تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     22-06-2020

میزانیہ‘ بیانیہ اور اشرافیہ

یہ دونوں واقعات ناروے میں ہوئے۔ ناروے گورے سکینڈے نیویا کا ایک ننھا مُنا سا ملک ہے جس کی ساری کی ساری آبادی اپنے پیارے لیاری کی چند گلیوں میں آباد لوگوں جتنی ہے۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ ناروے کے لوگ بہت منظم قوم ہیں۔ نارویجین شہری‘ سرکاری کارندے اور حکومت کے عہدے دار اپنے ملک کے قانون کی کمانڈ پر مذہب کی طرح عمل کرتے ہیں۔ ہر آدمی اپنی ذاتی کمائی میں سے ریاست کو ٹیکس ادا کرتا ہے‘ جس کے جواب میں ریاست ان کی ٹیکس مَنی کی حفاظت کیسے کرتی ہے یہ دونوں واقعات اس کی روشن مثالیں ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کو یہ بتانے کی تو بالکل بھی ضرورت نہیں کہ ریاست اور فرد یا پھر ملک اور شہریوں کے درمیان جو سوشل کنٹریکٹ ہوتا ہے اس کے دو حصے ہوتے ہیں‘ ایک ریاست اور ریاست کے وسائل کے حوالے سے شہریوں کو حقوق دیئے جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف سے اسی ریاست اور اس کے وسائل کے حوالے سے شہریوں پر فرائض عائد ہوتے ہیں۔ جو فرض ادا نہ کرے اسے حق نہیں ملتا۔ اس فلاسفی پر بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں‘ یہاں ہم ایک ہلکی پھلکی مثال دے کر گزارہ کر لیتے ہیں اور وہ یہ کہ جو شہری بغیر بریک لگائے موٹر وے پر 120 کلو میٹر کی رفتار سے گاڑی دوڑانے کا حق حاصل کرنا چاہتا ہے‘ اس پر یہ فرض عائد ہو جاتا ہے کہ اس سڑک کو استعمال کرنے کے لیے چند سو روپے کا ٹول ٹیکس ادا کرے۔
پہلا واقعہ یوں ہے کہ ناروے کے شاہی محل سے حکومت کو درخواست آئی کہ شاہی محل کے صوفے ٹوٹ پھوٹ کر خستہ اور خراب حال ہو چکے ہیں‘ اس لیے یہ صوفے تبدیل کرنے کے لیے نئے صوفے خریدے جائیں۔ ناروے کی حکومت نے اس خط کے جواب میں لکھا کہ اس سال کے سرکاری بجٹ میں نئے صوفے خریدنے کی گنجائش نہیں ہے‘ اس لیے اس ڈیمانڈ کو اگلے سال کے بجٹ میں دیکھ لیں گے۔ شاہی محل نے دوسری درخواست بھجوا دی‘ درخواست میں لکھا تھا کہ چلیں ان صوفوں کی پالش ہی نئی کروا دیں۔ ناروے کی حکومت سے جواب آیا کہ چونکہ اس مالی سال کے لیے شاہی محل کا بجٹ ختم ہو چکا ہے اس لیے برائے مہربانی آپ اگلے سال تک انتظار کر لیں۔
2020ء اور 2021ء کے لیے ہمارا سرکاری بجٹ پارلیمنٹ میں پیش ہوا‘ اس موقع پر اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں یعنی پی پی پی اور پی ایم ایل (این) کے لیڈروں نے بجٹ ڈیبیٹ کے دوران ناروے کی حکومت کا بار بار ذکر کیا۔ اس ذکر کی سوشل میڈیا پر اتنی مشہوری ہوئی کہ اب یہ میزانیہ کے حوالے سے بیانیہ بن چکا ہے‘ اس لیے یہ ضرورت پیدا ہو گئی کہ میں آپ کو ناروے کے ایک ''ٹیکس چور‘‘ سیاست دان کا قصہ بھی سنا دوں۔ ناروے کے اس ممتاز سیاست دان کا نام Jan P. Syse ہے۔ Jan نے ایک مالی سال کے دوران اپنے انکم ٹیکس گوشوارے اس طرح سے بھرے کہ ناروے کی کرنسی میں تقریباً 20 ہزار کرون بچا لیے۔ یہ رقم پاکستانی روپے میں تقریباً ڈھائی لاکھ روپے بنتی ہے۔ پھر قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ چند سالوں بعد Jan P. Syse اپنے ملک کا وزیر اعظم منتخب ہو گیا۔ وزیر اعظم بننے کے بعد Jan‘ جسے اس کے دوست پیار سے جے پی ایس کہہ کے بلاتے تھے‘ پریشان رہنے لگا۔ گھر والے اور اس کی پارٹی والے اس سے پوچھتے رہے کہ تمہاری پریشانی کی وجہ کیا ہے‘ لیکن جے پی ایس نے پریشانی کی کوئی وجہ بتائی نہ ہی اس موضوع پر کسی سوال کا جواب دیا۔ جے پی ایس کو ناروے کے وزیر اعظم کا عہدہ ملے ہوئے ابھی صرف ایک مہینہ ہی گزرا تھا کہ ایک دن اس نے اچانک وزارتِ عظمیٰ کی عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اب آئیں جے پی ایس کے استعفیٰ دینے کی اس وجہ کی طرف‘ جو اس نے وزارتِ عظمیٰ سے مُستعفی ہوتے وقت اپنے استعفے میں لکھی۔ جے پی ایس نے انکشاف کیا کہ چند سال پہلے میں نے جان بوجھ کر اپنے سالانہ انکم ٹیکس کے ریٹرنز اس طریقے سے بھرے کہ جس کے ذریعے میں نے 20 ہزار کرون بچا لیے تھے۔ میں جس دن سے وزیر اعظم بنا ہوں‘ یقین کریں ایک رات بھی سکون سے نہیں سو سکا۔ میرے ذہن میں ہر وقت ایک ہی خیال آتا رہا اور وہ یہ کہ جس عظیم قوم نے مجھے وزیر اعظم بنایا ہے‘ میں نے اسی قوم سے بے ایمانی کر رکھی ہے۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں اپنی قوم کی نمائندگی کرنے کے قابل ہرگز نہیں۔ پرائم منسٹر آف ناروے مسٹر جے پی ایس کا استعفیٰ منظور کر لیا گیا۔
ناروے کی دوسری مثال کی طرف جانے سے پہلے 2020ء اور اس سے اگلے سال کے میزانیہ کا ذکر بھی ہو جائے جس میں ہر طرف غیر ملکی قرضوں کی یادیں اور کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ عملی طور پر پچھلے 30-35 سالوں سے ہمارا قومی بجٹ یا میزانیہ صرف دو عدد چیزوں کا مجموعہ ہوتا آیا ہے‘ آئیے اس پر ہلکی سی نظر ڈال لیں:
نمبر1: قومی خسارے یا نقصانات۔ ہم نے پاکستان ریلوے میں کیا کھویا؟ پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز نے کتنے ارب کا نقصان مزید کروا دیا؟ 6‘7 سالوں سے بند پڑی ہوئی پاکستان سٹیل ملز نے گھر بیٹھے ہوئے افسروں کو کتنے ارب کی تنخواہیں‘ بونس‘ سہولیات اور ٹی اے ڈی اے پھر سے دے دیا؟ حکمران اشرافیہ نے کتنے صدارتی وزارتی‘ وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے لیے کیمپ ہائوسز بنوائے؟ ان کے کتنے بِل قومی خزانے سے بھرے اور کتنے دورے ٹیکس منی سے سمندر پار کے ملکوں کے کئے؟ یہ حصہ غریب ملک کی امیر ترین حکمران اشرافیہ کی سالانہ عیاشی کا حساب کتاب ہوتا ہے‘ قوم کا میزانیہ بالکل بھی نہیں۔
نمبر2: ''قرض کی شراب‘‘ کا حساب۔ میزانیہ کے دوسرے نمبر پر سب سے اوپر ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف‘ ایشین ڈویلپمنٹ بینک‘ سعودی عرب‘ قطر یا یو اے ای یا پھر کسی مغربی ملکوں کے کنسورشیم سے لیا ہوا قرض آتا ہے جس میں یہ تفصیل بھی لکھی جاتی ہے کہ اس قرض پر لگنے والے سود کو ادا کرنے کے لیے ہم نے کتنا قرضہ اور سود پر لے لیا۔ پھر یہ لکھتے ہیں کہ اس دوران ڈالر ایکسچینج ریٹ کی وجہ سے قرض کے ڈالروں میں کتنے ارب کا اضافہ ہوا۔ ساتھ ہی یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ اگلے سال سود در سود کا کھیل جاری رکھنے کے لیے اشرافیہ کا معدہ مزید کتنے قرض کی طلب رکھتا ہے۔ پاکستان جیسی اکانومی‘ جسے لوٹ کر حکمران اشرافیہ نے اپنے محل‘ اپنے بیٹوں اور دامادوں کی بزنس ایمپائرز‘ بلکہ اپنے ذاتی اور پرائیویٹ میڈیکل سٹی تک بنا ڈالے وہ غریبوں کے حق میں بَین ڈال ڈال کر یہ یقین دلاتے ہیں کہ اس غریب ملک کی لُٹی پٹی معیشت کو ابھی ان کی مزید خدمت کی ضرورت ہے۔ ہم اس بات پر کیوں نہیں غور کرتے کہ پاکستان کا کوئی قومی ادارہ نفع میں نہیں ہے جبکہ سیاست کی حکمران اشرافیہ کا ہر صنعتی یونٹ‘ تمام شوگر ملز‘ ڈیری فارمز اور مرغی انڈے تک سب منافع میں جا رہے ہیں۔ ایسا منافع جسے پاکستان کی معیشت ''اُلٹیاں‘‘ کر کے کبھی قطر پھینکتی ہے‘ کبھی ایمریٹس ہلز پر‘ کبھی جدّہ عزیزیہ میں اور یا پھر مے فیئر لندن اور پارک لین نیو یارک امریکہ۔
ناروے کا دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ٹیکس دینے والے عام مریض کے لیے جان بچانے والی مشین حکومت نے دوسرے شہر سے F-16 طیارہ بھیج کر منگوائی۔
کن چناروں کی بات کرتے ہو‘ کن سہاروں کی بات کرتے ہو؟
جن کے رُخ پر خزاں کے دھبے ہیں اُن بہاروں کی بات کرتے ہو؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved