اللہ تعالیٰ نے امت ِمسلمہ کو ملت ِابراہیمی ؑقرار دیا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے ''اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ رکوع اور سجدہ کرو‘ اپنے رب کی بندگی کرو‘ اور نیک کام کرو‘ اسی سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرو ‘جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اُس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چُن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہو جائو اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام ''مسلم‘‘ رکھا تھا اور اس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) ‘ تا کہ رسول ؐ تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔ پس‘ نماز قائم کرو‘ زکوٰۃ دو‘ اور اللہ سے وابستہ ہو جائو۔ وہ ہے تمہارا مولیٰ‘ بہت ہی اچھا ہے ‘وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار۔‘‘ (سورۃ الحج: ۷۷‘۷۸)
حضرت ابراہیمؑ حقیقی مواحد اور بت شکن تھے۔ ایک بار آپؑ نے اپنی قوم کے بت خانے میں گھس کر تمام بتوں کو توڑ دیا اور کلہاڑا سب سے بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا۔ اس واقعہ کا تذکرہ قرآن پاک میں دو مقامات پر‘ یعنی سورۂ الانبیاء اور سورۂ الصافات میں تفصیلاً آیا ہے۔ ان دونوں مقامات کی آیات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بت پرستوں کے پاس اپنے بتوں کے دفاع اور اپنے شرک کے جواز کے لیے کوئی دلیل نہ رہی تو انہوں نے اندھی قوت کا استعمال کیا۔ ابراہیم ؑ کو حکم شاہی کے تحت آگ میں جلا ڈالنے کا حکم ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے آگ کو ٹھنڈا کردیا اور حضرت ابراہیم ؑ کے لیے سلامتی بنا دیا۔ سورۃ الانبیاء میں ارشاد ہے '' یاد کرو وہ موقع جب ابراہیم ؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ ''یہ مورتیں کیسی ہیں جن کے تم لوگ گرویدہ ہو؟‘‘ انہوں نے جواب دیا ''ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا۔‘‘ اس نے کہا تم بھی گمراہ ہو اور تمہارے باپ دادا بھی صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘ انہوں نے کہا ''کیا تو ہمارے سامنے اپنے اصلی خیالات پیش کررہا ہے یا مذاق کرتا ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا ''نہیں ‘بلکہ فی الواقع تمہارا رب وہی ہے‘ جو زمین اور آسمانوں کا رب اور ان کو پیدا کرنے والا ہے۔ اس پر میں تمہارے سامنے گواہی دیتا ہوں اور خدا کی قسم میں تمہاری غیرموجودگی میں ضرور تمہارے بتوں کی خبر لوں گا ‘‘؛ چنانچہ اس نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور صرف ان کے بڑے کو چھوڑ دیا ‘تاکہ شاید وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ (انہوں نے آکر بتوں کا یہ حال دیکھا تو) کہنے لگے ''ہمارے خداؤں کا یہ حال کس نے کردیا؟ بڑا ہی کوئی ظالم تھا وہ۔‘‘ (الانبیاء ۲۱:۵۱-۵۹)
حضرت ابراہیمؑ اس قوم میں واحد نوجوان تھے‘ جو بتوں کی مذمت کھلے عام کیا کرتے تھے۔ اس لیے سبھی لوگ پکار اٹھے کہ یہ اسی نوجوان کا کیا دھرا ہے ‘جو ابراہیم ؑ کے نام سے موسوم ہے:کہنے لگے ''ہم نے ایک نوجوان کو ان کا ذکر کرتے سنا تھا‘ جس کا نام ابراہیم ؑ ہے۔‘‘ انہوں نے کہا ''تو پکڑلاؤ اسے سب کے سامنے‘ تاکہ لوگ دیکھ لیں (اس کی کیسی خبرلی جاتی ہے)۔‘‘ (ابراہیم ؑ کے آنے پر) انہوں نے پوچھا ''کیوں ابراہیم تونے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا ''بلکہ یہ سب کچھ ان کے اس سردار نے کیا ہے‘ ان ہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں۔‘‘ یہ سن کر وہ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور (اپنے دلوں میں) کہنے لگے ''واقعی تم خود ہی ظالم ہو۔‘‘ مگر پھر ان کی مت پلٹ گئی اور بولے ''تو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں ۔‘‘ ابراہیم ؑ نے کہا ''پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان چیزوں کو پوج رہے ہو‘ جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان۔ تُف ہے تم پر اور تمہارے ان معبودودں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کررہے ہو۔ کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے؟‘‘ (الانبیاء ۲۱:۶۰-۶۷) حضرت ابراہیمؑ نے اس مقدمے میں پیشی کے موقع پر بھی بلاخوف وخطر اپنی بات پوری دلیل اور اطمینان کے ساتھ بت پرست قوم کے سامنے رکھ دی۔ بجائے اس کے کہ یہ لوگ اس پر سنجیدگی وشعور سے غور کرتے‘ انہوں نے بعجلت تمام ایک احمقانہ فیصلہ سنادیا: انہوں نے کہا ''جلا ڈالو اس کو اور حمایت کرو اپنے خداؤں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔‘‘ ہم نے کہا ''اے آگ‘ ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر۔‘‘ وہ چاہتے تھے کہ ابراہیم ؑ کے ساتھ برائی کریں‘ مگر ہم نے ان کو بری طرح ناکام کردیا‘‘۔ (الانبیاء ۲۱:۶۸-۷۰)
ان آیات پر علامہ اقبالؒ کے بعض اشعار خوب روشنی ڈالتے ہیں۔ اس سے سیدنا ابراہیم ؑ کے عشق حقیقی اور عقل کے پیمانوں سے ہر چیز کو ماپنے والوں کی دوں ہمتی کا بھی پتا چلتا ہے:
پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
اور آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی اندازِ گلستاں پیدا
سیدنا ابراہیمؑ نے مٹی اور پتھر کے بتوں کو توڑا تو ان کا سامنا اس بت سے ہوا جو انسانوں کی گردنوں پر مسلط ایوان اقتدارمیں بیٹھا خود کو رب کہلاتا تھا۔ آج کل بہت سے مواحدین مٹی اور پتھر کے بتوں پر تو کلہاڑے چلاتے ہیں‘ مگر اس بت کے سامنے سرنگوں ہوجاتے ہیں ‘جو ایوانِ اقتدار میں بیٹھا لوگوں کی قسمت کے فیصلے کرتا ہے۔ چاہے تو کسی کو وزارت وسفارت سے نواز دے‘ چاہے تو کسی کو جیل میں ڈال دے اور موت کے گھاٹ اتار دے۔ سورۃالبقرہ میں اللہ نے نمرودی دربار میں ابراہیم حنیف کی پیشی اور سوال وجواب کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے:أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْ حَآجَّ إِبْرَاہِیْمَ فِیْ رِبِّہٖٓ أَنْ اٰتَاہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ إِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیِـیْ وَیُمِیْتُ قَالَ أَنَآ أُحْیِـیْ وَأُمِیْتُ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ فَإِنَّ اللّٰہَ یَأْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیْ کَفَرَ وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ (البقرۃ۲:۲۵۸)
''کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیمؑ سے جھگڑا کیا تھا؟ جھگڑا اس بات پر کہ ابراہیمؑ کا رب کون ہے‘ اور اس بنا پر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی۔ جب ابراہیمؑ نے کہا کہ ''میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے‘‘ تو اس نے جواب دیا: ''زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے‘‘۔ ابراہیمؑ نے کہا: ''اچھا‘ اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے‘ تو ذرا سے مغرب سے نکال لا۔‘‘ یہ سن کر وہ منکرِ حق ششدر رہ گیا‘ مگر اللہ ظالموں کو راہِ راست نہیں دکھایا کرتا۔ جیسا کہ پچھلی سطور میں تذکرہ گزر چکا ہے‘ ظالم جب لاجواب ہوگیا تو اس نے حضرت ابراہیمؑ کے لیے آگ کا الاؤ تیار کرنے کا حکم دیا۔ باطل پرست جب بھی لاجواب ہو جائیں تو اندھی قوت استعمال کرتے ہوئے اہل ِحق کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ رسم ہر دور میں جاری رہی ہے۔ آج بھی اسی کا چلن ہے۔حضرت ابراہیمؑ کے مقابلے پر نمرود اور اس کے درباریوں کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی۔ جب لاجواب ہو گئے تو پھر ظلم کی تمام حدیں پھلانگتے ہوئے فرمانِ شاہی جاری ہوا کہ ابراہیمؑ کو اس آگ میں پھینک دیا جائے۔ آگ اللہ کے حکم سے ابراہیمؑ کے لیے سلامتی بن گئی اور ان کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔
سیدنا ابراہیمؑ حقیقی معنوں میں بت شکن تھے۔ آپؑ کے بعد آپؑ کے عظیم سپوت سیدنا محمدمصطفی ﷺ نے اللہ کی دھرتی پر موجود ہر بت کو پاش پاش کیا‘ خواہ وہ خاندانی نخوت وتکبر کا بت تھا یا قومی عصبیت وتفاخر کا۔ نام نہاد سپر طاقتوں کی صورت میں قیصروکسریٰ کی خدائی کے دعوے تھے یا عرب کی دھرتی پر فرعون صفت سردارانِ قبائل‘ سبھی کی خدائی مٹی اور پتھر کے بتوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے زمین بوس ہوگئی اور حق کا غلبہ اور باطل کی پسپائی پوری دنیا نے دیکھ لی۔ قرآن کے الفاظ میں: وَ قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقًا (بنی اسرائیل۱۷:۸۱)۔ اور اعلان کردو کہ ''حق آگیا اور باطل مٹ گیا‘ باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔‘‘
آہ! آج بحیثیت ِمجموعی ملت ابراہیم ؑ اور امتِ محمد مصطفی ﷺ اس عظیم سبق کو بھول چکی‘ جس کی بدولت نصرتِ خداوندی بندے کے قدم چومتی ہے۔ بسا غنیمت ہیں وہ غیور و جسور اہل حق جو کشمیر و فلسطین اور دیگر علاقوں میں بے سروسامان ہونے کے باوجود وقت کے نمرودوں اور فرعونوں کے سامنے سینہ سپر ہیں! اے اللہ‘ ان اہل ِحق کی مدد فرما اور باطل پرست‘ جھوٹے خدائوں کو نشانِ عبرت بنا دے۔فی الحال تو ہم بے بسوں کی زبان پر بے ساختہ فانیؔ بدایونی کا شعر آ جاتا ہے: ؎
یا رب تیری رحمت سے مایوس نہیں فانیؔ
لیکن تیری رحمت کی تاخیر کو کیا کہیے