تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     22-06-2020

لاہور سے تا خاکِ بخارا و سمر قند

اونچی نیچی سرسبزپہاڑیاں ،پہاڑی کی چوٹی پر پرانا قلعہ ،جنگل ، پھیلی ہوئی چراگاہیں ،سمندر کا کنارا،میدان کے درمیان سے بل کھاتی روا نام کی ندی جو بحر اسود میں جاگرتی ہے ۔یہ '' روا ‘‘ نامی گاؤں ہے جوصوبہ استنبول میں گریٹر استنبول کے ضلع ''بے کوز‘‘ کا نواحی گاؤں ہے ۔جنگل کے پہلو میں خیموں کا جنگل بھی آباد ہے ۔پہاڑی ڈھلانیں اس میدان میں اترتی ہیں جہاں قائی قبیلے کا پڑاؤ ہے‘لیکن قبیلے کے خیمے کم اورمیدان کے اطراف میں وہ خیمے زیادہ ہیں جو ارطغرل فلمانے سے متعلق عملے کے ہیں۔
ارطغرل کا شہرہ ہر طرف ہے۔ترکی میں اس کا تلفظ کچھ بھی ہو ہم اردو دان اسے ارطغل بلکہ ارتغل بولنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔ جو لوگ ہر طرح کے تاریخی ڈرامے اور فلمیں بہت خوشی سے دیکھتے ہیں اور ان کے کرداروں،لباسوں،مکالموں اور بنائے گئے ماحول کی تعریفیں کرتے پھرتے ہیں لیکن اسلام کے تاریخی کرداروں پر ڈرامہ دیکھنا ان کے بس سے باہر ہوجاتا ہے ان کا ارطغرل دیکھنے سے پہلے ہی اس کے خلاف ہوجانا سمجھ میں آتا ہے۔اعلیٰ معیار پر بنی ہوئی تاریخی فلمیں اور سیریلز دنیا بھر میں اس کالم نگار سمیت ایک بہت بڑے طبقے کو مسحور کرتے ہیں ۔صرف فلمیں اور ڈرامے ہی نہیں ان پر لکھے ناول بھی مجھے ہمیشہ اپنی طرف کھینچتے ہیں۔بچپن اور لڑکپن میں نسیم حجازی کے ناولوں کا خاندان بھر میں شہرہ تھا۔سو یہ انہی ادوار میں کئی کئی بارپڑھ ڈالے تھے۔''شاہین،اور تلوار ٹوٹ گئی، قیصر و کسری،آخری معرکہ،معظم علی،خاک اور خون‘‘ اور کئی اور ناول بھلا کیسے بھلائے جاسکتے ہیں کہ وہ تو کتابی عجائب گھر کی دہلیز پر پہلے قدم کے بعد پہلے مرصع کمرے کے چکاچوند کردینے والے جواہرات تھے۔ہنسی آتی ہے، جب وہ لوگ جو نثر کا ایک پیرا گراف بے شمار غلطیوں کے بغیر نہیں لکھ سکتے اور جن کے لفظوں اور تاثیر نے کبھی ایک دوسرے کی شکلیں نہیں دیکھیں، محض اپنی سطحی علمیت جھاڑتے پھرتے ہیں۔ تعصب نظریاتی اختلاف کے پردے میں نمودار ہوتا ہے تو ایسی ہی اندھی تلواریں چلاتا ہے جیسی نسیم حجازی پر چلائی گئیں۔اردو ادب میں ناولوں اور ناول نگاروں کے درجات پر اپنی رائے رکھنا ہر ایک کا حق ہے لیکن تعصب مسلسل ان ناولوں کو ادب ہی میں شمار کرنے کے خلاف جتا رہتا ہے ۔ذرا سوچیے ،محض اس گناہ کی پاداش میں کہ یہ اسلامی ہیروز پر لکھے گئے ناول ہیں، نسیم حجازی ادیب ہی نہیں ہیں۔ لیکن خیر چھوڑیے‘ بات ارطغرل کی ہورہی ہے۔
میں نے دو تین سال پہلے شاید 2017میں اس سیریل کا شہرہ سنا۔ترکی کے تاریخی ڈراموں کا ایک بہت اچھا تاثر پہلے سے بن چکا تھا۔ایک دو سال پہلے میرا سلطان نامی ڈرامہ پی ٹی وی پر بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکا تھا،جس میں ترک سلاطین اورعہدِ سلیمان اعظم کے ترک ماحول، پوشاکیں ، محلاتی جوڑ توڑ اور رسم و رواج جس طرح فلم بند کیے گئے تھے ان کی داد نہ دینا زیادتی تھی۔جب میں نے ارطغرل دیکھنا شروع کیا ،اس وقت تک کم کم لوگ اس سے واقف تھے۔تب نہ اس کی ڈبنگ اردو میں ہوئی تھی نہ سیریل اردو سب ٹائٹلز کے ساتھ دستیاب تھا۔ لیکن دیکھنا شروع کیا تو میں اس میں ڈوبتا چلا گیا ۔ ٹائٹل نغمے کی بھاری مردانہ آوازاور موسیقی کے پس منظر میں ہتھیاروں، اور ساز و سامان کو جیسے اجاگر کیا گیا تھا،پہلے تو اسی نے اپنی طرف کھینچ لیا ۔ایک دو قسطیں دیکھیں تو ایک سحر نے اس طرح جکڑا کہ اگلی قسط دیکھے بغیر چین نہ پڑتا تھا۔مجھ جیسا شخص، جو اس میدان میں چیدہ چیدہ ناموں کا قائل ہے ، اس سیریل کا اسیر ہوئے بغیر نہیں رہا ۔
پاکستان ہی نہیں پوری مسلم دنیا میں اسے غیر معمولی پذیرائی ملی۔ افسوسناک طور پر عرب دنیا کے چند ملکوں میں اس پر پابندی لگائی گئی ۔اسے روایتی ترک عرب چپقلش کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اس سیریل کی تعریف اور پی ٹی وی کو پاکستان میں دکھانے کی ہدایت نے بھی اس کی مقبولیت میں ایک کردار ادا کیا لیکن سچ یہ ہے کہ مسلم دنیا کی ایک دیرینہ حسرت تھی جوکبھی پوری نہیں ہوئی تھی اور جس کی اب بھی محض جزوی تسکین ہوئی ہے ۔اور وہ حسرت یہ ہے کہ مسلمان فاتحین ، بہادروں کے وہ کارنامے دنیا کے سامنے اس متاثر کن انداز میں پیش ہوں کہ دنیا ان قابل فخر ہیروز سے واقف ہوسکے۔ارطغرل نے اس حسرت کی تسکین کی اور اس مفروضے کی دھجیاں بکھیرکر رکھ دیں کہ گانوں،رقص،عریانی کے مناظر سے ہٹ کر کوئی فلم اور ڈرامہ کامیاب نہیں ہوسکتا کجا یہ کہ سینکڑوں اقساط پر مشتمل سیکوئیل۔ ارطغرل نے ثابت کیا کہ انہیں ردی کی ٹوکری میں ڈال کر بھی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔وہ نوجوان مسلمان بھی ہیروز ہوسکتے ہیں جو اللہ پر مضبوط ایمان رکھتے ہوں اوراپنے مذہب ، اپنے عقائد،اپنی تہذیب پر فخر کرتے ہوں ۔
25اپریل 2020کو پی ٹی وی نے اس سیریل کی پہلی قسط نشر کی ۔اس تاریخ سے 14مئی تک محض بیس دن میں 133.38ملین لوگوں نے یہ ڈرامہ دیکھا ۔ یہ کسی سیریل کے ناظرین کا تاریخی ریکارڈ ہے ۔یو ٹیوب پر پی ٹی وی چینل نے 2.1 ملین شائقین کے ساتھ ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ ہندوستانی مسلمانوں، خاص طور پر کشمیری مسلمانوں میں یہ بے حد مقبول ہوا ۔بہت مدت کے بعد کوئی ایسا ڈرامہ لوگوں کو نصیب ہوا جو پورے گھرانے اور بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جاسکتا تھا۔جہاں یہ سیریل رجحان ساز ثابت ہوا وہیں ایک سوال بھی سامنے آگیا :پاکستانی ٹی وی چینلز خاص طور پر پی ٹی وی نے اب تک یہ مجرمانہ غفلت کیوں برتی کہ اپنے قابل فخر فاتحین کی زندگیوں اور کارناموں کواجاگر کیا جائے ۔ اعلیٰ معیارکی بات بعد کی ہے۔کسی بھی معیار پر سرکاری اور نجی چینلز نے ایسی کتنی کاوشیں پیش کی ہیں ؟ اور اسی سے منسلک یہ کہ ان کے اور دیگر قومی اداروں کے زیر انتظام بننے والے ہر ڈرامے میں مذہب اور اہل مذہب پر کھلے اور ڈھکے چھپے انداز میں طنز،استہزا کیوں شامل ہوتا ہے؟ ان کے ذہن میں اسلام، جہاد، مذہبی لوگ دہشت گردی کا دوسرا نام کیوں ہیں ؟اب جذبے کے تحت نہیں تو شایداس کام میں آمدنی کو دیکھ کر ہی شاید ان کا ذہن بن جائے ۔اس وقت یہ وقت کی ضرورت ہے کہ یہ چینل یا کوئی نیا چینل اس جذبے کو معیار کے ساتھ لے کر اٹھے ۔مجھے اس کی کامیابی میں کوئی شک نہیں۔
ڈرامہ دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں یہ سوال ابھرا تھا کہ سلیمان اعظم، سلطان محمد فاتح سمیت بے شمار سلاطین ترکیہ کے ہوتے ہوئے ارطغرل کا انتخاب کیوں کیا گیا ؟ جس کے کارنامے مذکورہ اور دیگر ترک سلطانوں کی نسبت کم ہیں اور جس کے بارے میں تاریخی ریکارڈ بہت کم دستیاب ہے ۔ میرے ذہن نے اس کا جواب یہ دیا کہ تاریخی ریکارڈ کم ہونا بھی شاید اس انتخاب کی ایک وجہ ہے ۔ایسی صورت میں دستیاب حقائق کے مطابق بنیادی فریم بنا کر تصور کی کرشمہ سازی کیلئے کھلا میدان مل جاتا ہے۔ 
ارطغرل پر مثبت تنقید میں کوئی حرج نہیں کینہ تنقید نہیں ہوا کرتا۔جو لوگ ارطغرل سیریل پر تاریخی حقائق توڑ موڑ کر پیش کرنے کا الزام لگاتے ہیں ،ان کی خدمت میں یہی گزارش ہے کہ آج سے محض اسی سال پہلے کی جنگ عظیم دوم پر بنی اتحادی ملکوں کی بنائی فلموں کو ایک نظر یاد کرلیں یا دوبارہ دیکھ لیں ۔جن میں ہر جگہ یہ سورما جرمنوں کو مارتے اور فتح یاب ہوتے نظر آتے ہیں ۔جب یہ دیکھ چکیں تو ایک بار وہ غیر جانبدار تاریخ بھی کھول لیں جس میں حقیقی واقعات بیان کیے گئے ہیں ۔آپ کو پتہ چل جائے گا کہ تاریخ کیا ہوتی ہے اور فلم کس چڑیا کا نام ہے ؟وہاں اگر کبھی اعتراض کیا ہو تو بسم اللہ ۔ورنہ آپ کا منہ نہیں بات کرنے کا ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved