زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کیلئے سب سے بڑھ کر جس معاملے کو سمجھنا ہے ‘وہ وقت ہے‘ جس نے وقت کی اہمیت کو سمجھا اور تسلیم کیا‘ وہی حقیقی اور مکمل کامیابی سے ہم کنار ہوا۔ حتمی تجزیے میں کسی بھی انسان کیلئے حقیقی دولت وقت ہے۔ وقت کو سب سے بڑی (مادّی) دولت سمجھنے اور اُس کی قدر کرنے سے انکار کرنے والا ہر انسان بالآخر غیر معمولی ناکامی کے گڑھے میں جا گِرتا ہے۔ ہم زندگی بھر تین زمانوں کے اسیر رہتے ہیں۔ ایک گزرا ہوا کل ہے اور ایک آنے والا کل؛ دونوں کے بیچ ہے لمحۂ موجود۔ حق یہ ہے کہ لمحۂ موجود ہی ہمارے لیے سب سے بڑی ارضی حقیقت ہے‘ جس نے اسے سمجھ لیا‘ وہ فتح یاب ہوا۔ زندگی ہم سے جو چند بڑے تقاضے کرتی ہے‘ اُن میں پہلے نمبر پر ہے لمحۂ موجود کو سمجھنا ۔ ہم گزرے ہوئے زمانے کے انسان ہیں نہ آنے والے انسان کے۔ یہ دونوں خیالی دنیائیں ہیں۔ حقیقی دنیا آج کی دنیا ہے‘ جو کچھ آج ہے وہی ہمارے لیے سب سے زیادہ اہم ہے اور اُسی کی بنیاد پر طے ہونا ہے کہ آنے والا زمانہ کیسا ہوگا۔
ایسا نہیں ہے کہ ہمیں گزرے ہوئے کل کو مکمل طور پر نظر انداز کردینا چاہیے یا آنے والے کل کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہیے۔ گزرا ہوا زمانہ بھی ہمارے کام کا ہے اور آنے والے کل کے بارے میں ہمیں ضرور سوچنا ہے۔ یہ دونوں زمانے بھی ہمارے ہی ہیں‘ مگر اُتنے نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ گزرا ہوا زمانہ سبق سیکھنے کے لیے ہے۔ تاریخ ہمیں بہت سے معاملات میں تدبر سے کام لینے کی تحریک دیتی ہے۔ جب ہم کسی معاملے میں بُری طرح الجھ جاتے ہیں‘ تب تاریخ کی ورق گردانی کے ذریعے باہر نکلنے کا راستہ ملتا ہے۔ ماضی کی انفرادی و اجتماعی غلطیوں سے سبق سیکھنا دانش کی اہم ترین علامات میں سے ہے۔ دوسروں نے جو غلط کیا ہے‘ اُس سے عبرت پکڑنا اور تمام اچھے کاموں سے کچھ اچھا کرنے کی تحریک پانا ہماری وہ ذمہ داری ہے ‘جو کسی قانون کے ذریعے ہم پر مسلط کی جانے والی چیز تو ہرگز نہیں ‘مگر دانش کہتی ہے کہ اس ذمہ داری سے با طریقِ احسن عہدہ برأ ہونا اپنے آپ پر لازم کرلیا جائے۔ تاریخ سے سبق سیکھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ عمومی سطح پر تاریخ سے صرف لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ کسی بھی قوم کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے متعلق ہر بیان کو لوگ مزے لے لے کر پڑھنے اور کوئی سبق سیکھنے پر محض محظوظ ہوتے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
تاریخ نے ہمیں بہت کچھ سکھانے کی کوشش کی ہے۔ تاریخ سے کوئی سبق سیکھ کر اپنی اصلاح کرنے اور آج کو سنوارنے والوں کی تعداد کم ہی رہی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ کسی کے بُرے انجام سے سبق سیکھنا اور کسی کے افکار و اعمالِ حسنہ سے تحریک پاکر زندگی کا معیار بلند کرنے کی کوشش کرنے پر مائل ہونا بظاہر انسان کی سرشت سے باہر کی بات ہے۔ تاریخ سے سبق نہ سیکھنے اور تاریخی واقعات سے محض محظوظ ہوتے رہنے کی روش پر گامزن رہنا انسان کو نقصان سے دوچار کرتا ہے۔ کم و بیش ایسا ہی معاملہ مستقبل کا بھی ہے‘ جو زمانہ ابھی آیا نہیں‘ اُس کے بارے میں بہت زیادہ سوچنا انسان کو الجھا دیتا ہے۔ بہت سے لوگ ہر معاملے میں بلا جواز طور پر خوش اُمیدی کا جھولا جھولتے رہتے ہیں۔ وہ اس تصور میں گم رہتے ہیں کہ سب کچھ خود بخود درست ہوتا چلا جائے گا اور غیر معمولی تگ و دَو کے بغیر قابلِ رشک کامیابی نصیب ہو رہے گی۔ وہ کبھی اس نکتے پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ سب کچھ اپنے آپ درست کیسے ہوسکتا ہے۔ دنیا کا کوئی معاملہ ایسا نہیں ‘جو شعوری سطح پر کی جانے والی کوشش کے بغیر درست ہو۔ ع
چراغ خود نہیں جلتا‘ جلایا جاتا ہے
کائنات کا ایک بنیادی اصول یہ ہے‘ جو کچھ قدرت نے نباتات و جمادات کے لیے طے کر رکھا ہے ‘وہ تو ہوتا رہتا ہے‘مگر انسانوں کی دنیا میں کوئی بھی معنی خیز یا مثبت تبدیلی اپنے آپ واقع نہیں ہوتی۔ اس مقصد کے حصول کیلئے محنت کرنا پڑتی ہے‘ جو کچھ ہوچکا‘ اُس کی تفصیل ہمیں سوچنے کی تحریک دیتی ہے۔ انفرادی و اجتماعی سطح کی کامیابیاں اور ناکامیاں ہمارے انفرادی و اجتماعی نظامِ فکر پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ بالکل فطری امر ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں میں ایسا بہت کچھ ہے ‘جو ہمارے لیے ہے‘ ہمارے کام کا ہے۔آنے والے زمانے کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہونے والوں کی کمی نہیں۔ ایسے لوگ بات بات پر وحشت زدہ ہو جاتے ہیں۔ آنے والا دور ہم سے فکر کا تقاضا کرتا ہے‘ تدبّر چاہتا ہے اور لوگ صرف پریشان ہوتے رہنے کو کافی سمجھ لیتے ہیں۔ ایسے میں اصلاحِ احوال کی صورت نظر آئے تو کیونکر؟ گزرا ہوا کل اور آنے والا کل یہ دونوں چَکّی کے دو پاٹوں جیسے ہیں ‘جن کے بیچ میں آج بے چارہ پِس رہا ہے۔ یہ بیچ کا بے چارہ آج ہماری پوری توجہ چاہتا ہے‘ اسے نظر انداز کرنے سے ماضی سے تو ذرا بھی متاثر نہیں ہوگا‘ مگر ہاں‘ مستقبل ضرور داؤ پر لگ سکتا ہے اور اکثر لگ ہی جاتا ہے۔ آج کو نظر انداز کرنا ایسی غلطی ہے‘ جس کا ازالہ انسان مشکل ہی سے کر پاتا ہے۔ عصری تقاضوں کو درخورِ اعتنا نہ سمجھنے والوں کی زندگی میں صرف پیچیدگیاں رہ جاتی ہیں۔ گزرتا ہوا وقت ہم سے تبدیلی چاہتا ہے اور وہ بھی مثبت۔ ہم اگر وقت کے تقاضوں کے مطابق نہ بدلیں تو سمجھ لیجیے سب کچھ ہاتھ سے گیا۔ وقت کا کام ہر آن بدلنا ہے اور ہمارا بھی یہی کام ہے۔
اکیسویں صدی اپنے ساتھ بہت سی تبدیلیوں کا پیغام لائی ہے۔ رواں صدی کی عمر بیس سال ہوچکی ‘ اب کسی بھی انسان یا معاشرے کیلئے عصری تقاضوں کو نظر انداز کرکے ڈھنگ سے جینا ممکن نہیں رہا۔ لازم ہوچکا کہ لمحۂ موجود میں جینے کی عادت محض اپنائی نہ جائے‘ بلکہ پروان چڑھائی جائے‘ گزرے کل سے سبق سیکھنا اور آنیوالے کل کے بارے میں سوچنا ہے۔