تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     21-06-2020

اٹھارہویں ترمیم کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں

دنیا میں سب سے تکلیف دہ احساس ‘ احساس ِزیاں ہے ۔ جب یہ احساس اجتماعیت کا روپ دھارتا ہے اور افراد‘قوموں اور حکومتوں کے حصے میں آتا ہے تو اس کی چبھن مقتل گا ہ کا منظر پیش کرتی ہے ۔ ان دنوں تحریک انصاف کی حکومت کو بھی کچھ نہ کر پانے کا خیال اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے ۔ وزیراعظم عمران خان تبدیلی لاناچاہتے ہیں‘ مگر حالات ہیں کہ ان کی مٹھی سے ریت کی طرح پھسل رہے ہیں ۔ چند روز قبل کراچی میں وزیراعظم نے ایک ہی سانس میں دو باتیں کیں: ''اٹھارہویں ترمیم کے بعد وزیراعلیٰ کے پاس آمروں جتنے اختیارات آگئے ہیں ؛ دوسرا ‘ صوبوں نے اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہیں کیے‘‘ ۔ اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ وزیر اعظم بااختیار ہوتا ہے‘ لیکن اب صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی پہلے کی نسبت خاصے بااختیار اور وسائل کے حامل ہو چکے ہیں۔
پنجاب کا وزیراعلیٰ ملک میں سب سے بڑا سیاسی عہدہ سمجھا جاتا ہے ‘جبکہ سندھ کے وزیراعلیٰ کا نمبر دوسرا ہے ۔ وزیراعظم کسی بھی پارٹی کا ہو اس کے قریباً 50 فیصد اختیارات اسلام آباد تک محدود ہیں ۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اٹھارہویں ترمیم نے وزیراعظم کی عزت کم کی ہے ۔ وزیراعظم عمران خان کراچی جاتے ہیں تو وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اکثر ان کا استقبال کرنے نہیں آتے ‘ یہی ریت پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی بھی تھی۔ انہوں نے کبھی پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور صدر آصف علی زرداری کالاہور ائیر پورٹ پر استقبال نہیں کیا تھا۔ اب‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کو اٹھارہویں ترمیم سے کیا مسئلہ ہے ؟وزیراعظم اور ان کے وزرا‘ اٹھارہویں ترمیم کی کن شقوں کو بدلنا چاہتے ہیں اور کیوں؟اس کھیل کی ابتدا تب ہوئی‘ جب 2018ء میں وزیراعظم نے کراچی کی ترقی کیلئے گورنر عمران اسماعیل کی سربراہی میں کمیٹی بنائی تو اٹھارہویں ترمیم سامنے آکھڑی ہوئی‘ وزیراعظم چاہ کر بھی کچھ نہ کر پائے تو سارا نزلہ اٹھارہویں ترمیم پر گرا دیا۔ حکومت کا دوسرا بڑا مسئلہ صوبوں کے بیچ وسائل کی تقسیم ہے ۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ صوبوں ‘ قرضوں اور دفاعی بجٹ کے بعد وفاق کا حصہ 700 ارب کے خسارے سے شروع ہوتا ہے ‘ وسائل کی یہ تقسیم نا انصافی پر مبنی ہے ۔یہاں ایک بنیادی سوال ابھرتا ہے‘ جس کا جواب تحریک انصاف کبھی نہیں دیتی ‘ کیا صوبوں کو ملنے والے وسائل ان کی ضرورت کے مطابق ہیں یا نہیں ؟ اگر یہ وسائل ضرورت کے عین مطابق ہیں تو ناانصافی کا سوال کیا ہے ؟ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ اٹھارہویں ترمیم کو کوسنے کی بجائے اپنے منشور کے مطابق‘ 8000 ارب روپے اس قوم سے اکٹھا کرے اور وفاقی بجٹ کو سرپلس میں لے جائے‘ یعنی کتنا ہی آسان نسخہ ان کے منشور میں موجو د ہے‘ مگر حیرت ہوتی ہے کہ وہ اس پر عمل نہیںکرتے اور ہر بار پچھلے سال سے بھی کم ٹیکس اکٹھا کرتے ہیں ۔برسر اقتدار پارٹی کا تیسرا بڑا مسئلہ مرکز کے اختیارات کا زیادہ سے زیادہ حصول ہے۔وفاقی حکومت کونسل آف کومن انٹرسٹ میں وزیراعلیٰ کی مشاورت سے فیصلوں کو پسند نہیں کرتی اور چاہتی ہے کہ جو بھی فیصلے ہوں ان کا محور وزیراعظم آفس ہو نہ کہ صوبے ۔ یہی خواہش محترم وزیراعظم کو لاہور اور پشاور لے جاتی ہے ‘تاکہ کابینہ کے فیصلوں پرا ثر انداز ہوا جا سکے ۔ پارٹی کا چوتھا بڑا مسئلہ آرٹیکل 175 Aکے تحت ججز کی تعیناتی کا ہے ‘ حکومت کی خواہش ہے کہ ججز کی تعیناتی وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر کرے‘ مگر اٹھارہویں ترمیم اس خواہش کو پورا کرنے سے روکتی ہے ۔تحریک انصاف کا پانچواں مسئلہ آرٹیکل6 میں کی جانے والی چھیڑ چھاڑ ہے ۔ پرویز مشرف کیس کے فیصلے کے وقت وفاقی حکومت کی برہمی سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ کس بات پر غصہ ہے۔ وزیراعظم کو یہ با ت نہیں بھولنی چاہیے کہ صوبائی خود مختاری کا مسئلہ پیپلز پارٹی ‘ مسلم لیگ (ن) یا اٹھارہویں ترمیم کا پیدا کردہ نہیں‘ بلکہ یہ تو قیام پاکستان کی اساس ہے اورقائداعظم ؒ کا خواب ۔ مسلم لیگ اور کانگرس کے درمیان جب جب ڈیڈلاک ہوا اس کی وجہ ہمیشہ صوبائی خودمختاری ہی ہوتی تھی ۔ کانگرس مضبوط مرکز کی خواہاں تھی تو مسلم لیگ صوبوں کی مضبوطی کا خواب دیکھتی تھی ۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ 1927 ء میں ہندوستان کا آئین بنانے کے حوالے سے نہرو رپورٹ سامنے آئی تو قائد اعظمؒ نے چودہ نکات کے ساتھ اس کی بھرپور مخالفت کی ‘کیونکہ نہرو رپورٹ میں مرکزی حکومت کو لامحدود اختیارات دیے گئے تھے‘ جو قائد اعظم کو کسی صورت منظور نہیں تھے۔ کلدیپ نائر سے میں نے دہلی میں ان کی رہائش گا ہ پر ملاقات کے دوران پوچھا کہ بھارت کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟ انہوں نے پلک جھپکنے سے پہلے جواب دیا ''وسائل کا رخ ریاستوں کی طرف موڑنا‘‘ ۔صرف انڈیا ہی نہیں امریکہ میں بھی ریاستیں مکمل آزاد ہیں اور مرکز کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے فیصلے خود کرتی ہیں ۔ اٹھارہویں ترمیم سے سب سے بڑا فائدہ صحت ‘ تعلیم اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کو ہوا ہے ۔اس ترمیم سے پہلےGDP کا 0.6فیصد صحت پر خرچ کیا جاتا تھا ‘ مگر مالیاتی سال 2017-18ء میں GDP کا 1.2 فیصد اور 2018-19ء میں 1.1 فیصد صحت پر خرچ کیا گیا ۔ ہسپتالوں کی تعداد میں بھی 50فیصد سے زائد اضافہ دیکھنے میں آیا‘ جو یقینااٹھارہویں ترمیم کے باعث ہی ممکن ہوا ۔ یہی نہیں ‘ تعلیم اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں بھی ماضی کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ وسائل استعمال کیے گئے ‘جس کا براہِ راست فائدہ عام آدمی کو ہوا۔ یہ اٹھارہویں ترمیم جیسے مسائل بے وقت کی راگنی ہیں اور عوام کی طبیعت پر گراں گزر رہے ہیں ۔ یہاں اپوزیشن کو بھی چاہیے کہ وہ اٹھارہویں ترمیم کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved