تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     20-06-2020

افلا تعقلون؟ …(2)

کرپشن قوموں کو دیمک کی طرح چاٹتی رہتی ہے۔ کرپٹ ملکوں میں پل ناقص بنتے ہیں۔ سڑکیں بنتی ہیں تو سال چھ ماہ میں ٹوٹنے لگتی ہیں۔ کرپشن جمہوریت کو کمزور کرتی ہے‘ احتساب کے اداروں کو برداشت نہیں کرتی جبکہ شفاف احتساب جمہوریت کی جان ہے۔ قرآن کریم میں سزا اور جزا کا ذکر تواتر سے موجود ہے۔ حدیث مبارک ہے ''الراشی و المرتشی کلا ھما فی النار‘‘ یعنی رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنمی ہیں، تو پھر کیا وجہ ہے کہ اسلامی ملکوں میں کرپشن پھل پھول رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم قرآن کریم کو صرف پڑھتے ہیں اس پر نہ غور کرتے ہیں اور نہ عمل۔ 
ڈنمارک اور نیوزی لینڈ 2019ء میں دنیا کے سب سے زیادہ کرپشن فری ملک قرار پائے۔ یہ دونوں اسلامی ملک نہیں ہیں اور اب نام سنیے دنیا کے دو کرپٹ ترین ممالک کا اور وہ ہیں صومالیہ اور شام۔ اب ہونا تو اس کے الٹ چاہیے تھا کیونکہ اسلام بچوں کی اخلاقی تربیت کو والدین کا فرض قرار دیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی واضح ہے کہ کرپٹ مسلمان کا احتساب آخرت میں بھی ہو گا۔ جارج برنارڈ شا (George Bernard Shaw) کا قول یاد آ رہا ہے کہ ''اسلام دنیا کا بہترین مذہب ہے اور مسلمان بدترین لوگ ہیں‘‘۔ یہاں میں اس بات کا اضافہ کرتا چلوں کہ ہمارے ہاں اچھے لوگ ابھی ہیں لیکن ہم اس اقلیت کو اکثریت میں نہیں بدل سکے۔
حضرت عمر فاروقؓ اپنی انتظامی قابلیت میں بے مثال تھے۔ ان کے عہدے میں حضرت عمرو ابن العاصؓ (Amr Iben Al Aas) مصر کے گورنر تھے۔ خلیفۂ دوم کی تمام گورنروں کو واضح ہدایات تھیں کہ ریشمی کپڑے نہ پہنیں، ترکی گھوڑوں پر سواری نہ کریں، اپنے صوبے کا دورہ کرتے رہیں اور اپنے گھر کے دروازے عوام کے لیے کھلے رکھیں۔ یاد رہے کہ ترکی گھوڑا اس زمانے کی مرسڈیز یا بی ایم ڈبلیو کار تھا۔ اس کا قد کاٹھ عربی نسل کے گھوڑوں سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اسے راتب بھی بہت کھلانا پڑتا ہے۔ لہٰذا صرف امراء ہی ایسے گھوڑے افورڈ کر سکتے تھے۔ حضرت عمرؓ چاہتے تھے کہ اُن کے گورنر سادگی میں مثال ہوں۔ 
خلیفہ راشد کو مدینہ میں اطلاع ملی کہ مصر میں متعین گورنر بڑی عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ حضرت عمرو ابن العاصؓ کا تعلق قریش کے متمول تاجر گھرانے سے تھا۔ انہیں مدینہ منورہ بلا کر پوچھا گیا کہ ان کے مال و دولت کا سورس کیا ہے؟ وہ بڑی آسانی سے کہہ سکتے تھے کہ میرے پاس موروثی دولت کی کمی نہیں‘ لیکن ایک صحابی کیسے جھوٹ بول سکتا ہے۔ جواب دیا کہ میں زائد وقت میں مصر میں تجارت کرتا ہوں۔ حضرت عمر فاروقؓ بے حد نالاں ہوئے اور دو حکم فوراً صادر کئے۔ اوّل یہ کہ گورنر نے مصر جانے کے بعد وہاں تجارت میں جتنا منافع کمایا ہے وہ بیت المال میں جمع کرایا جائے۔ دوئم یہ کہ مصر کو شمالی اور جنوبی دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور شمالی مصر جسے مصرِ بالا (Upper Egypt) بھی کہا جاتا ہے‘ وہاں حضرت عبداللہ بن ابی صرح کو گورنر مقرر کیا۔ جناب عمر فاروقؓ قرآن پڑھتے بھی تھے، اُسے سمجھتے بھی تھے اور اُس پر عمل بھی کرتے تھے۔
کرپشن صرف رشوت لینے کا نام نہیں۔ اپنی سرکاری یا غیر سرکاری پوزیشن کو ناجائز منفعت کے لیے استعمال کرنا بھی کرپشن ہے۔ میرٹ سے ہٹ کر دوستوں اور عزیزوں کو جاب دینا بھی کرپشن ہے۔ فرضی بینک کھاتوں کے ذریعے منی لانڈرنگ کرنا بھی کرپشن ہے۔ شوگر ملوں والے جب کسان کو گنے کی فکسڈ پرائس سے کم ادائیگی کرتے ہیں تو وہ بھی کرپشن کے زمرے میں آئے گا۔ ٹھیکیدار اگر پل میں سریا ٹینڈر سے کم لگاتا ہے تو وہ بھی جرم ہے اور جو انجینئر اس کا بل پاس کرتا ہے، اس کے دستخط بھی قابل تعزیر ہیں۔ ڈنمارک اور نیوزی لینڈ میں یہ کام نہیں ہوتے تو اسلامی تعلیمات پر عمل کر کے یہ ملک سرخرو ہیں۔ 
کسی معاشرے کو تباہ کرنا ہو تو تعلیم میں کرپشن شروع کرا دیں اور خوراک میں ملاوٹ۔ جو بچہ اپنے تعلیمی کیریئر میں نقل کا سہارا لیتا ہے، کیا وہ بڑا ہو کر اخلاقیات کا رول ماڈل بن سکتا ہے۔ گھوسٹ استاد جو سکول صرف تنخواہ لینے آتا ہے، کیا وہ بچوں کے لیے اچھی مثال ہو سکتا ہے۔ ایک زمانے میں جھنگ کے ایک عام سے سکول سے ڈاکٹر عبدالسلام جیسے ہونہار طالب علم نکلتے تھے۔ خوراک میں ملاوٹ ہو گی تو رستم زماں غلام محمد عرف گاما جیسے پہلوان، عبدالخالق جیسا تیز رفتار ایتھلیٹ اور جہانگیر خان کے پائے کے سکواش پلیئر پیدا نہیں ہوں گے۔ اور اگر کچھ اچھے کھلاڑی بن بھی گئے تو راتوں رات امیر ہونے کے چکر میں میچ فکسنگ کا شکار ہو جائیں گے۔ ہمارے کھلاڑی، ہمارے افسر، ہمارے ٹھیکیدار اور ہمارے سیاست دان غلط ترغیبات کے پیچھے کیوں لگ جاتے ہیں؟ اس لیے کہ وہ قرآن کریم صرف پڑھتے ہیں، بشمول افلا تعقلون کے سوال کے مگر اس سوال کی گہرائی میں نہیں جاتے۔
پلاسٹک کے شاپر ہمارے ماحول کیلئے کورونا اور ٹڈی دل سے بڑا خطرہ ہیں۔ حکومت نے پابندی لگائی مگر قوم حکومت کے احکام پر عمل کرنے سے انکاری ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پلاسٹک بیگ کو قدرتی عوامل سے تلف کرنے میں ایک سو سال لگتے ہیں۔ انہیں زمین میں دفن کر دیں تو یہ زہریلی گیس آہستہ آہستہ خارج کرتے رہتے ہیں اور یہ عمل سالوں تک جاری رہتا ہے۔ ہمارے خاکروب اکثر اپنی سہولت کے لیے پلاسٹک شاپر اکٹھے کر کے انہیں آگ لگا دیتے ہیں اور یہ مزید خطرناک ہے۔ زہریلی گیسوں کے اخراج سے ہماری ایئر کوالٹی خراب ہوتی ہے۔ ہماری نالیاں اور سیوریج لائنیں پلاسٹک شاپرز کی وجہ سے بند ہو جاتی ہیں۔ ہمارے نالے، دریا اور سمندر سب پلاسٹک کی وجہ سے آلودگی کا شکار ہوئے ہیں۔ زمینی اور آبی حیات کو ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔ لیکن دکانوں پر شاپر وافر مقدار میں آج بھی موجود ہیں اور روزانہ بے تحاشا استعمال ہوتے ہیں۔ انتظامیہ مفلوج ہے یا جرم میں شریک۔ کیا ہم اس بات پر غور نہیں کرتے کہ جو پاکستان ہم اپنے بچوں کے حوالے کریں گے وہ زیادہ صحت افزا نہیں ہو گا۔ 
1947ء میں مغربی پاکستان میں ہر فرد کے لیے 5260 کیوبک میٹر سالانہ پانی دستیاب تھا۔ آج یہ مقدار 1017 کیوبک میٹر ہے اور بڑی وجہ آبادی کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے جو آزادی کے بعد چھ گنا بڑھا ہے۔ محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ 2025ء کے بعد ہم پانی کی کمی کی پریشانی کا شکار ہونے لگیں گے۔ اس پرابلم کا ایک حل تو تواتر سے مزید ڈیم بنانا ہے تا کہ گرمیوں کے مہینوں میں فاضل پانی سٹور کریں اور پورا سال استعمال کریں۔ منگلا اور تربیلا ڈیم بنانے کے بعد نہ جانے کیوں ہم آرام سے بیٹھ گئے اور آنے والے مسائل کی پیش بندی نہ کی۔ بے عملی سے مسائل بڑھتے رہتے ہیں، ختم نہیں ہوتے۔
پاکستان میں صرف 20 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی اور ایٹمی طاقت ہو جہاں صاف پانی کی سپلائی اس قدر کم ہو۔ انڈیا میں صورت حال پاکستان سے بہتر ہے، وہاں تقریباً نصف آبادی کو پینے کے لیے صاف پانی میسر ہے۔ ناقص پانی کی وجہ سے پاکستان میں ہیپاٹائٹس اے یعنی یرقان عام ہے۔ اتائی ڈاکٹر اور حجام کالا یرقان اپنے اوزاروں کے ذریعے پھیلا رہے ہیں۔ پاکستان دنیا کے معدودے چند ملکوں میں سے ہے جہاں پولیو کی باقیات موجود ہیں۔ جہاں والدین سمجھتے ہیں کہ پولیو کے قطرے ان کے خاندان کے خلاف سازش ہیں۔
سنگا پور نے کرپشن کا صفایا کیا، مکمل میرٹ پر عمل کیا اور قدرتی وسائل نہ ہونے کے باوجود ترقی کی علامت بن گیا اور ہم 1960 کی دہائی تک اچھے خاصے تھے۔ کرپشن، میرٹ کی پامالی اور انصاف کی نایابی کی وجہ سے ہم پیچھے رہ گئے۔ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ افلاتعقلون کے قرآنی سوال پر روزانہ غور کرے۔ ملک پھر سے ترقی کرنے لگے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved