ہمار ا معاشرہ اس وقت عدم برداشت کی انتہا پر پہنچ چکا اور بالعموم لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہے۔ معمولی معمولی تنازعات پر لوگ ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں۔ مجھے بھی آئے دن مختلف طرح کے کیسیز کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملتا ہے‘ جن میں تنازع کا سبب انتہائی معمولی ہوتا ہے۔ کسی شخص نے کسی کی مرضی بغیر اس کی دکان کے سامنے موٹر سائیکل کو کھڑا کر دیاتو تنازع پیدا ہو جاتا ہے‘ کسی نے کسی کو اونچی آواز سے پکار دیا تو بھی تنازع شروع ہو جاتا ہے‘ اسی طرح گھریلو سطح پر بھی آئے دن جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ ان جھگڑوں کے دوران اپنی بیوی کے ساتھ تشدد‘ ظلم اور بربریت کی انتہا پر پہنچ جاتے ہیں‘ اسی طرح یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ معمولی معمولی تنازعات پر ہنستے بستے گھر اُجڑ جاتے ہیں اور نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ بہت سے خاندانوں میں چھوٹی چھوٹی باتوںپر سگے بھائی ایک دوسرے سے برس ہا برس تک کلام نہیں کرتے اور شادی بیاہ یا کسی عزیز کی وفات پر ملاقات کے علاوہ کے ہر قسم کے سماجی تعلقات کو منقطع کر دیا جاتا ہے۔
ہم سڑک پر آتے جاتے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اُلجھتا ہوا دیکھ سکتے ہیں اور یہ بات محسوس کی جاتی ہے کہ اس الجھاؤ کی وجہ کئی مرتبہ کسی گاڑی کا اونچی آواز سے ہارن دینا یا کسی کا اوور ٹیک کرنا بن جاتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بحیثیت ِانسان ہم سب آدم ؑ کی اولاد ہیں اور انسانی بھائی چارے کے ناتے ہمیں اپنی زندگی میں برداشت اور عفوو درگزر کی اشد ضرورت ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کو بہت ہی خوبصورت انداز بیان کیا ہے۔ سیّدنا یوسف علیہ السلام کے بھائی ان سے حسد کا شکار ہوئے اور انہوں نے ان کو اپنے بابا حضرت یعقوب ؑکی آنکھوں سے جدا کرکے ایک اندھے کنویں میں اتار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف ؑ کی مدد کی اور ایک قافلہ جو مصر کو جا رہا تھا‘ وہ آپ کو لے کر مصر پہنچا ‘جہاں پر آپ کو مصر کے ایک بڑے گھرا نے میں چند دیناروں کے عوض فروخت کر دیا گیا۔ بعدازاں حضرت یوسف ؑ کو زندگی میں بہت سے اُتار اور چڑھاؤ دیکھنا پڑے۔ آپ کو جیل خانے میں جانا پڑا اور آپ ایک لمبا عرصہ تک جیل میں قیدی کی حیثیت سے زندگی کے صبح وشام کو گزارتے رہے۔ حضرت یوسف ؑ پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہوا اور اللہ نے آپ کو حکومت اور اقتدار سے نواز دیا۔ حکومت اور اقتدار میں آنے کے بعد جب عالمگیر قحط نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو جہاں پر دیگر مقامات سے لوگ آپ کے پاس غلے کے حصول کے لیے آئے ‘آپ کے بھائی بھی غلے کے حصول کے لیے آپ کے پاس آئے‘ جن کو ایک حکمت کے ذریعے آپ نے اپنے بھائی حضرت بنیامین کو بھی اپنے پاس لانے پر آمادہ کیا۔ بعدازاں جب آپ کے بھائی حضرت بنیامین کو اپنے ہمراہ آپ کے پاس لے کر آئے تو آپ نے ایک تدبیر کے ذریعے اپنے بھائی حضرت بنیامین کو اپنے پاس روک لیا۔ اس موقع پر حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے آپ پر چوری کا الزام لگایا۔ حضرت یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں کی ان تمام زیادتیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور موقع ملنے کے باوجود اُن سے کسی بھی قسم کا مواخذہ نہیں کیا۔
نبی کریم ﷺ کفار مکہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دیتے تھے۔ کفار مکہ آپﷺ کی دعوت کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوئے اور آپﷺ کے جانی دشمن بن گئے۔ انہوں نے آپﷺ کے راستے میں کانٹوں کو بچھایا‘ آپﷺ پر تشددکیا‘ آپﷺ گلوئے اطہر میں چادر کو ڈال کے بھینچا۔ آپ ﷺ نے ان تمام مظالم اور شقاوتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ طائف کی وادی میں ظالموں نے زیادتی کی انتہا کر دی اور آپﷺ کے جسم اطہر کو لہو رنگ بنادیا گیا‘ ایسے عالم میں پہاڑوں کا فرشتہ بھی حضرت جبرئیل ؑ کے ہمراہ آیا اور یہ بات عرض کیا کہ اگر آپ حکم کریں تو طائف کی اس وادی کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے نبی کریم ﷺ نے اس موقع پر بدعا کرنے کی بجائے اپنی قوم کی ہدایت کی دعا کی۔رسول اللہ ﷺ کو مکہ مکرمہ سے بڑی محبت اور پیار تھا اور بیت اللہ کی ہمسائیگی آپﷺ کو انتہائی عزیز تھی‘ لیکن کفار مکہ نے آپﷺ کو ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا اور بعدازاں بہت سی جنگوں کو اہل مدینہ پر مسلط کیا۔ بہت سی جنگوں میں حضرت رسول اللہﷺ مسلمانوں کے ہمراہ اسلام اور سر زمین اسلام کے دفاع کے لیے میدان عمل میں اترے اور خندہ پیشانی سے ان جنگوں کے دوران آنے والی تکالیف کو برداشت کیا۔ بہت سے غزوات کے بعد اللہ تعالیٰ نے مکہ میں آپﷺ کو فاتح کی حیثیت سے داخل فرما دیا۔ اس موقع پر بہت سے لوگ ‘جنہوں نے شقاوت اور بدبختی کا مظاہرہ کیاتھا مجرم کی حیثیت سے نبی کریمﷺ کی بارگاہ رسالت مآب میں پیش ہوئے ‘لیکن نبی کریمﷺ نے اس موقع پر ان کے ساتھ عفوودگزر والا معاملہ کیا اور ان سے کسی بھی قسم کا انتقام نہ لیا اور ان کو معاف فرما دیا۔
انبیائے سابقہ اور حضرت یوسف ؑ کے بعد نبی کریمﷺ کی سیرت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کے اعلیٰ اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کی غلطیوں اور زیادتیوں کو معاف کرنے پر آمادہ وتیار رہے‘ جو شخص انتقام کی بجائے عفوودرگزر والا رویہ اختیار کر تا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کو آخرت کی سربلندیوں کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی سربلند فرما دیتے ہیں اورا س کے مد مقابل جو شخص ہمہ وقت انتقامی جذبے کے زیر اثر رہتا ہے ‘جہاں پر وہ دل کی تنگی اور گھٹن کا شکار ہو جاتا ہے‘ وہیں پر لوگ بھی اس کے بارے میں
کراہت اور تنگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنے معاشرے اور گردوپیش میں نظر دوڑا کر اس چیز کا باآسانی مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ وہ لوگ جو عفوودرگزر کے اعلیٰ اوصاف سے بہرہ ور ہوتے ہیں ‘اللہ تعالیٰ ان کو عزت اور سرفرازی سے ہمکنار کر دیتا ہے اور وہ لوگ جو ہمہ وقت تشدد ‘ انتقام‘ نفرت اور حسد کا شکار رہتے ہیں وہ لوگ اپنی آخرت کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی قابل نفرت ٹھہرتے ہیں اور لوگ ان کے شر سے بچنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی کیلئے معاشرے میں برداشت ‘ صبر‘ تحمل‘ بردباری‘ مساوات اور جذبہ اخوت کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اسلام دنیا کا واحد ایسا دین ہے‘ جس نے حالت جنگ میں بھی اخلاقی اصولوں کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اسلام کی سربلندی کے لیے لشکر کشی کرنے والوں کو عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے قلعی طور پر روک دیا گیا۔ اسلام کے جنگی اصولوں پر جب غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام جنگ بھی انسانوں کی نسل کشی یا معاشروں کی بیخ کنی کے لیے نہیں کرتا‘ بلکہ اس مقام پر بھی شرف انسانیت کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پاسداری کرنے کی بھر پور انداز میں کوششیں کی جاتی ہیں۔ نبی کریمﷺ کی بہت سی احادیث مبارکہ سے بھی عفوردرگزر کی اہمیت بہت ہی خوبصورت انداز میں اجاگر ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ایک حدیث درج ذیل ہے:۔
صحیح بخاری میں حضرت خذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: '' تم سے پہلے گزشتہ امتوں کے کسی شخص کی روح کے پاس (موت کے وقت) فرشتے آئے اور پوچھا کہ تو نے کچھ اچھے کام بھی کئے ہیں؟ روح نے جواب دیا کہ میں اپنے نوکروں سے کہا کرتا تھا کہ وہ مالدار لوگوں کو (جو ان کے مقروض ہوں) مہت دے دیا کریں اور ان پر سختی نہ کریں اور محتاجوں کو معاف کر دیا کریں۔ راوی نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا‘ پھر فرشتوں نے بھی اس سے درگزر کیا اور سختی نہیں کی۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو عفوودرگزر کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)