تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     21-06-2020

صدارتی ریفرنس کا فیصلہ کئی مقدمات میں نظیر بنے گا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس خارج کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو غیر مؤثر قرار دے دیا ہے۔ عدالت نے ایف بی آر کی پہلے سے کی گئی کارروائی ختم کر تے ہوئے کہا ہے کہ سات روز کے اندر نئے سرے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پتے پر ان کی اہلیہ اور بچوں کو لندن کی تین جائیدادوں پر نوٹس دے کر نوعیت اور ذرائع کا پوچھا جائے اورمتعلقہ کمشنر نوٹس وصول کرنے کے 75 دن میں فیصلہ سنائے گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں حکومت کا ماننا تھا کہ معزز جج بظاہر مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہیں سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر ہٹا دیا جائے۔ وزیر اعظم آفس نے اپنے ایسٹس ریکوری یونٹ کے ذریعے ان الزامات کی تصدیق کرنے اور سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے ریفرنس دائر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ریفرنس کے مطابق 10 اپریل 2019ء کو عبد الوحید ڈوگر نے وزیر اعظم کے ایسٹس ریکوری یونٹ میں ایک شکایت داخل کی اور اطلاعات فراہم کیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر دو ججز کے بیرون ملک اثاثے ہیں۔ ایسٹس ریکوری یونٹ نے تحقیقات کیں اور 28 دنوں کے اندر نہ صرف تحقیقات مکمل کرلیں بلکہ برطانیہ اور پاکستان میں ان حقائق کی تصدیق بھی کرلی ۔ اس نے ایف آئی اے اور ایف بی آر سے بھی اس کی تصدیق کی کہ یہ اثاثے ظاہر نہیں کئے گئے۔ حکومت نے اپنے ریفرنس میں الزام لگایا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی جانب سے غیرملکی اثاثے حاصل کرنے کے ذرائع کی جوابدہی نہیں کی گئی اس لئے سپریم جوڈیشل کونسل کو اس معاملے کی تفتیش کرنی چاہیے کہ آیا یہ اثاثے منی لانڈرنگ کے ذریعے تو حاصل نہیں کئے گئے ؟
عدالتی فیصلے سے پہلے کئی اندازے لگائے گئے تھے‘مگر عدالت نے عوام کی رائے یا حکومت کی خواہش کی بجائے کیس کے میرٹ پر فیصلہ دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ابھی صرف آرڈر جاری کیا ہے‘ تفصیلی فیصلہ بعد میں آئے گا۔یاد رہے کہ آرڈر اور فیصلے میں معمولی فرق ہے جسے عام طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے‘ آرڈر صرف ہدایت نامہ ہوتا ہے جبکہ فیصلے میں اس آرڈر یا حکم کی تفصیلی وجوہات کا ذکر ہوتا ہے۔ آرڈر آنے کے بعد کچھ غیرمحتاط حلقے اپنی خواہشات اور ترجیحات کے تحت تبصروں میں لگے ہیں۔ ایک خاص ذہن رکھنے والا طبقہ‘ جو معزز جج صاحب کی درخواست خارج ہونے کا خواہشمند تھا مایوس ہوا ہے‘ لیکن اپنا کیس ملیا میٹ ہونے پر نئی آس لیے بیٹھا ہے اور اس کا مؤقف ہے کہ معاملہ ایف بی آرکو بھیج دیاگیا ‘رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع ہوگی اور واپس معاملہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے پاس آئے گا ‘انتظامیہ کا عمل دخل ختم۔ مزید انتظار کریں‘حساب دینا پڑے گا۔ یہ تو خواہشات کے اسیروں کا تبصرہ ہے۔ کچھ لوگ ابھی کنفیوژ ہیں اور انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ 
عدالتی آرڈر میں تین اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں‘ ان پر بھی مختلف آرا ء دی جا رہی ہیں‘ ہر کوئی اپنی مرضی کی تعبیر کرنے پر لگا ہے‘ کسی کا خیال ہے کہ تین اختلافی نوٹس کے بعد حکم نامہ متفقہ نہیں اکثریتی بن گیا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اختلافی نوٹس تکنیکی نوعیت کے ہیں‘ حکم نامہ متفقہ ہے۔ اختلافی نوٹس کوتکنیکی کہنے والوں کا ماننا ہے کہ جسٹس یحییٰ آ ٓفریدی نے حکم نامے سے اتفاق کیا ان کا اختلاف صرف اس حد تک ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست قبل از وقت ہے‘ تاہم دیگر چودہ درخواستوں کو قابل سماعت مان کر انہوں نے نتیجے سے اتفاق کیا اور ریفرنس خارج کرنے کے حکم نامے سے اتفاق کیا ہے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ جسٹس آفریدی کے خیال میں جسٹس فائز عیسیٰ کودرخواست دینے کی ضرورت نہیں تھی‘ باقی فریق جو درخواست لائے وہ سنی جانی چاہیے۔ دیگر دو اختلافی نوٹس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کو قابلِ سماعت مانا گیا اور اسے قبل از وقت نہیں کہا گیا‘ یوں حکم نامے کی روح کسی بھی طرح متاثر نہیں ہوتی۔ تین جج صاحبان نے اپنے نوٹس میں ریفرنس کے خاتمے کے بعد جسٹس صاحب کی اہلیہ اور بچوں کی جائیداد کا معاملہ ایف بی آر کی طرف بھیجنے کے متعلق کچھ نہیں لکھا اور اس معاملے پر خاموشی اختیار کی۔ یوں اختلافی نوٹ لکھنے والوں نے معاملہ حکومت پر چھوڑ دیا۔ باقی سات ججز نے معاملہ ایف بی آر کو بھجوانے کی بات کی ‘ ان معزز جج صاحبان کے اس حکم نامے کا منشا شاید یہ ہے کہ معاملہ عدالت تک آیا ہے تو اسے منطقی انجام تک پہنچایا جاناچاہیے۔جہاں تک معاملہ ایف بی آر کو بھیجے جانے کا سوال ہے تو یہ واضح ہو گیا کہ مسئلہ جسٹس فائز عیسیٰ کے بچوں اور اہلیہ کا ہے اس لیے سوال انہی سے ہونا چاہیے‘یوں مس کنڈکٹ کا جو سوال اٹھایا گیا تھا ‘اپنی موت آپ مر گیا اور ریفرنس کی بنیاد مسمار ہوگئی۔ اگر جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے خلاف کوئی کیس بن بھی جائے تو معزز جج صاحب کی حیثیت پر اثرانداز نہیں ہوسکتا۔ حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ اس سے پہلے ایف بی آر نے جو کارروائی کی تھی وہ ختم تصور کی جائے‘ اس کا مطلب ہے کہ عدالت نے جاسوسی کے ذریعے حاصل کی گئی معلومات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے اور واضح کر دیا ہے کہ ججز کی جاسوسی کا طریقہ اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے متعلق وضاحت جمعہ کو ہونے والی کارروائی سے ملتی ہے جب وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے ایف بی آر کی دستاویز سر بمہر لفافے میں عدالت میں جمع کرائیں‘ اس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ جج صاحبان اس لفافے کا جائزہ نہیں لیں گے اور نہ ہی کوئی آرڈر پاس کریں گے کیونکہ درخواست گزار کی اہلیہ تمام دستاویزات ریکارڈ پر لا چکی ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کی تصدیق کروائیں۔سب سے اہم بات جو مسلم لیگ (ن) کے رہنما کہہ رہے ہیں کہ ریفرنس خارج ہونے کے بعد حکومتی بدنیتی ثابت ہوگئی اس لیے ریفرنس بھجوانے کے ذمہ دار استعفیٰ دیں ‘ یہ مطالبہ بھی قبل ازوقت لگتا ہے‘ مناسب تھا کہ تفصیلی فیصلے کا انتظار کیا جاتا۔ تفصیلی فیصلے میں ریفرنس خارج کرنے کی بنیاد سامنے آئے گی‘ جس کے بعد ہی واضح ہوگا کہ ریفرنس بنانے والوں نے کیا کوتاہی کی اور کوئی بدنیتی شامل تھی یا نہیں ؟ 
اس عدالتی حکم نامے میں اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے بارے میں فوری طور پر کچھ شامل نہیں‘ تفصیلی فیصلے میں شاید اس پر بھی کچھ شامل ہو ‘کیونکہ سماعت کے دوران اس یونٹ کی قانونی حیثیت پر کئی سوال اٹھائے گئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ ایسٹس ریکوری یونٹ کا قیام قانون کے خلاف ہے اور وزیر اعظم کو کوئی نیا ادارہ یا ایجنسی بنانے کا اختیار نہیں۔ اْنہوں نے کہا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی تشکیل کیلئے رولز میں ترمیم ضروری تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اْن کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ سے باضابطہ قانون سازی کے بغیر اثاثہ جات ریکوری یونٹ جیسا ادارہ نہیں بنایا جا سکتا۔ سندھ بار کونسل کے وکیل رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر دیا گیا کہ ایسٹس ریکوری یونٹ لیگل فورس ہے اور حکومت کے مطابق وزیراعظم ادارہ بنا سکتے ہیں‘حالانکہ ایسا نہیں ہے‘نیز اس یونٹ کو لامحدود اختیارات دیے گئے جبکہ اس کیلئے قانون سازی نہیں کی گئی۔
تفصلی فیصلے میں بہت کچھ واضح ہوگا اور یہ بھی ممکن ہے کہ پارلیمنٹ کو بائی پاس کرکے بنائے گئے ریکوری یونٹ کی حیثیت پر عدالت کوئی رائے دے‘ ایسی صورت میں ایسٹس ریکوری یونٹ کی مدد سے بنائے گئے کئی کیسز کی حیثیت کا بھی فیصلہ ہو جائے گا‘ یوں کئی حوالوں سے یہ کیس ایک تاریخی کیس ہے اور مستقبل میں بھی کئی مقدمات میں نظیر بنے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved