حالیہ انتخابات میں حصہ لینے والی کم و بیش تمام جماعتوں نے‘ دھاندلی کے الزامات عائد کئے۔ اس کے باوجود سب نے انہی نتائج کے ساتھ آگے چلنے کا فیصلہ بھی کر لیا۔ دوبارہ گنتی یا جعلی ووٹوں کی تلاش کے سلسلے بھی جاری رہیں گے اور امور مملکت بھی چلتے رہیں گے۔ یہ ایک اچھا اور ذمہ دارانہ فیصلہ ہے۔ اس کے بعد بھی باہمی خیرسگالی کے بے شمار مظاہرے ہوئے۔ نوازشریف چاہتے تو ہماری سیاسی روایات کے مطابق خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں اپنی حکومتیں بنا سکتے تھے لیکن انہوں نے پہلے ہی دن خیبرپختونخوا میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت تحریک انصاف کا حکومت سازی کا حق تسلیم کرتے ہوئے‘ اسے موقع دیا کہ وہ اکثریت کی حمایت حاصل کر کے وہاں اپنی حکومت بنائے۔ ورنہ انہیں کئی طرف سے پیشکشیں آ چکی تھیں کہ اگر وہ ن لیگ کی حکومت بنانا چاہیں‘ تو مولانا فضل الرحمن سمیت کئی گروپ حصے دار بن کر‘ انہیں حکومت سازی کے لئے مدد دے سکتے ہیں۔ ایسا ممکن بھی تھا۔ نوازشریف نے کوشش ہی نہیں کی اور بلوچستان میں تو انہوں نے سب کو حیران کر دیا۔ اس صوبے کی روایت ہے کہ یہاں کے اراکین صوبائی اسمبلی‘ وفاقی حکومت کی طرف دیکھتے ہیں۔ وہاں جو بھی پارٹی حکومت بناتی ہے‘ یہ جوق در جوق اس میں شامل ہو جاتے ہیں اور صوبے کی حکومت‘ وفاق میں جیتنے والی جماعت کی بن جاتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) تو بلوچستان میں سب سے بڑی پارٹی تھی۔ وہاں بھی آسانی سے دوتہائی اکثریت اور اپنی حکومت بنا سکتی تھی۔ مگر نوازشریف نے کمال ہی کر دکھا یا۔ چھوٹی مگر قوم پرست جماعتوں کو دعوت دی کہ صوبے میں وہ اپنی حکومت بنائیں۔ جہاں بھی انتہاپسندانہ رویے معاملات کو بگاڑتے ہیں‘ جب تک وہاں میانہ روی کا وقفہ نہیں آتا‘ کشیدگی اور محاذ آرائی جاری رہتی ہے۔ بدقسمتی سے بلوچستان 65سال میں دو انتہائوں کے درمیان پس رہا ہے۔ ایک طرف اسلام آبادکی متکبرانہ پالیسیاں ہیں‘ جو چھوٹی بلوچ اور پختون قومیتوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ ان کے مسائل‘ امنگوں اور آرزوئوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا اور طاقت کا اندھا استعمال کر کے‘ انہیں کچل ڈالنے میں لگا رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ظاہر ہے بغاوتوں کو ابھرنا تھا اور وہ مختلف حالتوں میں ابھرتی رہیں۔ صوبہ عدم استحکام اور بدامنی کا شکار ہوا۔ جس کا فائدہ اٹھا کر پاکستان دشمن قوتیں بھی سرگرم ہو گئیں اور یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ بلوچستان کے باغی نوجوانوں کو انہی قوتوں کی طرف سے اسلحہ اور پیسہ ملنے لگا۔ اس دوران بلوچستان کے منتخب نمائندوں کو مختصر وقفوں کے لئے حکومتیں بنانے کا موقع دیا گیا مگر یہ اختیارات سے محروم حکومتیں تھیں اور بلوچ سیاستدان اپنی بے بسی کا رونا روتے رہے اور پھر ان سے یہ بے اختیار حکومتیں چھین کر آزمائشوں میں دھکیل دیا گیا۔ اسلام آباد کی کسی بھی حکومت نے بلوچوں کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ کبھی کوئی ایسی تدبیر اختیار نہیں کی گئی‘ جس میں دو انتہاپسندیوں کے درمیان فاصلہ پیدا کر کے‘ میانہ روی کی قوتوں کو موقع دیا گیا ہو تاکہ وہ برسرپیکار انتہاپسندی کے درمیان فاصلہ پیدا کریں اور پھر دونوں فریقوں کو سوچنے سمجھنے اور اعتدال میں آنے کا موقع دیا جائے۔ نوازشریف نے مفادات اور اقتدار کی سیاست کو ایک طرف رکھتے ہوئے‘ اپنی پارٹی کی طرف سے اقتدار کی قربانی دی اور بلوچستان کی میانہ رو سیاسی قوتوں کو حکومت سازی کا موقع دیا۔ یہ پہلاموقع ہے کہ نوازشریف نے اعتدال پسند بلوچ اور پختون قوم پرستوں کو اکٹھا کر کے حکومت سازی کا موقع دیا اور خود ان کے مدد گار بن گئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پنجاب کی قیادت کی اس فراخدلی اور دانشمندی سے بلوچ رہنما اتنا متاثر ہوئے کہ اب وہ ہزاروں سال پاکستان کے ساتھ رہنے کی بات کرتے ہیں۔ بلوچ اور پختون دونوں ہی بے حد جذباتی اور محبت کرنے والے لوگ ہیں اور جب ان سے محبت کی جائے‘ تو جواب میں ہزاروں گنا زیادہ محبتیں نچھاور کرتے ہیں۔ یہ ابتدائی مرحلہ ہے۔ بلوچ اور پختون قوم پرستوں کے مسلح مزاحمت کرنے والے نوجوانوں کے درمیان بھی اعتماد کے رشتے موجودہیں۔ درحقیقت مزاحمت کار جو مقصد اسلحہ کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ قوم پرست سیاستدان وہی مقاصد سیاسی عمل میں شریک ہو کر حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ دونوں کی منزل ایک ہے۔ صوبائی خودمختاری اور عوام کی خوشحالی۔ اگر اسلام آباد کی قوتوں نے حکومت میں آنے والے قوم پرستوں کو آزادی سے کام کرنے کے مواقع دیے اور حکومتی اختیارات سے محروم نہ کیا‘ تو پاکستان کا وہ مسئلہ جو ہم آزادی سے لے کر آج تک حل نہیں کر پائے‘ نوازشریف کے اس معجزانہ سیاسی فیصلے کے نتیجے میں‘ ہم اس کے حل کی طرف پیش قدمی شروع کر سکتے ہیں۔ میرغوث بخش بزنجو بھی بلوچ قوم پرست اور سوشلسٹ نظریات کے قریب تھے۔ بارہا ایسا ہوا کہ ان کے ساتھی بلوچ لیڈر انتہاپسندی کی طرف مائل ہوئے۔ مگر انہوں نے ہمیشہ اسلام آباد کے ساتھ رابطے برقرار رکھنے کو ترجیح دی۔ اسی وجہ سے ان کے ساتھی بلوچ لیڈر‘ انہیں طنزاً ’’بابائے مذاکرات‘‘ کہا کرتے تھے۔ مگر انہوں نے اپنا راستہ ترک نہیں کیا۔ مجھے ان سے متعدد انٹرویوز کرنے کے مواقع ملے۔ وہ ایک بات ہمیشہ دہراتے نظر آئے۔ ’’ہمیں بھارتی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے مگر ایسا کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ ہم دلی کے حکمرانوں سے کوئی واقفیت نہیں رکھتے اور اسلام آباد کے حکمرانوں کے ساتھ ہمارا 34 سال کا واسطہ ہے۔ ہم بھی بڑی حد تک انہیں سمجھ چکے ہیں اور وہ بھی ہمیں اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہمارے درمیان معاملات کبھی نہ کبھی طے ہو جائیں گے۔ بھارت والے تو ہمارے لئے بالکل نئے ہیں۔ اگر ہم آج یا 10 سال بعد ان سے ملنا بھی چاہیں‘ تو ہمارے درمیان قدر مشترک کیا ہو گی؟ کیا ہم دلی والوں کو سمجھنے کے لئے پھر سے اپنی زندگی کے تیس چالیس سال مزید ضائع کریں گے؟ ہمارے لئے واحد چوائس صرف پاکستان ہے۔ ہمیں اسلام آباد کے ساتھ ہی رہنا ہو گا۔‘‘ یہ ایک دانشمند بزرگ کی حقیقت مندانہ سوچ تھی۔ ان کے صاحبزادگان نے بھی اپنے والد کا راستہ اختیار کیا۔ میر حاصل بزنجوہر حال میں اسلام آباد کے ساتھ رابطے برقرار رکھ کر‘ بلوچستان کے حقوق کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہی راستہ محمود خان اچکزئی نے اختیار کیا۔ ان دونوں رہنمائوں کی انتھک اور مسلسل کوششیں آخرکار رنگ لاتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ نوازشریف نے انہیں موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ بلوچستان اور اسلام آباد کی دوریاں ختم کرنے کی اپنی کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار کریں۔ لیکن جو اقتدار انہیں دیا گیا ہے‘ اس کے تحت اختیارات بھی ان کے پاس ہونا چاہئیں۔ پالیسیاں بنانے اور ان پر عملدرآمد کرنے میں اسلام آباد کو ان کے ساتھ اسی طرح تعاون کرنا چاہیے‘ جیسے پنجاب اور سندھ کی حکومتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس عبوری دور میں حکومت کی سربراہی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے سپرد کی گئی ہے‘ جو موزوں ترین انتخاب ہیں۔ بلوچستان کی نئی حکومت اور نوازشریف دونوں کو5سال کا عرصہ دستیاب ہے۔ اگر سب نے مل کر خلوص نیت سے کام کیا‘ تو کوئی وجہ نہیں کہ بلوچستان میں حالات کا رخ بدلا نہ جا سکے۔ مالیاتی وسائل کی تقسیم کے نئے نظام کے تحت بلوچستان کو بھاری رقوم ملنے والی ہیں۔ پچھلی حکومتوں کے دور میں شہبازشریف‘ پنجاب کے حصے کی ایک بڑی رقم بلوچستان کو دے کر ایثار کی مثال قائم کر چکے ہیں۔ وفاق اور بلوچستان سے بہتر مالیاتی حیثیت رکھنے والے دوسرے صوبے اگر مل کر بلوچستان میں تیزرفتار ترقی کے لئے اضافی مالیاتی وسائل مہیا کرتے رہیں‘ تو وہاں حیرت انگیز نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اتنی تھوڑی سی آبادی کو ساڑھے 17کروڑ عوام اگر 5سال میں خوشحالی کے راستے پر گامزن کرنا چاہیں‘ تو یہ مشکل کام نہیں۔ اگر جمہوریت کے مزید 5سال ہمیں مل گئے‘ تو پاکستان میں علیحدگی کی واحد تحریک جو صرف بلوچستان میں باقی رہ گئی ہے‘ یہ بھی ختم ہو جائے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved