تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     23-06-2020

چین کو کیا ہوا؟

کشمیر کا تنازعہ 1947ء سے حل طلب ہے۔ پاکستان اور انڈیا کی رضامندی سے مسئلے کے مستقل حل کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادیں ریکارڈ پر موجود ہیں اور دینا اسے تسلیم کرتی ہے‘ لیکن پاکستان دشمنی کی آگ میں جلنے والی مودی سرکار نے گزشتہ برس پانچ اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور ازخود مقبوضہ وادی کی بندر بانٹ کرلی۔ بھارتی آئین میں ترمیم کی اور یوں مودی نے یکطرفہ طور پر اعلان کردیا کہ'' برسوں پرانا مسئلہ ہم نے حل کردیا ‘اب آگے بڑھنے کا وقت ہے اور ہم مزید آگے جائیں گے ‘آزاد کشمیر اور پھر گلگت بلتستان بھی آزاد کرائیں گے‘‘ ۔مودی نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ سب کْچھ تو ایک ٹریلر ہے‘ آنے والے دنوں میں اور بھی بہت کْچھ ہوگا ۔مودی نے یہ اقدامات کرکے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کی ایک نئی مثال قائم کی‘ گیارہ ماہ ہونے کو ہیں مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن‘ ریاستی دہشت گردی ایسے تمام حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ بھارتی دہشتگردی عروج پر ہے اور کوئی دن نہیں گزرتا کہ محکوم کشمیریوں کو لاشیں نہ اٹھانی پڑیں ۔مودی اور بھارتی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے تئیں اگست پانچ کو آرٹیکل 370 اور 35A ختم کرکے پاکستان کو ٹیکہ لگایا تھا اور پاکستان کی طرف سے بھی بھارت کے اس اقدام پر زیادہ زور تھیوریٹیکلی دیا گیا ‘ کسی قسم کا عسکری اقدام یعنی بھارت سے لڑائی میں پہل کا آپشن بند ہی رکھا گیا ‘اس پر ہم بدستور کاربند ہیں۔ پاکستان کی طرف سے لڑائی نہ کرنے کے پیغام کے بعد مودی سرکار نے مزید سینہ چوڑا کیا اور دہشتگردی اور انتہا پسندی کے منشور سے آراستہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے مکروہ چہرے وزیردفاع راج ناتھ سنگھ اور وزیرِداخلہ امیت شا نے بھارت میں ہندو انتہا پسندی کو ہوا دی اور'' بھارت صرف ہندوؤں کیلئے‘‘ کا نیا نعرہ دیا۔ بھارت میں قومی رجسٹریشن کا نیا قانون متعارف کروایا اور شہریت میں ترمیم کا نیا قانون نافذ کیا جس کے بعد بنگلہ دیش میں بھی خطرے کی گھنٹے بجی اور اقوامِ عالم نے بھی ہندوتواکے نئے فلسفے پر خطرہ محسوس کیا کیونکہ سکھوں اور مسلمانوں کے بعد اگلی باری عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کی تھی جنہیں مودی سرکار نے بھارت میں ٹھکانے لگانا تھا۔ اس ایجنڈے پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں‘ مذہبی رواداری کو دیکھنے والے ادارے اور یہاں تک کہ جینوسائیڈ واچ نے بھی بھارت کو اقلیتوں کیلئے خطرناک ملک قرار دے دیا۔ 
مودی سرکار بڑی تجارتی منڈی ہونے کی وجہ سے بلیک میلنگ کی حد تک فائدہ اٹھایا۔ مودی سرکار نے بھی پاکستان کو فوکس کرکے دنیا بھر کی توجہ پاک انڈیا کشیدگی پر لگائے رکھی‘ لیکن ساتھ ساتھ اس سارے پس منظر میں چین کو بھی چاروں طرف سے گھیرنے کیلئے دیگر بڑی طاقتوں سے مل کر اپنا ایجنڈا جاری رکھا۔ سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کیلئے پاکستان کو تو داخلی بدامنی کیلئے ٹارگٹ کیا ہی ہواتھا‘ساتھ ساتھ امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے اور جنوبی ایشیا کا سرخیل بننے کیلئے چین کو بھی چیلنج کرنا شروع کر دیا اور چین کی بحری تجارتی ناکہ بندی کرنے کیلئے امریکہ کا فرنٹ مین بن کر آسٹریلیا سے معاہدے کئے اور نیپال کے علاقوں پر بھی قبضہ شروع کردیا۔ 
اگست پانچ کے بعد بھارتی وزیرِداخلہ امیت شاہ نے لوک سبھا میں خطاب کرتے ہوئے اپنا خبثِ باطن یہاں تک ظاہر کردیا کہ ''جب ہم کشمیر مدعے کی بات کرتے ہیں تو اس میں آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان سے واپس لینا اور چین سے اکسائی چن اور لداخ کے علاقے واپس لینا بھی شامل ہے ‘‘۔ امیت شا کا یہ بیان کسی اور نے نوٹ کیا یا نہیں‘ لیکن چین کے پالیسی سازوں نے ضرورغور سے سن لیا اور اس کی حدت بھی محسوس کرلی اور نیپال کے علاقوں میں انڈیا کی طرف سے نئی دفاعی انفراسٹرکچر کی تعمیر اور شمالی علاقوں یعنی لداخ کی گلوان وادی کے گردو پیش فوجی تنصیبات کی تعمیر‘ ایسے منصوبوں سے چین کیلئے اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ یہ ایک توسیع پسندانہ پلان لگتا ہے جس کا مقصد چین کو کمزور کرنا تھا اور اس کے اثرات یقینی طور پر پاکستان پربھی پڑنا تھے۔ غالب امکان یہی ہے کہ اس کے بعد چین نے اپنی نئی حکمت عملی ترتیب دی اور بالکل خاموشی سے چین نے لداخ اور گلوان وادی میں جو کْچھ انڈیا کے ساتھ کیا اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اب تک ایک گولی فائر کیے بغیر چین سرکاری اعلان کے مطابق 80 کلومیٹر جبکہ انڈیا کے آزاد ذرائع کے مطابق 135 کلومیٹر اندر آچکا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں اپنی فوج شمالی علاقوں میں پہنچا چکا ہے‘ ائیر بیس تعمیر کرچکا ہے اور پہلے سمجھانے کی غرض سے بھارتی فوجیوں کی ڈنڈوں سے پٹائی کی‘ دھکے دیے مُکے اور ٹھنڈے مارے‘ لیکن مودی‘ امیت شا اور راج ناتھ کے ہندوتوا ایجنڈے کو کب یہ بات سمجھ آتی تھی‘ اور پھر سپر پاور امریکہ کی آشیر باد ہو تو علاقے میں بدمعاشی کرنے کا مزہ ہی کْچھ اور ہے۔ انڈیا باز نہ آیا اور کمانڈو آپریشن کرکے چین سے علاقے واگزار کروانے کی کوشش کی تو چینی فوج نے پھر ایک گولی چلائے بغیر بیسیوں بھارتی فوجیوں کو بشمول افسروں کے آہنی سلاخوں اور کیل لگے ڈنڈوں سے مار مار کر مار ا کئی گھنٹوں تک انڈیا اس پر کوئی ردعمل نہ دے سکا۔ پہلے عبرتناک شکست اور جانی نقصان کو چھپانے کی کوشش کی‘ لیکن لاشوں سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے‘ بالآخر مودی سرکار نے سب کْچھ تسلیم کرلیا‘ لیکن چین کو کوئی جواب نہیں دیا جا سکا ۔امریکہ بھی انڈیا کی براہ راست مدد کرنے یا حمایتی بننے سے انکار کرچکا ہے‘ دہلی میں بند کمروں کے بڑے بڑے اجلاس ہورہے ہیں لیکن مودی‘ اجیت ڈوول‘ را چیف اور فوجی قیادت کی طرف سے چین کو'' سبق سکھانے ‘‘کا کوئی بیان سامنے نہیں آرہا۔ فوجی‘ سفارتی اورسیاسی‘ ہر سطح پر چین کی منت سماجت کی جارہی ہے‘ لیکن چین ایک لفظ سننے کو تیار نہیں ۔ دلی کے بند کمروں کے اجلاسوں میں نتیجہ یہ نکالا گیا ہے کہ بھارت سرکارچین سے لڑنے کی پوزیشن میں نہیں اور نہ ہی بھارتی فوج کو چین سے ٹیکٹیکل لڑائی لڑنے کی تربیت ہے۔ انڈیا سرکاری سطح پر تسلیم کرتا ہے کہ چین کا انڈیا کے زیرانتظام نوے ہزارمربع کلومیٹر رقبے پر دعویٰ ہے اور اڑتیس ہزار مربع کلومیٹر چین کے پاس ہے‘ مزید چار ہزار کلومیٹر وہ اب لے چکا ہے‘ جبکہ بقیہ علاقہ چین واپس لینا چاہتا ہے۔ یوں شاہراۂ قراقرم اور گلگت بلتستان تک رسائی حاصل کرنے کا بھارتی منصوبہ ناکام ہوچکا ہے۔
کھیل ابھی جاری ہے‘ جنوبی ایشیا میں نئی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں‘ راج ناتھ ماسکوپہنچ چکے ہیں روس سے درخواست کی ہے کہ چین سے ہماری معافی تلافی کروادیں‘ساتھ ہی روس کو لالچ دیں گے کہ ہم آپ سے ڈیفنس میزائل سسٹم خریدنا چاہتے ہیں۔ انڈیا مشکلات کا شکار ہے‘ اجیت ڈوول ڈاکٹر ائن اپنی موت آپ مرچکی ہے‘ پاکستان کو 27فروری کا جواب نہ دے سکے اور اب چین سے معافیاں مانگنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔چین وہ ملک ہے جو پاکستان کو ہمیشہ تحمل کا مشورہ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ پہلے اپنے آپ کو مضبوط اور مربوط کرو پھر انڈیا کے ساتھ کسی تنازعے کے حل کا سوچنا ۔اس لیے چین نے اپنے عالمی تنازعات بغیر لڑے حل کیے ہیں اور وہ پاکستان کو بھی اسی پالیسی کا درس دیتا ہے‘ لیکن چین انڈیا کے ساتھ یکدم اتنا جارح کیوں ہوا؟اور تو اور کشمیریوں کی مدد کیلئے مقبوضہ کشمیر میں فوج اتارنے کا الٹی میٹم! کیا ہم بحیثیت قوم اور ہماری قیادت تیار ہیں؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved