تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     20-06-2020

پیٹ بھی خالی اور جیب بھی خالی

تالا بندی کا چوتھا دور شروع ہو چکا ہے۔ وفاقی سرکار نے اچھا کیا کہ صوبائی سرکاروں کو یہ طے کرنے کا حق دے دیا کہ وہ اپنے یہاں کہاں کہاں اور کتنا کتنا تالا لگائے رکھیں اور دیگر صوبوں کے ساتھ بھی ان کے آنے جانے کے تعلق کیسے رہیں۔ کورونا میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد گرمی کے باوجود بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کا ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ بھارت کو ابھی اگلے دو تین مہینے تک زیادہ خبردار رہنا ہو گا۔ اس بیچ وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے پانچ اقساط میں بیس لاکھ کروڑ روپے کی راحت کا جو اعلان کیا ہے‘ اپوزیشن نے اسے کورا فراڈ بتایا ہے‘ لیکن حقیقت میں اگر ان کے اعلانات کو عملی جامہ پہنایا جا سکا تو ملک کے کسان‘ چھوٹی تجارت‘ اور ہتھیار بنانے کے شعبے کو کچھ کچھ فائدہ ضرور ہو گا۔ کئی ماہر اقتصادیات کی یہ رائے رہی کہ بیس لاکھ کروڑ روپے کی راحت کی صرف باتیں ہیں‘ دراصل یہ تین چار لاکھ کروڑ سے زیادہ کی راحت نہیں ہے۔ زیادہ تر راحتیں تو سالانہ بجٹ سے ہی اٹھا کر اس کورونا راحت میں دے دی گئی ہیں‘ یعنی یہ کورا لفظی جال ہے۔ اگر اسے ہم مذمت مان لیں تو بھی بنیادی سوال یہ ہے بھارت کی اکانومی گزشتہ دو ماہ میں بالکل ہی لنگڑا گئی ہے‘ اسے رفتار کیسے ملے گی؟ دنیا بھر میں معروف ادارے گولڈمین ساکس کے مطابق تین ماہ میں بھارتی اکانومی لگ بھگ 45 فیصد سکڑ جائے گی اور بھارت کی ساری پیداوار پانچ فیصد جی ڈی پی میں برباد ہو جائے گی۔ اکانومی کو پٹڑی پر لانے کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے بازاروں میں مانگ کا ہونا اور لوگوں کے ہاتھ میں پیسہ ہونا۔ چھوٹی صنعت کو تین لاکھ کروڑ روپے کا قرض دینے کا اعلان کیا گیا لیکن کیا یہ بھی کس نے سوچا کہ جب خریداروں کی جیب میں پیسہ ہی نہیں ہے تو کارخانوں میں بنا مال بکے گا کیسے؟ کارخانے دار فضول قرض کے نیچے کیوں دبنا چاہیں گے؟ مزدوروں کے لیے منریگا کی مزدوری بڑھانا مبارک لیکن یہ بتائیے کہ جب انہیں گائوں میں بیٹھے ہوئے 202 روپے روز اور مفت اناج ملے گا تو وہ شہروں میں واپس کیوں لوٹیں گے؟ اگر ان کو لوٹانا ہے‘ کارخانوں کو چلوانا ہے‘ بازاروں میں رونق لانی ہے تو امریکہ‘ کینیڈا‘ انگلینڈ اور جرمنی کی طرح کروڑوں کسانوں اور مزدوروں کو کم از کم دو تین ماہ تک زندگی گزارنے کا بھتہ دیجئے۔ خالی پیٹ اور خالی جیب کو بھرے بنا اکانومی کو پٹڑی پر لانا مشکل ہے۔
کوروناکا علاج مفت ہو!
دہلی میں صرف دلی والوں کا ہی علاج ہو، اس معاملے پر مودی حکومت اور کیجریوال حکومت کے درمیان جو مقابلہ ہوا، اس کا اختتام اتنا خوبصورت ہے کہ وہ بھارت ہی نہیں، ہمارے تمام پڑوسی ممالک کیلئے بھی مثالی ہے۔ جن جن ممالک میں مرکز اور ریاستوں میں متضاد جماعتوں کی سرکار ہیں، ان ممالک کو بھی اس معاملے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ ہوا یہ کہ دہلی کی 'عآپ‘ حکومت نے اعلان کر دیا کہ دہلی کے ہسپتالوں میں کورونا کے صرف انہی مریضوں کا علاج کریں گے جو دہلی کے ووٹر ہیں‘ جو لوگ اڑوس پڑوس کے صوبوں سے آ کر دہلی کے ہسپتالوں میں بھیڑ لگاتے ہیں، انہیں اب یہاں نہیں آنے دیا جائے گا کیونکہ دہلی کے ہسپتالوں میں مریضوں کی بھرمار ہو رہی ہے، ہسپتالوں میں بستروں کی کمی پیدا ہو رہی ہے اور کورونا کا حملہ کافی تیز ہوتا چلا جا رہا ہے۔ دہلی حکومت کی دلیل تھی کہ اگر دہلی کے ہسپتال پورے ملک کیلئے کھول دئیے گئے تو یہاں افراتفری مچ جائے گی۔ اپنی جگہ دہلی حکومت ٹھیک تھی لیکن دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر، جو مرکز کے نمائندے ہیں، نے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے اس حکم کو الٹ دیا۔ بی جے پی اور عآپ کے ترجمانوں میں رسہ کشی شروع ہو گئی۔ کانگریس بھی اس دنگل میں کود پڑی‘ لیکن جیساکہ میں نے پہلے لکھا تھا‘ یہ دنگل ان پارٹیوں اور لیڈروں کی حالت خراب کر دے گا۔ انہیں چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے بجائے اس کورونا کے بحران کا سامنا مل جل کر کریں۔ پچھلے دنوں کمال ہو گیا۔ سب کی توقع کے برعکس کیجریوال کا انتہائی سنجیدہ بیان آ گیا کہ وہ لیفٹیننٹ گورنر کے حکم پر مکمل طور عمل کریں گے‘ یعنی دہلی کے ہسپتال کورونا کے ہر مریض کیلئے کھلے رہیں گے۔ کیجریوال خود جا کر وزیر داخلہ امیت شاہ سے بھی مل آئے۔ نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے دہلی میں کورونا کے ممکنہ خطرے کے کھیل کی حقیقت پسندانہ تصاویر بھی کھینچ دی ہے۔ اگر جولائی کے آخر تک مریضوں کی تعداد دہلی میں ساڑھے پانچ لاکھ ہونی ہے تو ظاہر ہے کہ ڈیڑھ لاکھ بستروں کا انتظام اکیلی دہلی حکومت نہیں کر سکے گی؟ لیفٹیننٹ گورنر کو پوری طاقت لگانی ہو گی تاکہ دہلی میں کوئی بھی مریض نظر انداز نہ ہو۔ دہلی اور مرکز کی حکومتیں، بلکہ تمام صوبائی حکومتیں یہ اعلان کیوں نہیں کرتیں کہ کورونا کے ہر مریض کا علاج مفت ہو گا؟ اس کا خرچ حکومت دے گی۔ اس سے سرکاری ہسپتالوں میں افراتفری اور غیر سرکاری ہسپتالوں میں چل رہی لوٹ مار بھی بند ہو جائے گی اور عام مریضوں کو کافی راحت ملے گی۔ اس میں شک نہیں کہ کورونا کی اس جنگ میں تمام وزیر صحت، وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم پوری یکسوئی سے لگے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی شکایات کی کمی نہیں ہے۔ اگر کورونا کے علاج میں سے پیسے کا حساب کتاب ختم کر دیا جائے تو ساری دنیا کیلئے بھارت ایک مثال بن جائے گا۔
نیپال کی غیر ضروری جارحیت
لداخ کی سرحد پر بھارت اور چین کے مابین اختلافات ابھی تک چل رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں دونوں ممالک کی فوجی دستوں میں جو جھڑپیں ہوئی تھیں، انہوں نے چینی اور بھارتی میڈیا کے کان کھڑے کر دیئے تھے۔ ریٹائرڈ فوجیوں اور صحافیوں نے ایسا ماحول بنا دیا تھا، جیسے کوئی بڑا تصادم ہونے والا ہے۔ اب بھارت نیپال سرحدی تنازع کو لے کر کئی جارحانہ تیور سامنے آ گئے ہیں پھر بھی بھارتی وزیر دفاع اور وزیر داخلہ نے سختی تو دور کی بات‘ اپنے سرحدی دفاع کو لے کر کوئی جذباتی بیان بھی نہیں دیا۔ اب دونوں ممالک کے فوجی افسروں کی بات چیت سے کشیدگی کافی کم ہو گئی ہے۔ جن تین مقامات سے دونوں ممالک نے اپنی فوجیں 2-3 کلومیٹر پیچھے ہٹا لی ہیں، وہ ہیں پٹرول پوائنٹ، 14، 15، 17 جن دو مقامات پر ابھی بحث ہونی ہے، وہ ہیں پے گاگ تساو اور چشول! لیکن وہی بات کہ کشیدگی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ بھارت چاہتا ہے کہ اپریل کے مہینے میں جو صورتحال تھی، فوجیں، اسی پر لوٹ جائیں۔ جیسا کہ مجھے شروع سے اندازہ تھا کہ دونوں ملک اس کورونا بحران کے دوران کوئی نیا درد سر مول لینے کی پوزیشن میں نہیں‘ لیکن نیپال کی حیثیت کچھ مختلف ہے۔ وہاں کی داخلی سیاست اتنی گہری ہے کہ اس کے وزیر اعظم پی کے اولی نے مجبور ہو کر بھارت کے خلاف سفارتی جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ انہیں اپنی پارٹی میں اپنے مخالفین کا منہ بند کرنے کے لئے بھارت کی مخالفت کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے سگولی معاہدہ (1816) کی تشریح کرتے ہوئے بھارت اور نیپال کا ایک نیا نقشہ گھڑ لیا ہے۔ اس نقشے میں کالا پانی، لپلیکھ اور لمپیادھورا علاقوں کو وہ نیپالی سرحد میں دکھا رہے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ اس آئینی ترمیم کی اہمیت کیا ہے؟ ایسا کرنے سے کیا 200 سال سے چلی آ رہی حقیقت بدل جائے گی؟ بھارت طشتری میں رکھ کر یہ علاقے نیپال کو ہدیہ کر دے گا کیا؟ کیا نیپال کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ اس علاقے پر اپنا فوجی قبضہ جما لے گا؟ یہ ٹھیک ہے کہ بھارت نے اس معاملے پر بات چیت میں بہت دیر لگا دی ہے لیکن بات چیت شروع کروانے کیلئے یہ آئینی دبائو بنانا کیا مچھر مارنے کیلئے پستول چلانے جیسی انتہا پسندی نہیں ہے؟ یہ قدم اٹھا کر اولی حکومت نیپالی عوام کی نظر میں مضحکہ خیز بنے بغیر نہیں رہے گی۔ نیپال کی یہ جارحیت غیر ضروری ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved