آئین کے تحفظ کیلئے جیلوں میں جانے کو تیار ہیں: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''آئین کے تحفظ کے لیے جیلوں میں جانے کو تیار ہیں‘‘ اس لیے ہمیں جعلی اکائونٹس وغیرہ کے مقدمات میں جیل بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے اور جس طرح ہم اپنے خلاف تمام کارروائیوں کو انتقامانہ قرار دے رہے ہیں‘ اسی طرح ہمیں جس جرم میں بھی جیل بھیجا گیا ‘ہم سمجھیں گے کہ آئین کے تحفظ کے جرم میں ایسا کیا گیا ہے اور اگر ہم نے اثاثے بنائے ہیں تو آئین میں اس کی ممانعت نہیں ہے‘ جبکہ اس میں منی ٹریل وغیرہ دینے کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی اس میں جعلی اکائونٹس کو آئین کے خلاف قرار دیا گیا ہے‘ اس لیے ہماری طرف سے اس کی خلاف ورزی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت اگر کچھ وقت کے لیے اپوزیشن سے
توجہ ہٹا لیتی تو مسئلہ حل ہو سکتا تھا: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''حکومت اگر کچھ وقت کے لیے اپوزیشن سے توجہ ہٹا لیتی تو مسئلہ حل ہو سکتا تھا‘‘ کیونکہ ہمیں اندر کرنے سے پہلے حکومت کو کچھ ملا ہے‘ نہ آئندہ ملے گا اور اسی کو غنیمت سمجھیں ‘ جو بھائی صاحب جاتے ہوئے دے گئے تھے‘ لیکن حکومت صرف ہمارے معاملات میں دلچسپی لے رہی ہے؛ حالانکہ ہم نے اپنے ان معاملات میں کبھی کوئی خصوصی دلچسپی نہیں لی اور سارا کچھ روٹین ہی میں ہوتا رہا ہے‘ بلکہ اللہ میاں کی قدرت سے ہمارے اکائونٹس میں غائبانہ طور پر بھی پیسے آ جایا کرتے تھے‘ جسے ہم صرف غیبی امداد سمجھتے ہیں اور کبھی یہ کھوج لگانے کی کوشش نہیں کی کہ یہ پیسے کہاں سے اور کیوں آتے چلے جا رہے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
درکار
یہ اقرار مصطفی کا مجموعۂ غزل ہے‘ جسے سخن پبلی کیشنز لاہور نے شائع کیا ہے۔ انتساب والد محترم کے نام ہے۔ کتاب پر اظہارِ رائے کرنے والوں میں ڈاکٹر غلام بشیر احمد اوروقاص عزیز شامل ہیں۔ پیش لفظ شاعر کا بقلم خود ہے۔ سرورق کے اندر اور باہر شاعر کے منتخب اشعار اور تصویر شائع کی گئی ہے۔ اقرار مصطفی کا مجموعۂ غزل '' درکار‘‘ میں فنی نقائص سے پاک اور تقریباً بے عیب شاعری ہے اور جدید اُردو غزل کا مطالعہ کرنے سے بہتر ہو سکتی ہے۔ یہاں کچھ نمونۂ کلام پیش ہے:
رونا کاہے کا اگر یار بدل جاتا ہے
دن ڈھلے سایۂ دیوار بدل جاتا ہے
لوگ دیوانہ کہیں جب کہ حقیقت یہ ہے
حالتِ عشق میں کردار بدل جاتا ہے
کیا زمانہ تھا بدلنے پہ بدلتا ہی نہ تھا
کیا زمانہ ہے جو ہر بار بدل جاتا ہے
وقت کے تازہ تقاضوں کو نبھانے کے لیے
فن بدل جاتا ہے‘ کردار بدل جاتا ہے
اور‘ اب آخر میں ابرارؔ احمد کی یہ نظم:
ہماری یاد کا حصہ
فون پر ہونے والی گفتگو جو ابھی ابھی ختم ہوئی
سٹریچر پر پڑا ہوا شخص
جس پر سفید چادر ڈال دی گئی
پچھلے برس گرایا جانے والا پُل
کل شام ہونے والی بارش
جس میں ہم تم بھیگتے رہے
وہ لڑکی‘ جس نے چلتی گاڑی سے ہاتھ ہلایا
اور وہ بچے
جو مسکراتے ہوئے ہمارے سامنے سے گزر گئے
اب ہماری یاد کا حصہ ہیں
گلی کی نُکڑ کا لیمپ
جو ہوائوں میں ہلتا رہتا تھا
لالٹین کی زرد روشنی
جس کے گرد‘ ہم دائرے میں بیٹھا کرتے تھے
اور وہ فراغت----
ہر سچائی پر شک کرنے کی عادت
زندگی سے وابستہ اکتاہٹ
پیشے کے چنائو کی لا حاصل بحث
اور یہ بے حقیقت وجود
جس کا بوجھ
کبھی ناقابل ِبرداشت ہوا کرتا تھا
وہ محبتیں‘ جو بیت گئیں
جن کے ذریعے ہم زندگی سے ہم کنار ہوئے
اور موت سے شناسا
وہ شہر جنہیں ہم نے ترک کر دیا
اور وہ دوست
جن سے ہم آخری مرتبہ ہاتھ ملا چکے
ہمارے وہ دن‘ جو خاک میں مل گئے
اور دل میں‘ بہت گہری کھدی ہوئی کچھ قبریں
سب کچھ
اب ہماری یاد کا حصہ ہیں
جب تک‘ ہم خود
ایک یاد میں تبدیل نہیں ہو جاتے!
آج کا مطلع
دیکھو تو مطمئن ہیں اور ہر نظر میں خوش ہیں
وہ اپنے گھر میں خوش ہیں‘ ہم اپنے گھر میں خوش ہیں