تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     23-06-2020

کوروناسے موت … ایک ذاتی نوعیت کا صدمہ

ہفتے کے روز شام چھ بجے کے قریب ایک دوست نوید آفتاب کا اسلام آباد سے فون آیا تو چائے کا کپ میرے ہاتھ میں تھا جسے میں نے میز پر رکھ دیا۔ نوید نے ابتدائی تمہید باندھنے کے بعد ایک افسوسناک خبر سنائی جسے سن کر چائے کا کپ وہیں دھرے کا دھرا رہ گیا اور میں گہرے صدمے میں ڈوب گیا۔
شیخ توقیر احمد کو خدا سلامت رکھے میرے بچپن کے دوست ہیں۔ سرگودھا میں ہم سکول فیلو تو تھے مگر کلاس فیلو نہ تھے۔ بعدازاں گورنمنٹ کالج سرگودھا اور پھر پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس لاہور میں ہم کلاس فیلو تھے۔ یونیورسٹی میں تو ہم نہ صرف کلاس فیلو بلکہ ہوسٹل فیلو بھی تھے اور پروفیسر وارث میر ہمارے ہوسٹل کے وارڈن تھے۔ شیخ توقیر احمد سے دوستی کالج میں قائم ہوئی جو یونیورسٹی میں پختہ ہوئی اور پھر گزرتے مہ و سال کے ساتھ ساتھ مزید پختہ ہوتی چلی گئی۔ سرگودھا کے دوستوں کی کہکشاں کے ایک اور درخشندہ ستارے فاروق گیلانی‘ شیخ توقیر احمد اور راقم الحروف نے آگے پیچھے سی ایس ایس کر لیا تھا۔ میرا نمبر اُن سے تھوڑا سا پیچھے تھا۔ ان دونوں دوستوں نے اسلام آباد میں ملازمت جائن کر لی اور میں سعودی وزارتِ تعلیم میں اپنے شوقِ تدریس کی تکمیل کیلئے طائف چلا گیا۔ یوں ہم سب اپنے اپنے طور پر رہینِ ستم ہائے روزگار رہنے کے باوجود ایک دوسرے کے خیال اور احوال سے غافل نہ رہے۔ نوید آفتاب نے مجھے افسوسناک خبر یہ سنائی تھی کہ پندرہ روز پہلے شیخ توقیر احمد اور اُن کی اہلیہ کوروناکا شکار ہوئے جس کے بعد دونوں گھر میں الگ الگ کمروں میں قرنطینہ ہو گئے۔ چند روز بعد شیخ صاحب کا بخار قدرے کم ہو گیا۔ مسز شیخ کا بخار بھی اُتر تو گیا مگر طبیعت بگڑنے پر انہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں وہ چند روز موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہ کر راہیٔ ملکِ عدم ہو کر شہادت کا درجہ پا گئیں۔مجھے مریم گیلانی نے بتایا کہ مسٹر اور مسز شیخ کوروناکے معاملے میں بہت احتیاط پسند تھے مگر وہ مئی کے اواخر میں ایک قریبی عزیز کی تعزیت کیلئے سرگودھا گئے اور وہاں تین روز مقیم رہے۔ بعدازاں مجھے شیخ توقیر احمد نے براہِ راست بتایا کہ سرگودھا میں لوگوں نے پرانے روایتی طریقہ سے ہی اظہارِ افسوس کیا اور یہی صورتِ حال خواتین کی طرف بھی ہو گی۔ عید کے موقع پر سرگودھا کے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ہم نے تو ٹخنوں سے ٹخنے جوڑ کر نمازِ عید ادا کی تھی۔ یہی حال فیصل آباد کا تھا۔ وہاں کے دوستوں کو آپ کوروناکی تباہ کاریوں کے بارے میں بتاتے تو وہ اُلٹا آپ کو دو تین جگتوں سے نواز دیتے تھے۔ اب سرگودھا اور فیصل آباد میں کوروناکا راج ہے اور جاں بلب مریضوں کیلئے سرکاری یا پرائیویٹ ہسپتال میں کوئی بیڈ نہیں ملتا۔ 
اب ذرا کوروناکی موت اور ہولناک تدفین کا منظر بھی دیکھ لیجئے۔ وہ شیخ توقیر احمد جو تقریباً 35 برس تک یہاں نہایت وقار کے ساتھ ملازمت کرتے رہے ہیں اُن کی طبیعت میں عاجزی و انکساری درجۂ کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ گریڈوں کے اسی شہر میں وہ سیکشن افسر سے ترقی کر کے ایڈیشنل سیکرٹری کے رتبے تک یوں پہنچے کہ اُن کے حسنِ سلوک کے افسروں سے زیادہ نائب قاصد گرویدہ تھے۔ جہاں تک اس دنیا سے رخصت ہونے والی مسز شیخ کا تعلق ہے تو وہ ہر کسی کے دکھ سکھ میں شریک ہوتیں اور ان کے ساتھ اخلاص سے پیش آتیں۔ موت کا ذائقہ ہر ذی نفس نے چکھنا ہے۔ عام حالات میں وہ فوت ہوتیں تو اُن کے جنازے میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں لوگ تو ضرور شامل ہوتے مگر ہفتے کی روز علی الصباح اُن کے جنازے میں صرف اُن کے میاں شیخ توقیر احمد‘ اُن کا ایک بیٹا‘ فاروق گیلانی مرحوم کا صاحبزادہ عمر‘ ڈاکٹر تنسیر اور ابوبکر کل پانچ افراد شامل تھے۔ بے بسی کا یہ عالم تھا کہ اسلام آباد میں شیخ صاحب کے گھر سے صرف تین منٹ کی ڈرائیو پر اُن کی صاحبزادی اور داماد ایک سرکاری بستی میں مقیم ہیں جہاں کے آہنی قواعد و ضوابط کے مطابق وہاں نہ اندر سے کوئی باہر آ سکتا ہے اور نہ باہر سے کوئی اندر جا سکتا ہے۔ یوں غمزدہ بیٹی اس سرکاری بستی کے ایک کمرے میں الگ بیٹھی آنسو بہاتی رہی اور اپنی مادرِ مہرباں کے یکایک دنیا سے چلے جانے پر اپنے والد کے حضور حاضر ہو کر اظہارِ غم بھی نہ کر سکی۔ شیخ صاحب کا ایک صاحبزادہ بغرضِ ملازمت ریاض سعودی عرب میں مقیم ہے وہ بھی نہیں آ سکا۔ یہ ہے کوروناموت اور تدفین کا ہولناک منظر۔
پاکستان میں کوروناکے پونے دو لاکھ سے اوپر مریض ہیں اور اب تک 3600 اموات ہو چکی ہیں۔ اگر کوروناپھیلنے کی یہی رفتار رہی اور اسی طرح شرح میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہا تو پھر اللہ ہی جانتا ہے کہ ہمارا حال کیا ہو گا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے لاہوریوں کے نان سیریس طرزِعمل کو بجا طور پر نشانۂ تنقید بنایا ہے‘ مگر انہیں پورا سچ بولتے ہوئے یہ بھی بتانا چاہئے تھا کہ کوروناکے علاج کے بارے میں عوام ہی نہیں حاکم اعلیٰ بھی نان سیریس ہیں۔ جہاں تک ڈاکٹر ظفر مرزا کا تعلق ہے وہ نجی محفلوں میں کوروناکے بارے میں شدید تشویش کا اظہار کرتے ہیں‘ مگر جناب عمران خان کے سامنے پورا سچ وہ بھی نہیں بولتے۔ اب مرزا صاحب فرماتے ہیں اگر کوروناکے مریضوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے تو پھر میں مکمل لاک ڈائون کی تجویز حکومت کو دوں گا۔ سبحان اللہ کیا منطق ہے۔
حکومت کو کیا کرنا چاہئے؟ پہلے بھی حکومت کو جو بروقت کرنا چاہئے تھا وہ اس نے نہیں کیا۔ جناب عمران خان کوروناپر غلبہ پانے والے کسی ملک کا نام لینے کے بجائے ڈونلڈ ٹرمپ کی ناکام کوروناپالیسی کا بطورِ مثال تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ وہ چین‘ جنوبی کوریا اور نیوزی لینڈ جیسے کسی کامیاب ملک کی پالیسی کی طرف نہیں گئے۔ اگر وژن واضح ہو تو پھر اتحاد و اتفاق کے ساتھ کوئی نہ کوئی حل نکل آتا ہے۔ تاہم حکومت اگر پڑھنا چاہے تو جلّی حروف میں لکھا نوشتۂ دیوار پڑھ لے کہ اگر یہی حال رہا تو صرف دو ہفتوں کے بعد ہسپتالوں میں کوروناکے علاج کیلئے ڈاکٹرز ہوں گے‘ نہ نرسیں اور نہ ہی پیرا میڈیکل سٹاف۔ اس وقت تک طبی عملے کے 4855 افراد کوروناسے متاثر ہو چکے ہیں۔ جس طرح سے مریضوں کے لواحقین ڈاکٹروں اور نرسوں کو زدوکوب کر رہے ہیں‘ جیسا کہ دو تین روز پہلے گوجرانوالہ کے سرکاری ہسپتال میں رونما ہونے والا افسوسناک واقعہ ہے‘ حکمران بیچارے ڈاکٹروں کو کورونااور مریضوں کے تندخو اور کم علم لواحقین کے سپرد کر کے خود چین کی بنسری بجا رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خوفزدہ خواتین ڈاکٹرز اور نرسیں اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالنے اور کوروناگھر لا کر اپنے اہلِ خانہ کو اس کے خطرے سے دوچار کرنے کے بجائے گھر بیٹھنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ کوروناسے شہید ہونے والے ڈاکٹرز‘ نرسز اور پیرا میڈکس کی تعداد 65 ہو چکی ہے۔ اسی طرح آکسیجن سلنڈرز کی بھی شدید کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ اتنی ہولناک صورتحال کو تمام اختلافات بھلا کر مل جل کر حل کرنے کی بجائے حکومتی کارندے دوسرے صوبوں کے دور دراز شہروں کے ہسپتالوں میں جھانکتے پھر رہے ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن‘ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن اور ینگ ڈاکٹرز کا متفقہ مطالبہ یہ ہے کہ حکومت ایک لمحہ ضائع کئے بغیر عالمی ادارئہ صحت کی ہدایت کے مطابق دو ہفتے کا مکمل لاک ڈائون کرے اور زیادہ سے زیادہ تین۔ حکومت جو فیصلہ کرتی ہے اس کا اعلان تو ٹیلی وژن چینلوں پر کر دیتی ہے مگر اس پر عمل درآمد بالکل نہیں کراتی۔ میری قارئین کرام اور دوست احباب سے یہ درخواست ہو گی کہ حکومت تو جو کر رہی ہے اسے کرنے دیں مگر آپ زیادہ سے زیادہ احتیاط کریں۔ کوروناسے بچنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved