تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     23-06-2020

مغرب سے اُبھرتا ہوا سورج

بال جبریل کی نظم نمبر136 کے پہلے شعر کے دوسرے مصرع میں روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتے وقت اُسے آنکھیں کھول کر زمین‘ فلک اور فضا دیکھنے کا مشورہ اس لئے دیتی ہے کہ وہ مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو دیکھ سکے۔ یہ نظم تقریباً سو سال پہلے لکھی گئی‘ اُس وقت انسان کی عصری تاریخ کے اُفق پر طلوع ہونے والے سورج کو دیکھنے کیلئے مشرق کے طرف مُنہ موڑنا ضروری تھا۔ جاپان اتنا آگے نکل چکا تھا کہ اُس کی بحریہ نے روس کی بحریہ کو شکست دے کر اپنی برتری کا سکہ منوا لیا۔ یہ وہ دور تھا جب بقول اقبال گراں خواب چینی سُنبھلنے لگے تھے ‘ہندوستان جس برطانوی سلطنت کا حصہ تھا وہ اتنے عروج پر تھی کہ اُس پر سورج غروب نہ ہوتا تھا‘ عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹ چکا تھا اور خون صدِ ہزارانجم سے سحر کو پیدا ہونے میں بھی لمبا عرصہ درکار تھا۔ ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ‘ان تینوں براعظموں کے ممالک پر کسی نہ کسی یورپی ملک کا سامراجی قبضہ تھا۔ چار سُو اندھیرا ‘ غلاموں کی ہتھکڑیوں اور پائوں کی بیڑیوں کے شور کے علاوہ کوئی آ واز سنائی نہ دیتی تھی۔ ہماری خوش نصیبی کہ اس اندھیرے میں چار روشن دماغوں نے اپنے فکر و عمل سے وہ چراغ روشن کئے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے ایک نئے روشن دور (نشاۃ ثانیہ) کا آغاز ہوا اور وہ تھے: عبید اللہ سندھی‘ جمال الدین افغانی‘ سرسید احمد خان اور علامہ محمد اقبال۔ اقبال کو موسمِ خزاں میں شجر سے ٹوٹ جانے والی ٹہنی بخوبی نظر آتی تھی مگر وہ ہمیں یہ اُمید دلاتے دنیا سے رخصت ہؤے کہ ہم حد درجہ دل گرفتہ نہ ہوں‘ ممکن ہے کہ جب آنے والے دور میں سحاب کے جھونکے چلیں تو سُوکھی ہوئی ٹہنی پھر ہری ہو جائے۔ بدقسمتی سے وہ مبارک دور تو ابھی نہیں آیا‘ لیکن ایک معجزہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ انسان دوستی کا سور ج اب مغرب سے طلوع ہو رہا ہے او ریہی آج کے کالم کا عنوان ہے۔
انقلاب ایران‘ ترکی میں طیب اردوان کا عہدِ اقتدار اور تیونس‘برطانیہ اور امریکہ پر ایک نظر ڈالیں۔ برطانیہ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت (لیبر پارٹی) نے اتنے برس Jeremy Corbyn کو اپنا قائد بنائے رکھا‘ جنہوں نے اس پارٹی کو پھر راہِ راست دکھایا ۔ صد افسوس کہ وہ یورپی یونین سے نکل جانے کے خار زار میں اُتنی برُی طرح اُلجھی کہ اُسے انتخابات میں دوبار شکست ہوگئی مگر لیبر پارٹی کا قبلہ درست ہو گیا‘ مگر بڑی اور زیادہ اثر انگیز تبدیلی امریکہ میں دیکھنے میں آئی ہے جس کا سہرا امریکی پارلیمنٹ (کانگرس)کے ایوانِ بالا (سینیٹ) کے دو اراکین کے سروں پر باندھا جانا چاہئے۔ Bernie SandersاورElizabeth Warren ۔یہ دونوں اس سال موسم خزاں میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے ٹکٹ کے اُمیدوار تھے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ ان میں کسی ایک کو ان کی پارٹی کے اراکین کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو جاتی‘ مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوا اور اب صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ (ری پبلیکن پارٹی کے اُمیدوار) کا مقابلہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے Joe Bidenسے ہوگا ‘جو اس وجہ سے کامیاب رہے کہ وہCentrist ہیں اور بارک ا وبامہ کے دورِ صدارت میں نائب صدر ہونے کی وجہ سے سیاہ فارموں میں مقبولیت حاصل کی ۔ امریکہ میں مذکورہ بالا دونوں سینیٹرز نے اپنی انتخابی مہم کے دوران تقریباً ہر روز کسی نہ کسی جلسہ سے خطاب کیااور عوام کی اکثریت کو قائل کر لیاکہ جب تک نیو یارک کی وال سٹریٹ (اربوںٖ ڈالرز مالیت کی کمپنیوں) کے بے لگام گھوڑے کو زیادہ ٹیکس کی ادائیگی‘ احتساب‘ شفافیت اور عوام دوستی کے رسوں سے نہیں باندھا جاتا وہ امریکی حکومت اور اُس کی پالیسی پر غالب رہے گی۔ ان دونوں عوام دوستوں کی محنت ان معنوں میں رنگ لائی کہ امریکہ کا سیاسی ماحول بدل گیا‘ وہی امریکہ جہاں ماضی قریب میں لبرل کا لفظ ایک گالی سمجھا جاتا تھا‘ آج وہاں ڈیمو کریٹک پارٹی کے اراکین کی اکثریت اپنے آپ کو خوف زدہ یا شرمندہ ہوئے بغیر سوشلسٹ کہتی ہے۔ امریکہ کے سیاسی ماحول اور سیاسی فضا میں اتنی بڑی تبدیلی آئی ہے کہ بائڈن اپنے انتخابی منشور میں یہ وعدہ شامل کرنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ اگر وہ صدر بن گیا تو امریکہ میں زیر تعلیم طلبا اور طالبات کو فیس ادائیگی میں بڑی رعایت دے گا۔ بائڈن نے برنی اور ایلزبیتھ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اُسے فخر ہے کہ وہ ان عوام دوست سیاسی رہنمائوں کی انقلابی اصلاحات کیلئے مجوزہ انقلابی تجاویز کو اپنا کر ایسے منشور کے پرچم تلے اپنی صدارتی مہم چلائے گا جو دس برس پہلے تک ناقابل تصور تھا۔ بائڈن نے یہ بھی کئی بار دہرایا ہے کہ کورونا وائرس نے امریکی معاشی نظام کو جتنی برُی طرح متاثر کیا ہے اُس کا مداوا کرنے کیلئے امریکی حکومت کو آئینِ نو سے ڈرنے اور طرز کہن پر اُڑنے کی بجائے (بقول اقبال) ایک نیا شوالہ بنانے کی ضرورت ہے۔ بائڈن کے الفاظ میں ضرورت جس چیز کی ہوگی وہ To Think Big کا تقاضا کرے گی۔ بائڈن کی نظر میں امریکہ کے معاشی نظام کی ریڑھ کی ہڈی اُس کا متوسط طبقہ ہے اور حکومت کو اُس حکمت عملی پر عمل کرنا پڑے گا جو متوسط طبقہ کو وسیع تراور زیادہ توانابنائے۔ بائڈن نے جو ٹھوس تجاویز پیش کی ہیں اُن میں سرفہرست یہ ہے کہ ہر طالب علم کے قرض سے کم از کم دس ہزار ڈالر تفریق کر دیئے جائیں۔ امریکہ میں اوسطاً یونیورسٹی تعلیم کے حصول کیلئے 30 ہزا ڈالر خرچ آتا ہے اور اس کی ادائیگی کیلئے طالبعلموں کو بینکوں سے قرض لینا پڑتا ہے۔ ماہرین کے لگائے گئے محتاط تخمینہ کے مطابق مذکورہ بالا قرض کا کل حجم 1.6 کھرب ڈالرتک جا پہنچا ہے۔ بائڈن نے صحت کے میدان میں بھی ایک اچھی تجویز پیش کی ہے کہ سرکاری سطح پر صحت کی انشورنس کے نظام میں رجسٹریشن کیلئے کم از کم عمر 65 کی بجائے 60 سال کر دی جائے۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کے نوجوان اراکین کی بڑی اکثریت نے برنی کی پرُ جوش حمایت کی کہ بائڈن اُنہیں نظر انداز کر کے صدارتی انتخاب نہیں جیت سکتا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ امریکہ اپنی معاشی اور فوجی قوت کے باوجود ایک وائرس کے سامنے چاروں شانے چت گر گیا۔ امریکہ کی بدنصیبی ملاحظہ فرمائیں کہ امریکی حکومت اپنے توجہ نظام صحت کو بہتر بنانے کی بجائے اپنے سامراجی ارادوں کی تکمیل کے سراب کے پیچھے بھاگ رہی ہے‘ جس کی ایک مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ امریکہ نے عراق میں حزب اللہ کے سربراہ شیخ محمد الکوثرانی کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر رکھی ہے۔ اُن کا جرم یہ ہے کہ وہ ماضی قریب میں امریکی ڈرون سے چلائے جانے والے مزائل سے شہید ہو جانے والے ایرانی جرنیل قاسم سلیمانی کے جانشین ہیں۔ 
آج کا کالم شکاگو کے مزدوروںاور 70 سال پہلے امر ہوجانے والے روزن برگ جوڑے (جسے روس کو ایٹمی راز دینے کے جرم میں سزائے موت دی گئی اور فیض صاحب نے ان کا مرثیہ لکھا) پر ِ تحسین کے پھول نچھاور کئے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ امریکی تاریخ میں اور بھی کئی بہادر ‘ بااصول اور عوام دوست لوگوں کے نام جگمگاتے ہیں۔ فنکاروں اور ادیبوں میں اداکار چارلی چپلن اور تمثیل نگار آرتھر ملر قابل ذکر ہیں۔ افسوس کہ اب کم جگہ باقی رہ گئی اس لئے میں آپ کا Rose Stokes سے تعارف نہیں کرا سکتا ہوں۔ انہوں نے نامساعد حالات میں امریکہ میں اشتراکی نظریات کے پرچار کا پہلا چراغ جلایا۔ ان کا امریکی تاریخ میں وہی مقام ہے جو ہماری تاریخ میں حسرت موہانی کا۔ ان دونوں نے چکی کی مشقت اور مشقِ سخن بیک وقت جاری رکھی۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ اہلِ امریکہ نے اُنہیں اسی طرح بُھلا دیا جس طرح ہم نے حسرت موہانی کو‘ مگر آج ان دونوں کی رُوحیں یہ دیکھ کر خوش ہوں گی کہ سورج مغرب سے طلوع ہورہا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved