کچھ دن پہلے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی و سینیٹ وزیراعظم سے ملنے گئے تو گفتگو کابینہ میں ایک نئی تبدیلی کی طرف مڑ گئی۔ یہاں سے بات آگے بڑھی تو وزیراعظم نے ذرا تلخ لہجے میں کہا ''پارلیمانی طرزِ حکومت کی مصیبت ہے کہ اس میں ہر شخص وزیر بننا چاہتا ہے‘‘۔ وزیراعظم کے اس فقرے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ملک میں بار بار صدارتی نظام کی بحث کا شروع ہوجانا بے وجہ نہیں۔ ایک بار پھر ان باتوں کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اسمبلی میں جہانگیر خان ترین کی جوڑی ہوئی معمولی سی اکثریت قائم رکھنا بذات خود ایک کام ہے اور اتنا ہی نازک جتنے وزارت ِعظمٰی کے فرائض۔اب چونکہ جہانگیر ترین بھی نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر الگ کردیے گئے ہیں اس لیے حکومتی اتحاد کو سنبھالے رکھنے کا کام ان کے بعد سوائے عمران خان کے دوسرا کوئی نہیں کرسکتا۔ ایسی جھنجلا دینے والی صورتحال میں امریکی طرز کے صدارتی نظام کی طرف نظروں کا اٹھنا بالکل فطری ہے۔ پھر عمران خان اکیلے وزیراعظم تو نہیں جو پارلیمانی نظام کی الجھنوں سے برہم ہوتے ہیں۔ کئی روایات تو اس طرح کی بھی ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف بھی اپنے اپنے ادوارِ حکومت میں انہی خطوط پر سوچتے رہے ہیں۔ جنرل ایوب خان نے تو ایک بے تُکا سا صدارتی نظام بنا بھی لیا تھا‘ لیکن وہ اسے اپنے ہاتھوں دفن کرگئے‘ لیکن ان کے بعد آنے والے ہرآمر نے اسی گڑے مردے کو اکھاڑ کر اپنا سہارا بنایا۔شاید اسی لیے ہمارے ہاں صدارتی نظام سے ایک نفرت نے جڑ پکڑ لی ہے ۔ جیسے ہی کوئی صدارتی نظام کا نام لیتا ہے فوراً مقتدرہ کا مہرہ قرار پا کر جمہوری قوتوں کی نظر سے گرجاتا ہے۔ حالانکہ صدارتی نظام بھی اتنا ہی جمہوری ہوتا ہے جتنا پارلیمانی ‘ لیکن پاکستان میں دلیلیں کون سنتا ہے!
جب بھی ملک میں صدارتی نظام کی بحث چھڑتی ہے تو ایک سوال ذہن میں ضرور اٹھتا ہے اور وہ یہ کہ آخر ایسا کیا کام ہے جو وزیراعظم کو کرنا چاہیے‘ لیکن نہیں کر پاتا؟ پاکستان میں صنعتوں کو سرکاری تحویل میں لینے کا تباہ کن اقدام ذوالفقار علی بھٹو نے بطور وزیراعظم اٹھا لیا ‘ کسی نے ان کا ہاتھ نہیں پکڑا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے دورِ اقتدار میں بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کی سخت ترین شرائط مان لیں تو آج تک ان پر عمل ہورہا ہے ۔ نواز شریف نے موٹر وے بنانے چاہے تو پورا نظام ان کے تابع ہو گیا۔ انہوں نے بجلی کے مہنگے ترین منصوبے لگائے ‘ کسی نے انہیں روکا نہیں۔عمران خان کی ہی مثال لے لیں۔ہمارے وزیراعظم کے پاس صوبوں میں مداخلت کا محدود سا اختیار ہے لیکن ملک میں لاک ڈاؤن کے معاملے پر سب نے ان کی بات مانی۔ جب تک وہ خود اس معاملے پر الجھاؤ کا شکار رہے‘ پورے ملک میں کنفیوژن پھیلا رہا۔ ان کا حتمی فیصلہ لاک ڈاؤن کے خلاف آیا تو سب نے مان لیا۔ وہ کہتے تھے‘ آئی ایم ایف نہیں جاؤں گا‘ اس معاملے کو نمٹانے میں جو تاخیر کی انہوں نے خود کی‘ جیسے ہی فیصلہ کیا‘ ہر ایک مان گیا۔ انہوں نے ریاستی قرضوں کو الیکشن کا شوشا بنایا ‘ ازخود قرض نہ لینے کا اعلان کیا ‘ حکومت میں آکر قرضے لینے لگے توحکومتی ڈھانچے میں کسی نے ان کی حکم عدولی کا تصور تک نہیں کیا۔ وہ جہانگیر ترین کو ویسے ہی نکال دیتے تو بھی کچھ نہ ہوتا‘ انہوں نے ایک کمیشن بنا کر پہلے سے کیے ہوئے فیصلے کا جواز چاہا تو سرکاری افسروں نے چینی پر رپورٹ لکھ کر مہیا کردی۔ اسد عمر کو نکالاکچھ نہ ہوا‘ واپس لائے کچھ نہ ہوا‘حتٰی کہ صدرمملکت کراچی روانہ ہونے لگے تھے‘ نہ گئے کیونکہ وزیراعظم کی مرضی کے' تابع‘ موسم نے اجازت نہ دی۔ایک وفاقی وزارت کے لیے کسی کا نام ان کے دوستوں نے انہیں دیا‘ وہ مان بھی گئے لیکن عین وقت پر اپنا فیصلہ تبدیل کرلیا‘ کوئی طوفان نہیں اٹھا۔ان سب کے علاوہ پنجاب کے آئی جی کی پے درپے تبدیلیاں‘ چیف سیکرٹریوں کی اکھاڑ پچھاڑ ‘ آخر ایسا کیا ہے جو وزیراعظم نے چاہا لیکن ہوا نہیں؟ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا وزیرا عظم بہت کچھ کرسکتا ہے لیکن سب کچھ نہیں کرسکتا۔ وزیراعظم جمہوری طور پر منتخب ہوتا ہے‘ بادشاہ نہیں ہوتا۔اسے اپنے کیے کا حساب دینا ہوتا ہے‘ وہ اپنے اختیار کی لاٹھی سے لوگوں کو ہانک نہیں سکتا بلکہ ساتھ لے کر چلتا ہے۔یہ کام صدارتی نظام میں صدر کو بھی کرنا پڑتا ہے۔ امریکا میں کانگریس صدر کے دیے ہوئے بجٹ کو روک لیتی ہے‘ حکومت کو سینیٹ اور ایوان نمائندگان میں جواب دینا پڑتا ہے۔امریکی صدرکی طاقت بھی قانون کی پابند ہے۔ اس لیے پاکستان میں جمہوری طریقے سے صدارتی نظام بھی رائج کردیا جائے اور عمران خان صدر بن جائیں تو پھر بھی سیاسی مجبوریوں سے ان کی جان نہیں چھوٹے گی۔ وہ معاشرے کو تقسیم کرنا چاہیں گے تو اس کے نتائج بھی بھگتنا پڑیں گے۔ بطور صدر وہ جو کچھ بھی کریں گے اس کا جواب دینا پڑے گا۔ صدارتی نظام کے مطابق قانون سازی حکومت سے بالکل الگ ہوجائے گی تو معمولی سی قرارداد لانے کے لیے بھی دانتو ں تلے پسینے آجائیں گے۔ ہر صوبائی حکومت اتنی طاقتور ہو گی کہ وفاق ان کے معاملات میں مداخلت کا سوچے گا بھی نہیں۔ اسی اصول پر اگر بلدیاتی نظام بھی استوار ہوگیا تو بلدیاتی اداروں کے سربراہ بھی صدر کی گوشمالی میں کسی سے کم نہیں ہوں گے۔
پچھلے دو برسوں کا تجربہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا مسئلہ نظام نہیں بے عملی ہے۔ انہوں نے تبدیلی کے جو وعدے کیے تھے ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس پر وہ کوئی ٹھوس کام کرسکے ہوں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان کے گرد ایسے لوگوں کا گھیرا ہے جو حادثاتی طور پر عمران خان کے نام پر انتخابات جیت گئے اور وزیر بن گئے۔معاشی تباہی کے لیے تو مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر کا نام ہی کافی ہے لیکن ایک ایسے وزیر بھی ہیں پاکستان سے باہر باقاعدہ طور پر دیوالیہ نکلوا بیٹھے تھے ‘اب وزیراعظم کو معاشیات اور کاروبار پر مشورے دیتے ہیں۔ وفاقی کابینہ میں شامل بیشتر لوگ وہ ہیں جو اپنی وزارت کو سمجھتے ہیں نہ سیاست کو اس لیے ہر شام ٹی وی سکرین پر ان کی بے معنی گفتگو حکومت کا مذاق بنوا نے کے لیے کافی ہوجاتی ہے۔ معاونین خصوصی کی ایک ایسی فوج ہے جسے اپنی موجودگی ثابت کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ڈرامہ رچانا پڑتا ہے۔ کبھی کوئی احتساب کی بین بجاتا ہوا سامنے آجاتا ہے تو کوئی ملک میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب لانے کا دعویٰ کرکے اپنی جگہ بناتا ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ ملک چلانا تو دور کی بات کوئی دکان نہیں چلائی جاسکتی ۔ شاید وزیراعظم باور کر بیٹھے ہیں کہ نکموں کے اس گروہ کو انہوں نے الگ کیا تو ان کی جماعت متحد نہیں رہے گی۔ اس تاثر کے برعکس‘ حقیقت تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو انہوں نے پارٹی کی مجبوری سمجھ رکھا ہے ان کی حیثیت ہی نہیں کہ حکومت کے لیے کوئی مشکل کھڑی کرسکیں۔تحریک انصاف عمران خان کا دوسرا نام ہے‘ اس میں کسی کی ہمت نہیں کہ انہیں چیلنج کرسکے۔ عمران خان کو اگر کسی کو سنبھالنا ہے تو ان کے اتحادی ہیں اور سیاست میں اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے‘ نظام چاہے پارلیمانی ہو یا صدارتی۔ وزیراعظم آج بھی ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ پورا کرنے چل پڑیں تو یہی پارلیمانی نظام ان کے پیچھے ہوگا۔ انتظامی اصلاحات سے بھی انہیں کوئی نہیں روک رہا۔ ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ ہے تو وہ لوگ ہیں جو دن رات ان کے گرد بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ مسئلہ پارلیمانی نظام میں نہیں ان کے منتخب کردہ لوگوں میں ہے‘ وزیراعظم کے دفتر میں ہے یا خود...خیر چھوڑیے۔