تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     21-06-2020

ارطغرل غازی کی منتظر قوم

ترک مسلمانوں کے رومانوی کردار ارطغرل غازی پہ بنائی گئی ڈراما سیریل کی پاکستانی سماج میں مقبولیت کوئی حیران کن بات نہیں ‘بلکہ مغلوب قوموں کیلئے اپنے شاندار ماضی سے امید کی روشنی لینا (انسپائریشن) فطری امر ہے۔حیرت انگیز طور پہ انسان ماضی سے محبت‘حال پہ معترض اور مستقبل کے عواقب سے خوفزدہ رہتا ہے‘خاص کر وہ ٹوٹی ہوئی قومیں‘ جنہیں مسلسل ناکامیوں نے مایوسی کے قعر مذلت تک پہنچا دیا ہو‘ زندگی کے نئے امکانات تلاش کرنے کی بجائے اجداد کے کارناموں پہ اِترانے میں ذہنی لذت محسوس کرنے کے علاوہ اس حسین ماضی میں پناہ ڈھونڈتی ہیں‘ جو کبھی لوٹ کے واپس نہیں آ سکتا؛اگرچہ اس کیفیت میں بھی نفی و اثبات کے دونوں پہلو پائے جاتے ہیں‘یعنی آبائو اجداد کے کارنامے ایک طرف ہمیں مایوسی کی یبوست سے نجات پانے کا حوصلہ دیتے ہیں تو دوسری جانب پُرشکوہ ماضی کے یہی حوالے ہمیں لذت خیال میں مبتلا کر کے بے عملی کی طرف مائل بھی کر سکتے ہیں؛البتہ ارطغرل جیسے کرداروں کی تشہیر میدان ِجنگ میں لڑنے والے سپاہیوں میں جوش وجذبہ پیداکرنے کا موثر وسیلہ بن سکتی ہے۔
غالب امکان یہی ہے کہ عثمانی ترکوں نے بھی ارطغرل کے مثالی کردار کو اس عہد کی نوخیز نسلوں کے ذہنی شکوہ کو بام عروج تک پہچانے کیلئے بنایا سنوارا ہو گا‘ کیونکہ ارطغرل کی حقیقی زندگی بارے ہمیں تاریخ کی کتابوں میں مستند مواد نہیں ملتا ‘ لیکن اس کے بیٹے عثمان اوّل کے عروج کے زمانہ میں ارطغرل بارے کئی ایسی رومانوی داستانیں مشہور ہوئیں ‘جن میں اسے بہادر‘ نڈر‘ عقلمند‘ ایماندار‘وفادار اور بیباک کمانڈر ہونے کے علاوہ سلجوقی سلطنت کے وفادار کے طور پہ پیش کیا گیا۔تاریخ کی مستند کتابوں میں تو ارطغرل کے احوالِ زندگی اورکارناموں کے متعلق ثبوت موجود نہیں؛ البتہ ان کے بیٹے عثمان اوّل کے ڈھالے ہوئے سکّوں سے تاریخی طور پر ان کے وجود کی تصدیق ہو جاتی ہے۔ان سکّوں پہ عثمان اوّل نے اپنے والد کا نام ارطغرل نقش کروایا تھا؛چنانچہ تاریخ دانوں کو ان کے حالات ِزندگی کے حوالے سے ان لوک کہانیوں پر انحصار کرنا پڑا‘جو ان کی وفات کے سو سال بعد سلطنت عثمانیہ میں مقبول ہوئیں ‘مگر ان لوک داستانوں کی ثقافت پر بھی کئی طرح کے شکوک و شبہات ظاہر کئے جاتے ہیں۔کہتے ہیں کہ ارطغرل نے اپنے والد سلمان شاہ سے قطعہ زمین کا مطالبہ کیا تو سلمان نے سوغوت (ترکی: Sögüt) کی سر زمین دان کر کے ارطغرل کو اس خطہ کا سردار مقرر کر دیا۔اس زمانہ میں یہ علاقہ بازنطینی سلطنت کی سرحد پر واقع تھا‘بعد ازاں اس سرزمین پر کچھ ایسے واقعات پیش آئے ‘جو آگے چل کر بازنطینیوں کے زوال اور سلطنت ِعثمانیہ کی اساس کا سبب بنے۔روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ سلطان علاؤالدین کی قباد اوّل نے ارطغرل کی خدمات سے متاثر ہو کر انہیں سوغوت اور اس سے ملحقہ کئی شہر بطور جاگیر بخش دینے کے علاوہ ''سردار اعلیٰ‘‘کا منصب بھی عطا کیا‘ بعدازاں ان کی عالی ظرفی سے متاثر ہو کے آس پاس کے کئی ترک قبائل رضاکارانہ طور پہ ان کے اردگرد جمع ہوتے گئے۔غیر معتبر تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ارطغرل کا تعلق غز ترک قبیلہ کی شاخ قائی سے تھا‘ان کا خاندان بیگ (سردار) کہلاتا تھا‘ یہ قبیلہ عقیدتاً اہل سنت اور حنفی مسلک سے وابستہ تھا‘ لیکن کچھ مورخین نے یہ بھی لکھا کہ ترک ہسٹری میں قائی قبیلہ کا کوئی نشاں نہیں ملتاہے۔
اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ عثمان اوّل کے زمانہ میں نازاں خاندان نے قائی قبیلہ کے نام سے اپنی جداگانہ شناخت متعارف کرائی ہو اور سلجوقی سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی مسلم امہ کو ایک پرچم تلے اکٹھا کرنے والی آخری قوت ختم ہوئی تو امت کو طوائف الملوکی اورشورشوں نے گھیر لیا۔انتشار کے اسی مرحلہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صلیب کے فرزندوں نے ان صلیبی جنگوں کا آغاز کیا ‘جوکم و بیش 200 سال تک جاری رہیں۔عیسائیوں نے پہلی صلیبی جنگ میں نہایت آسانی کے ساتھ بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔صلیبیوں کے حملے سے سلجوقیوں کی رہی سہی طاقت ختم ہوگئی؛ چنانچہ 1260ء کی دہائی میں منگولوں کی اناطولیہ پر چڑھائی کے ساتھ آخری سلجوق سلطنت (سلاجقہ روم) کا بھی خاتمہ ہو گیا۔کہتے ہیں کہ ارطغرل غازی کی زندگی کے آخری ایام میں جب سلجوقی سلطنت آخری سانسیں لے رہی تھی توانہوں نے اس کرہ ارض پہ ایک عظیم الشان اسلامی سلطنت کا قیام کا خواب دیکھا۔
چنانچہ ارطغرل کے سب سے چھوٹے بیٹے غازی عثمان اوّل نے ان کا یہ خواب پورا کر دکھایا۔ انہوں نے عظیم الشان سلطنت ِعثمانیہ کی بنیاد رکھی‘ جو 1922 ء تک قائم رہی۔مشہور ہے کہ ارطغرل غازی کی وفات قائی قبیلے کی سرداری اپنے بیٹے عثمان اوّل کے سپرد کرنے کے بعد 1281ء میں سوغوت شہر میں ہوئی‘بعض دوسرے ذرائع ان کی تاریخ وفات 1288ء بتاتے ہیں۔سوغوت شہر کے مضافات میں ایک قبر بھی ارطغرل غازی سے منسوب تھی‘ لیکن اس پر کوئی قدیم تحریر نہیں ملتی ہے ۔ارطغرل غازی کے مقبرہ پر موجودہ تحریر سلطان عبد الحمید دوم کے عہد میں 1886-87ء میں مقبرے کی مرمت و بحالی کے وقت کندہ کرائی گئی تھی۔پہلی بار مقبرہ تعمیر کرانے کی تاریخ بھی معلوم نہیں‘ لیکن اتنا پتا ہے کہ یہ مقبرہ تیرہویں صدی کے آخر میں موجود تھا‘اسے سب سے پہلے عثمان اوّل نے مجرد قبر کے طور پر تعمیر کرایا‘بعد میں سلطان محمد اول کے دور میں اس قبر کو مقبرے میں تبدیل کیا گیا۔مصطفی ثالث کے دور میں اسی مقبرہ کو دوبارہ تعمیر کرا کے اصل عمارت کی ہیت بدل دی گئی۔
19ویں صدی میں عثمانی بحریہ نے اپنے ایک جنگی جہاز کا نام ارطغرل رکھا‘جو بحری سفر کے دوران1890ء میں جاپان کے قریب حادثے کا شکار ہوگیا۔ 1998ء میں ترکمانستان کے شہر اشک آباد میں ایک مسجد ارطغرل غازی نیلی مسجد کی طرز پر تعمیر کرائی گئی۔2014ء سے 2019ء کے درمیان ترکی کے سرکاری ٹی وی نے ارطغرل کی زندگی سے متعلق پانچ سیریل چلائیں‘جس سے اندازہ ہوتا ہے‘ترک آج بھی ارطغرل کے کردار کو سورس آف انسپائریشن بنا کے سلطنت عثمانیہ کی بحالی کے خواب دیکھتے ہیں۔امر واقعہ یہ کہ اسلام کے قرون اولیٰ میں عروج دیکھنے کے بعد عباسی معدوم ہو گئے‘قرون ِوسطیٰ میں سلجوقی و عثمانی ترک اور ماضی قریب میں مغلیہ خاندان عروج و زوال کے مظاہر میں ایسے ڈوبے کے ان کا نشان تک نہیں ملتا۔ہزاروں برسوں پہ محیط انسانی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ قدرت نے کسی قوم کو دوسری بار عروج نہیں بخشا؛بلاشبہ غزوۂ ہند کے حوالے سے روایات کے مطابق اور تاریخ کے اٹل قوانین کے تحت اب‘ مسلمانوں کے عروج کا مرکز ہند(یعنی موجودہ پاکستان) بنے گا‘جس کے اثار نمایاں ہیں۔عباسیوں نے رومیوں کو پسپا کرنے‘سلجوقیوں اور عثمانی ترکوں نے بازنطینیوں اور مغلوں نے ہندوستان کو شکست دیکر عروج حاصل کیا تھا‘لیکن ہندوستان کے مسلمانوں نے پہلے ہندو‘انگریز گٹھ جوڑ کے خلاف جدوجہد کر کے الگ مملکت حاصل کی اور پھر یکے بعد دیگرے روس جیسی مہیب فوجی قوت اور اب‘ امریکا جیسی سپر پاور کی شکست کے اسباب مہیا کر کے اس خطے کے مسلمانوں کی احساس برتری فراہم کیا۔شاید اس عہد کا ارطغرل یہیں پیدا ہو! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved