تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     22-06-2020

ہر رنگ میں راضی بہ رضا ہو تو مزا دیکھ

اللہ کی خلق کی ہوئی کائنات لامحدود ہے۔ جب اللہ کی ذات لامحدود ہے تو اُس کی مخلوق بھی ایسی ہی ہونی چاہیے۔ یہ کائنات اللہ کی صناعی کا مظہر ہے اور اس کائنات میں جو کچھ بھی پایا جاتا ہے ‘وہ سب کچھ بھی اللہ کی قدرت کا درجۂ کمال ہے۔ یہ سب کچھ پیش کرکے اللہ نے سوچنے کی دعوت دی ہے‘ تاکہ تفہیم کی منزل تک پہنچ کر حقیقت کو تسلیم کرنے کا حق ادا کیا جائے۔اللہ نے انسان کو بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے‘ جس مخلوق کے دم سے کائنات کی حقیقی رونق ہے‘ اُس میں کچھ نہ کچھ تو ہونا ہی چاہیے۔ اللہ نے انسان کو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے خوب نوازا ہے۔ اس صلاحیت کو بروئے کار لاکر انسان اپنے طے شدہ درجۂ کمال کو پہنچ سکتا ہے۔ رب کا راضی ہو جانا ہی انسان کا درجۂ کمال ہے۔ ہم زندگی بھر جو کچھ کرتے ہیں ‘اُسی کی بنیاد پر ہمارے حتمی مقدر کا فیصلہ کیا جانا ہے۔ ہمیں حتمی طور پر جنت دی جائے گی یا مستقل ٹھکانا جہنم ہوگا؟ یہ معاملہ ہمارے افکار و اعمال کی پرکھ سے طے کیا جائے گا۔ ہمارا خالق و رب نیتوں کا جاننے والا ہے۔ صرف ظاہر کی بنیاد پر فیصلہ نہیں ہوگا‘ باطن کو بھی سامنے رکھا جائے گا اور اللہ کی نگاہِ حقیقت بیں سے بھلا کیا چُھپا ہوا ہے۔ روئے ارض پر بخشی جانے والی زندگی سر بہ سر امتحان ہے۔ اس امتحان میں کامیاب ہونے کیلئے ہمیں زندگی بھر تیاری کرنی ہے۔ نیکی کی کچھ جزا اور بدی کی کچھ سزا ہمیں اسی دنیا میں ملے گی‘ مگر حتمی فیصلہ قیامت کے دن پر موقوف ہے۔ دنیا ہی میں ‘یعنی عمر کے مختلف مراحل و مدارج میں دی جانے والی جزا اور سزا درحقیقت ایک جھلک ہے ‘تاکہ ہم مختلف مواقع پر سنبھل کر زندگی کا توازن درست کریں‘ اچھائی کو اپنائیں اور بُرائی سے مجتنب رہیں۔ 
انسان کو روئے ارض پر بخشی جانے والی زندگی صرف یہ دیکھنے اور طے کرنے کے لیے ہے وہ اپنے آپ کو اپنے رب کی مرضی کے سانچے میں کس حد تک ڈھالتا ہے۔ بتایا جاچکا کہ بھٹکانے والے راستے کون سے ہیں اور رب تک لے جاکر اُس سے ملانے والی راہ کون سی ہے۔ صراطِ مستقیم دکھانے والے آتے رہے اور اللہ کے غضب سے ڈرانے کے ساتھ ساتھ اُس کے رحم و کرم اور عفو و عطا کے اتھاہ ساگر میں ڈوبنے کی تحریک بھی دیتے رہے۔ ہر دور میں روئے ارض پر بسنے والوں میں سے ایک چھوٹی جماعت ہی نے اللہ کی رضا میں راضی ہو رہنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ انسانوں کی غالب اکثریت قدم قدم پر بہکتی رہی ہے۔ بہکنے اور بہکانے کا حساب ایک دن دینا ہے۔ 
سوال یہ ہے کہ انسان اللہ کے سُجھائے اور بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے کیلئے خود کو تیار کیسے کرے؟ یہ کام خود بخود ہونے والا تو ہرگز نہیں۔ راضی بہ رضا ہو رہنا ‘اگر ایسا ہی آسان ہوتا تو پھر رونا کس بات کا تھا‘ جو لوگ ارضی زندگی کی آلودگیوں سے پاک رہتے ہوئے اپنی سانسوں کی گنتی پوری کرنا چاہتے ہیں‘ انہیں بار بار آزمایا بھی جاتا ہے۔ یہ آزمائش صرف اس لیے ہوتی ہے کہ وہ اپنے ارادوں میں پختہ ہو جائیں‘ عمل کے معاملے میں زیادہ سے زیادہ استحکام کے حامل ہوں۔ 
اللہ کو راضی کرنے اور راضی رکھنے کیلئے انسان کو بہت کچھ ترک کرنا پڑتا ہے اور بہت کچھ اپنانا بھی پڑتا ہے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب پوری دیانت اور متانت کے ساتھ ذہنی تیاری کی گئی ہو۔ حتمی تجزیے میں تو ہمیں آخرت ہی کے معاملات کو ذہن نشین رکھنا ہے۔ دُنیوی زندگی ہمارے لیے سر بہ سر امتحان ہے‘ لیکن سب کیلئے نہیں۔ دُنیا اگر امتحان گاہ کا درجہ رکھتی ہے تو صرف اُن کیلئے جو اللہ کے احکام کی روشنی میں اپنے افکار و اعمال کو ترتیب دیتے ہوئے زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ جو دُنیوی زندگی کو چند سانسوں کا تماشا سمجھ کر لہو و لعب کی نذر کرنا چاہتے ہیں‘ اُن کے لیے دنیا کسی بھی درجے میں امتحان گاہ نہیں۔ ایسوں کیلئے قدرت دُنیوی زندگی کو آسان بنادیتی ہے۔ جو بُرائیوں سے دامن بچانے کی رسمی سی بھی کوشش نہیں کرتے ‘اُن کیلئے بدی کے تمام راستوں پر چلنا آسان ہو جاتا ہے‘ تاہم جو سب کچھ جان کر بھی اللہ کے احکام کو نظر انداز کریں‘ اُن کیلئے دنیا و آخرت کی ناکامی لکھ دی جاتی ہے۔
اپنے اور دوسروں کے لیے خیر کے طالب رہنے والوں کو دُنیوی زندگی میں‘ عمومی سطح پر‘ گوناگوں الجھنوں اور پریشانیوں کا سامنا رہتا ہے۔ یہ سب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ جو پورے خلوص کے ساتھ اللہ کی سُجھائی ہوئی راہ پر گامزن رہنا چاہتا ہے اُسے قدم قدم پر آزمایا جاتا ہے۔ یہ آزمائش ہی اُس کے ایمان و عمل کو پختہ کرتی ہے۔ آزمائش سے بددل ہوجانے پر اللہ کی رضا کا دامن چُھوٹ جاتا ہے۔ انسان کیلئے اس سے بڑی نعمت کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اللہ سے راضی ہو اور اللہ اُس سے راضی ہو جائے؟ ایمان کا حامل ہونے کا دعوی ٰکرنے والا ہر انسان یہی تو چاہتا ہے۔ ہمارے خالق و رب نے جو راستہ ہمیں سُجھایا ہے‘ اُسی پر چلتے رہنے میں ہمارے لیے خیر ہے۔ افکار و اعمالِ حسنہ کی بنیاد پر جنت کا وعدہ کیا گیا ہے‘ جو واقعی اللہ کے بندے ہوتے ہیں ‘اُن کے لیے دُنیا ہی میں کسی حد تک جنت کا اہتمام کردیا جاتا ہے۔ حقیقی اور مکمل قلبی سُکون جنت کی ایک جھلک کے سوا کیا ہے۔ محمد علی جوہرؔ نے خوب کہا ہے ؎ 
ہر رنگ میں راضی بہ رضا ہو تو مزا دیکھ 
دنیا ہی میں رہتے ہوئے جنت کی فضا دیکھ 
الغرض دنیا کو دارالمحن سمجھنے والے ہی فائدے میں رہتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved