‘اس کا مقصد پاکستان کی معیشت کو تگڑا کرنا تھا‘ لیکن اس کا انجام بھی وہی ہوا جو دیگر حکومتی اداروں مثلاً پی آئی اے اور ریلوے کا ہوا ہے۔ سٹیل مل کی اس تباہی میں سیاسی بنیادوں پر کی جانے والی غیر ضروری بھرتیوں اور سٹیل مل میں موجود کچھ کرپٹ عناصر کی کارستانیوں کا ہاتھ سب سے زیادہ ہے۔تکنیکی حوالے سے پیچھے رہ جانے کے سبب اس کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوئی تاہم 2008ء تک یہ کچھ نہ کچھ نفع کماتی رہی۔ اس کے بعد تو یہ مل یوں سمجھئے کہ تباہی کے گڑھے کی جانب لڑھک گئی اور پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی یکے بعد دیگرے بننے والی حکومتیں اس تباہی کو روکنے کے لیے کچھ نہ کر پائیں۔
سٹیل مل کی نجکاری کا منصوبہ کئی بار سامنے آیا‘ شوکت عزیز جب ملک کے وزیر اعظم تھے تب بھی اس کی نجکاری کی کوشش کی گئی‘ تاہم نجکاری کے ان منصوبوں میں سے کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکا کیونکہ مل کے ملازمین اور حزبِ مخالف کی جماعتوں نے ڈٹ کر نجکاری کی مخالفت کی۔ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کے پاس دو آپشن ہیں‘ یا تو یہ سیدھے سبھائو اس کی نجکاری کر دے یا یہ سرکاری و نجی شراکت داری کے ذریعے اسے چلانے کی کوشش کرے۔ دوسرا آپشن در حقیقت نجکاری کو ایک ڈھیلے ڈھالے سے غلاف میں چھپانے کی ہی کوشش ہے۔ ایک اور امکان یہ ہے کہ بحال شدہ سٹیل مل کی انتظامیہ کو ''آئوٹ سورس‘‘ کر دیا جائے۔ عالمی سطح پر کام کرنے والے کچھ گروپ یقینا اس کی مکمل نجکاری میں دلچسپی رکھتے ہوں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ سٹیل مل کے پاس نہ صرف زمین کی شکل میں بہت قیمتی اثاثہ موجود ہے بلکہ اگر اسے‘ دوبارہ چالو کیا جا سکے تو پاکستان اور افغانستان کی شکل میں اس کے پاس ایک بہت بڑی منڈی بھی موجود ہے۔
معاشی بندوبست کی حکمت عملیوں میں اب بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ 60ء کی دہائی کا مقبول انداز یہ تھا کہ نجی شعبے کو ممکنہ حد تک آزادی مہیا کی جائے تا کہ وہ ملک کی معیشت کو ترقی دے سکے۔ اُس دہائی میں معیشت میں براہِ راست ریاستی مداخلت کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی تھی تاہم ریاست سرمایہ داروں کو ہر ممکن سہولت مہیا کرتی تھی کہ وہ ملکی معیشت میں سرمایہ کاری کریں اور اس کی راہ متعین کریں۔معیشت چلانے کے اس ماڈل میں جو چیز نمایاں ہوتی ہے وہ یہ کہ نجی شعبے کی معیشت میں نجی سرمایہ دار معاشی اجارہ داریاں قائم کر لیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں سماجی و معاشی عدم مساوات کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ صنعت اور کاروبار نمو پاتے ہیں لیکن کارکنان اور مزدور نظر انداز کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے عوامی سطح پر اس حوالے سے بے چینی جنم لینے لگتی ہے۔اس کے نتیجے میں جو شے جنم لیتی ہے اُسے 70 ء کی دہائی میں ڈاکٹر محبوب الحق نے غربت کا وہ پردہ قرار دیا تھا جو شمالی کرّے کے دولتمند ممالک کو جنوبی کرّے کے نادار اور کم ترقی یافتہ ممالک سے جدا کرتا ہے۔ غربت کا یہی پردہ ہر غریب ترقی پذیر ملک میں بھی ''مراعات یافتہ‘‘ اور ''غیر مراعات یافتہ‘‘ کی تفریق کو نمایاں کرتا ہے۔
60ء کی دہائی کے اواخر اور خصوصاً 70 ء کی دہائی کے اوائل میں معاشی معاملات میں زیادہ وسیع حکومتی مداخلت کا رحجان زور پکڑ گیا تاکہ معاشی اجارہ داریوں کا خاتمہ کر کے سماج کے کمزور طبقات کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ سوشلزم کے نظریے اور اقتصادی پیداوار کے ذرائع پر ریاستی کنٹرول اور ان کی تقسیم اُس زمانے میں ترقی پذیر ممالک میں مقبول معاشی ماڈل تھا۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹونے بنیادی صنعتوں کو قومیانے کا عمل شروع کیا اور ایسے اقدامات اٹھائے جن کا مقصد مزدوروں اور کاشتکاروں کے مفادات کا تحفظ تھا‘ تاہم پاکستان میں نجی اداروں کو قومیانے کی حکمت عملی میں مسئلہ یہ تھا کہ یہ صنعتی ادارے ایسی بیوروکریسی کے ہتھے چڑھ گئے جسے ان اداروں کو چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صنعتی ادارے اپنی پیداواری صلاحیتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور زیادہ مراعات کے حصول کے لیے مزدوروں کی ہڑتالیں معمول بن گئیں ۔70 ء کی دہائی میں مزدوروں کوبہت سے حقوق ملے لیکن ان اداروں کی قومیانے کی حکمت عملی کے نتیجے میں ملکی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہو پائی۔ ضیا الحق کے دورِ اقتدار میں پہیہ الٹی جانب گھومنے لگا۔چاول اور آٹے کے کارخانے واپس لوٹا دیے گئے۔ 1979ء میں دو صنعتیں سابقہ مالکان کو واپس کی گئیں‘ ان میں سے ایک اتفاق انجینئرنگ اینڈ فائونڈری تھی جو شریف خاندان کو واپس کی گئی۔ پاکستان کے معاشی جادو گر عموماً خود کو معیشت کے مغربی سرمایہ دارانہ ماڈل کی خصوصیات سے ہم آہنگ پاتے ہیں۔ یہ لوگ اس بات کے حامی دکھائی دیتے ہیں کہ حکومتی اداروں کو تین طریقوں سے نجی شعبے کے حوالے کر دیا جائے‘اول ان اداروں کی کامل نجکاری کر دی جائے‘ دوم انہیں حکومتی و نجی اشتراک سے چلایا جائے اور سوم ان کے انتظامی امور آئوٹ سورس کر دیے جائیں۔ لیکن ان تین آپشنز پر زور دیتے ہوئے ان ماہرین کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اگر امُرا اور کمرشل ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک کی معیشت پر حاوی ہو جائیں گی تو وہ ریاست کے فیصلہ سازی کے عمل پر باآسانی اثر انداز ہوسکیں گی۔ معاشی طاقت سے سیاسی طاقت پیدا کرنا بہت آسان کام ہے۔60ء اور 70 ء کی دہائی میں لاطینی امریکہ میں ہونے والی سیاست سے بخوبی علم ہو تا ہے کہ کس طرح امریکہ کی 
کثیر القومی کارپوریشنز نے ان میں سے کچھ ممالک کی سیاست کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا تھااور یہ چیز اُس پالیسی سے الگ ہے جو امریکہ اپنی مخالف حکومتوں کو دبائو میں لانے کے لیے ریاست مخالف گروہوں کو مالی مدد فراہم کرنے کی حکمت عملی کے تحت اختیار کرتا ہے۔
پاکستان کے منصوبہ سازوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اگر وہ ریاست کو معاشی میدان سے باہر نکال لیں گے تو طویل مدتی عرصے میں اس شے کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ سٹیل مل کے معاملے کو حل کرنے کے لیے دو نکاتی متبادل حل موجود ہے: حکومت پاکستان اس مل کو تکنیکی اعتبار سے جدت دینے اور اس کی پیداواری صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے روس سے معاشی و تکنیکی تعاون حاصل کرے۔ اب سے پانچ چھ برس پہلے روس کی جانب سے سٹیل مل کے معاملے پر پاکستان کی مدد کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا۔ اُس وقت پاکستان نے روس کے اس سگنل کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اس دوران ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک کی پیشکش پر کام آگے بڑھانا چاہیے۔ یہ اُن کی مرضی ہونی چاہیے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں یا نہیں۔ ان کی بڑی تعداد اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہے گی‘ باقی لوگ اپنی نوکری جاری رکھ سکتے ہیں اور انہیں بحال شدہ اور اپ گریڈڈ سٹیل مل کے ملازمین کے کیڈر میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس مل کو آزاد‘ پیشہ ور بورڈ کے ذریعے چلایا جانا چاہیے۔ مل میں ملازمین کی بھرتی‘ ترقی اور اس کے اندرونی نظم و نسق میں کسی قسم کی براہِ راست حکومتی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ پیشہ ورانہ مہارت کو ہر شے پر فوقیت دی جانی چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved